تماشا کب ختم ہو گا

اسی تحریر میں یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ ’’انتخابی فہرستوں سے دھاندلیوں کا آغاز ہوتا ہے۔


نجمہ عالم March 27, 2015
[email protected]

MARANA: ملک کی ایک بڑی، ہردلعزیز، مقبول، محب وطن اور انصاف پسند سیاسی جماعت ''تحریک انصاف'' کے دیرینہ مطالبے پر انتخابات میں مبینہ (مصدقہ) دھاندلی کی تحقیقات پر جوڈیشل کمیشن اتفاق رائے سے تشکیل پا گیا ہے۔ قوم کو مبارک ہو۔

ایک معاصر اخبار نے اس کمیشن کی تشکیل کو تحریک انصاف کی 14 اگست 2013ء کو شروع ہونے والی ''زبردست تحریک'' کا نتیجہ قرار دیا ہے کہ جس کے زیر اثر حکومت کو مجبوراً ان کا مطالبہ تسلیم کرنا پڑا۔ ساتھ ہی وہ لکھتے ہیں کہ ''یہ مطالبہ تسلیم کرنا اس لحاظ سے خوش آیند ہے کہ احتجاج اور مظاہروں کا سلسلہ معطل ہو گیا۔ کیونکہ ان کے باعث عام آدمی کی زندگی اور حکومت کی کارکردگی بری طرح متاثر ہو رہی تھی۔''

اس چھوٹے سے اقتباس میں دو جگہ ہماری معلومات خاصی ناقص نکلیں اولاً یہ کمیشن تحریک انصاف کی زبردست احتجاجی تحریک اور دھرنوں کے نتیجے میں مجبوراً حکومت کو تشکیل دینا پڑا۔ کیونکہ ہماری اطلاعات کے مطابق 16 دسمبر کو آرمی پبلک اسکول کے سانحے کو موقع غنیمت جان کر یہ تحریک اور دھرنے باعزت طور پر ملتوی کر دیے گئے تھے اور حکومت اس وقت ''مجبور'' نہیں ہوئی تھی، ثانیاً جب یہ احتجاج اور مظاہرے دسمبر ہی میں ختم کر دیے گئے تھے تو پھر اب کون سے مظاہروں کا سلسلہ معطل ہوا کہ جو خوش آیند بھی ہے؟

اسی تحریر میں یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ ''انتخابی فہرستوں سے دھاندلیوں کا آغاز ہوتا ہے۔ مشورہ دیا گیا ہے کہ مجوزہ جوڈیشل کمیشن صرف دھاندلی ہونا نہ ہونا ہی دریافت نہ کرے بلکہ دھاندلی کرنے والوں کے خلاف سخت سزائیں بھی تجویز کرے۔'' پہلی بات کہ دھاندلیوں کا آغاز انتخابی فہرستوں سے ہوتا ہے، کا ہماری ناقص رائے میں جواب یہ ہے کہ دھاندلی کا آغاز سیاسی جماعتوں میں امیدوار خریدنے جی ہاں امیدوار خریدنے یعنی ٹکٹ فروخت کرنے سے ہوتا ہے۔

اگر پارٹیاں اپنے ٹکٹ ان مخلص کارکنوں کو جو رات دن پارٹی کے لیے کام کرتے ہیں ان کے حق میں گلے پھاڑ کر نعرے لگاتے ہیں۔ دھوپ میں گرمی، بارش میں ان کی انتخابی مہم چلاتے اور جلسے جلوس کامیاب کراتے ہیں، ان کو دیے جائیں تو شاید کسی تبدیلی یا ووٹ کی خاطر غریب نواز منشور کے کسی حصے پر کبھی تو عمل ہو سکے، مگر یہ کیسے ممکن ہے؟ پڑھے لکھے باصلاحیت کارکنان اسمبلی میں اس لیے نہیں جا سکتے کہ باوجود پارٹی سے اپنی تمام تر نظریاتی وابستگی اور پرخلوص خدمات کے پارٹی ٹکٹ خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے اور نہ انتخابی مہم کے اخراجات برداشت کر سکتے ہیں۔

لہٰذا دھاندلی کا آغاز بھی اسی ''نقطہ آغاز'' سے ہوتا ہے۔ جہاں تک دھاندلی کرنے والوں کو سخت سزا دینے کی تجویز ہے، بے شک بہت عمدہ مگر دھاندلی کرنے والوں کا تعین کس بنیاد پر کیا جائے گا؟ آپ کے خیال میں جو دوسروں کے ووٹ بھگتائے؟ جو کئی کئی حلقوں میں مختلف ناموں سے ووٹ ڈالے؟ وغیرہ وغیرہ تو جناب ایسا شخص کس اصول کے تحت سزا کا مستحق ہوا؟

جب ملک کا ہر فرد ہر ادارہ اپنے مفاد کے لیے اعلیٰ سطح پر بدعنوانی کا مرتکب ہے اور اس کو کوئی سزا بھی نہیں مل رہی تو پھر محض دو چار ووٹ ڈالنے والا کیسے سزا کا مستحق ہوا؟ آپ فرمائیں گے برائی بہرحال برائی ہے اور جہاں بھی گرفت میں آجائے اس کا خاتمہ قوم کے ہر فرد پر لازم ہے بالکل بجا تو پھر اس سزا کا اصل حقدار الیکشن کمیشن اور وہ ذمے داران ہیں جو اپنا فرض کماحقہ ادا نہیں کرتے۔

وہ ایسے تمام واقعات سے کھلی آنکھوں کیسے اغماض برتتے ہیں اور کیسے دھاندلی ہونے دیتے ہیں؟ اور کوئی بھی سیاسی پارٹی کتنی بھی طاقتور ہو اگر نظام درست ہو انتخابات کا سارا عمل شفاف ہو تو اس کو دھاندلی کا موقع ملنا ہی نہیں چاہیے۔ جب ذمے داران خود مواقعے فراہم کریں گے تو پھر بہتی گنگا میں سب ہی ہاتھ دھوئیں گے اور جو دھاندلی اور شفافیت کا شور مچاتے ہیں تو کیا وہ سب دودھ کے دھلے ہوئے ہیں۔

ان کی نظر میں دھاندلی کی تعریف یہ ہے کہ جہاں ہم ہارے وہاں دھاندلی ہوئی اور جہاں جیت گئے وہاں شفاف انتخاب ہوا۔ واہ بھئی واہ کیا منطق ہے۔میں پہلے بھی کئی کالموں میں لکھ چکی ہوں کہ 2013ء کے انتخابات میں گزشتہ کئی انتخابات کی طرح روایتی دھاندلی تو ہوئی مگر اس بار جو ایک نئی دھاندلی ''پری پولنگ دھاندلی'' کی شکل میں ہوئی اس کو سب نے نظرانداز کر دیا۔

یہ دھاندلی وہ ہے جو کئی سیاسی جماعتوں کو انتخابات سے باہر کر کے کی گئی، دھاندلی کی اہم شکل وہ جس کا میں پہلے ذکر کر چکی ہوں کہ باصلاحیت پڑھے لکھے اپنے اپنے شعبے کے ماہرین محض ناجائز دولت نہ ہونے کے باعث اپنی لیاقت و صلاحیت کی بنیاد پر اسمبلی کا رکن بن ہی نہیں سکتے، یعنی قوم کے 80 فیصد افراد کو تو آپ نے ویسے ہی انتخابی عمل سے باہر کر دیا۔ دھاندلی تو یہی ہے جو ہم نے بیان کی ہے۔ اور وہ نہ صرف گزشتہ بلکہ ہر انتخاب میں ہوئی ہے اور ہوتی رہے گی، اگر اب بھی درست سمت میں اصلاحات نہ ہوئیں تو۔

عوام کو طرح طرح کے عذاب میں مبتلا کر کے اچانک جبہ و دستار اور نیک عزائم ہر طرف ہر عمل میں شفافیت، جرائم پیشہ اور دہشت گردوں سے معاشرے کو صاف کرنا اور آدمی کو انسان نہیں بلکہ فرشتہ بنانے کی جو کوشش ہو رہی ہے، اطلاعات، حادثات اور سانحات اس کی چغلی کھاتے نظر آ رہے ہیں، تفصیل میں جانا مقصود نہیں مگر ہر روز کسی نہ کسی قومی ادارے میں کروڑوں بلکہ اربوں کے گھپلے قانون نافذ کرنے والوں کی بدعنوانیاں (وردی اور سادہ لباس میں لوگوں کو اٹھا کر بھتہ طلب کرنا اس کے باوجود چھوڑنے کے لیے مزید رشوت) کی خبریں ذرایع ابلاغ کی زینت بنتی ہیں۔

ایسے میں ساری غلط فہمیاں، رنجشیں بھلا کر اچانک یہ رویہ اختیار کرنا اور ایک دوسرے کا احترام ملحوظ خاطر رکھنا کہ ''ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو'' والی صورت بلاوجہ لوگوں کو شکوک و شبہات میں مبتلا کر دے اور لوگ بے اختیار کہہ اٹھیں ''ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ''۔ یہ محبت یہ پیار یہ سلوک، یہ احترام بہت کچھ کہہ رہا ہے کہ پردے کے سامنے کیا ہے اور پس پردہ کیا ہے اور ہمارے یہاں پردہ گرنے اور اٹھنے میں کیا دیر لگتی ہے؟ یہ کایا پلٹ بطور خاص کراچی کے حالات کے تناظر میں بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ ایک طالبان مخالف پارٹی کے گرد تو گھیرا تنگ ہو چکا اب دوسری کو گھیرنے کی تیاری مکمل ہو رہی ہے اور وہ جو طالبان کے لیے دل میں نرم گوشہ ہی نہیں، مذاکرات بلکہ دفتر کھلنے کے علاوہ ان کو کچھ علاقہ تک دینے (ایک اطلاع کے مطابق) کے حق میں تھے وہ آپس میں گلے مل رہے ہیں۔

میرا ایمان ہے جس ملک میں مافیا پنجے گاڑ لے وہاں کوئی بھی کام محض دکھاوے اور اپنے مقاصد کے حصول کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا۔ اگر کسی جماعت کی بقا میں مافیا کا مفاد ہے تو اس کو جمانے کے لیے سو طریقے سامنے آ جائیں گے اور اگر کسی کو دیوار سے لگانے بلکہ ختم کرنے میں ہی فائدہ ہے تو کوئی بھی حربہ اس مقصد کے لیے استعمال کرنے سے باز نہیں آئیں گے۔ جن کے حق میں بولنے والے جن کی حمایت کرنے والے ایک سے ایک دانشور مہیا ہو سکتے ہیں وہاں اگر ''صاحب'' کی نظر پھر جائے یا مفاد جدا ہو جائے تو ان کے خلاف ہر طرح اور ہر سطح کے گواہ مل جانا کیا مشکل امر ہے۔

ہمارے عوام کو اول تو بے خبر رکھا جاتا ہے، پھر عقل کے استعمال پر بھی پہرے ہیں تو وہ کیا جانیں کہ عالمی سطح پر کیسے کیسے منصوبے تشکیل پاتے ہیں کتنے ڈالر، پاؤنڈ، ریال اور درہم کن مقاصد کے لیے خرچ ہوتے ہیں۔ شام، عراق، افغانستان اور اب کسی حد تک پاکستان کے حالات کے چشم دید گواہ ہو کر بھی اگر ہمیں ہوش نہ آئے تو اس میں قصور ہمارا یا ہمارے 2 فیصد مفاد پرست آستین کے سانپوں کا؟

ملکی تاریخ پر سرسری نظر ڈالی جائے تو پتہ چل جائے گا کہ عوام کی حکومت عوام کے لیے عوام کے ذریعے کبھی قائم ہوئی؟ آخر چند چہرے، چند نام، چند خاندان ہمیشہ ایوانوں میں کیوں نظر آتے ہیں؟ اور کون ہے ان کے پس پشت؟ جو اس نظام کے خلاف بولے یا اس کو بدلنے کا سوچے اس سے بڑا مجرم بلکہ غدار وطن اور کون ہو گا۔ تاریخ گواہ ہے کہ فتح ظالم کی نہیں ظلم کا مقابلہ کرنے والے کی ہوتی ہے۔ ظلم پر گٹھ جوڑ عوام دشمن منصوبوں پر افہام و تفہیم سب برحق۔ ظاہر کی آنکھ سے جو تماشا نظر آئے کیا وہ حقیقی ہوتا ہے؟ نہیں وہ صرف تماشا ہے اور تماشا کرنے والوں کو بتایا جا چکا ہے کب تماشا ختم ہو گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں