حصول پاکستان کا مقصد
مسلمانوں کے لیے ایک آزاد، خودمختار اسلامی ریاست قائم کر دی جائے۔
تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ 23 مارچ 1940ء کو لاہور کے منٹو پارک میں پیش کی جانے والی ''قرارداد پاکستان'' درحقیقت اس بات کا اعلان تھا کہ برصغیر میں آباد دو قوموں مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان اب ایک جداگانہ لکیر کھینچ دی گئی ہے دونوں کے راستے جدا ہو چکے ہیں چونکہ مسلمان اقلیت میں ہیں لہٰذا ان کے بنیادی حقوق کے تحفظ اور ان کے دین اسلام کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہے کہ مسلمانوں کے لیے ایک آزاد، خودمختار اسلامی ریاست قائم کر دی جائے۔
بالآخر قائداعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت کے طفیل برصغیر کے مسلمانوں نے جو تاریخ ساز جدوجہد کی اسی کے صلے میں 14 اگست1947ء کو دنیا کے نقشے پر ایک آزاد و خودمختار اسلامی ملک پاکستان کا قیام عمل میں آ گیا۔ جہاں نہ صرف مسلمان اپنے دین اسلام کے مطابق اپنی روزمرہ زندگی گزارنے میں آزاد و خودمختار ہیں بلکہ اقلیتوں کو بھی ان کے اپنے اپنے عقیدے و مذہب کی بنیاد پر زندگی گزارنے کی مکمل آزادی حاصل ہے۔
امر واقعہ یہ ہے کہ ہمارے آباؤ اجداد، بانی پاکستان قائداعظم اور تصور پاکستان پیش کرنے والے علامہ اقبال نے ایک آزاد، خودمختار اور فلاحی اسلامی مملکت کا جو خواب دیکھا تھا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ بکھرتا اور ٹوٹتا چلا گیا۔ متحد و منظم ہو کر ایک بے مثال قائد کی رہنمائی میں تاریخی جدوجہد کر کے ایک آزاد ملک حاصل کرنے والے لوگ گردش لیل و نہار کا شکار ہو کر تقسیم در تقسیم ہوتے چلے گئے۔ زبان، علاقے، صوبے اور مذہبی فرقے و تعصب کی بنیاد پر چھوٹے بڑے گروہ تشکیل پاتے گئے۔
شیرازہ بکھرتا گیا ہر گروہ کا اپنا لیڈر اور اپنا رہنما ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا کر بیٹھ گیا۔ ملک و قوم کی فکر کرنے کی بجائے ذاتی، خاندانی، گروہی مفادات غالب آ گئے نتیجتاً ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر چلنے کی بجائے ایک دوسرے کے مقابل آ گئے۔ اب یہ حالت ہے کہ مسلمان مسلمان کا گلہ کاٹ رہا ہے۔
مسجد، امام بارگاہ، چرچ، گرجا، بازار، گلیاں، اسکول غرض ہر جگہ آگ و خون کا آلاؤ روشن ہے ہر گروہ، جماعت، تنظیم اور گروپ کو وطن دوستی کا دعویٰ ہے لیکن درون خانہ سب ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہیں۔ بعض شرپسند اور ملک دشمن سرگرمیوں میں انتہا تک جا چکے ہیں جس کے باعث ملک کا امن و سکون غارت ہو گیا۔
مذہب و ملک کو بدنام کیا جا رہا ہے۔ دین اسلام اقلیتوں کو مکمل تحفظ دیتا ہے لیکن سانحہ یوحنا آباد نے ہمارے سر شرم سے جھکا دیے اور ردعمل میں جو انسانیت سوز مظاہر دیکھنے میں آئے اس نے رونگھٹے کھڑے کر دیے قوم کے اندر صبر، تحمل، برداشت کی قوت ختم ہوتی جا رہی ہے ملک کے کسی ایک گوشے میں ہونے والے سانحے کے ردعمل میں پورے ملک کا امن و امان تہہ و بالا ہو کر رہ جاتا ہے۔
گزشتہ ایک دہائی سے پورا ملک سیکیورٹی رسک کا منظر پیش کر رہا ہے۔ قیام امن کی صورتحال اس قدر مخدوش ہو چکی ہے کہ گزشتہ 7 سال سے ہر سال 23 مارچ کو ہونے والی پاک فوج کی یادگار قومی پریڈ ملتوی ہوتی رہی، تاہم موجودہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور ان کے رفقا نے ملک میں امن و امان کے قیام کا بیڑہ اٹھایا اور ہر قسم کی دہشت گردی، شرپسندی، فرقہ وارانہ کشیدگی اور دیگر جرائم کے خاتمے کا عزم صمیم لے کر عملی اقدامات شروع کیے۔
23 مارچ 2015ء کو یوم پاکستان کے موقع کو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے پریڈ ایونیو پر ہونے والی پاک فوج کی شاندار پریڈ کا سہرا جنرل راحیل شریف کے سر جاتا ہے، اس تاریخی موقع پر صدر، وزیر اعظم اور آرمی چیف سمیت اعلیٰ سول و فوجی حکام نے شرکت کی۔ صدر ممنون حسین نے پریڈ شرکا سے خطاب کرتے ہوئے ملک کو درپیش اندرونی و بیرونی خطرات کے تناظر میں پاک فوج کے کردار کی تعریف کی اور جوانوں کے عزم کو سراہا۔
پاک سرزمین کو ہر قسم کی دہشت گردی اور جرائم سے پاک کرنے کے لیے جنرل راحیل شریف کی قیادت میں شمالی وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب، خیبر ایجنسی میں آپریشن خیبر ٹو اور کراچی میں بھی آپریشن جاری ہے۔ پوری قوم اور سیاسی قیادت پاک فوج کے شانہ بہ شانہ کھڑی ہے۔ افغان بارڈر پر ہونے والی منفی سرگرمیوں اور بھارت کی سرحدی اشتعال انگیزیوں پر بھی پاک فوج کی مکمل نظر ہے اور ہر کارروائی کا بھرپور جواب دے کر دشمن کو ''واضح پیغام'' دیا جا رہا ہے۔
اندرون وطن جاری مذکورہ تینوں آپریشن کے باعث دہشت گرد عناصر مارے بھی جا رہے ہیں اور فرار بھی ہو رہے ہیں لیکن جنرل راحیل شریف کا عزم ہے کہ آخری دہشت گرد کے خاتمے تک آپریشن جاری رہے گا۔ وزیر اعظم نواز شریف بھی مختلف مواقعوں پر دہشت گردی کے خاتمے تک آپریشن جاری رکھنے کے حوالے سے اپنے عزم کا اظہار کرتے چلے آ رہے ہیں جو یقیناً خوش آیند بات ہے۔ وزیراعظم اور آرمی چیف کی حالیہ ملاقات کے درمیان اس امر پر اتفاق کیا گیا کہ کراچی میں ہر صورت امن قائم کریں گے اور آپریشن بغیر کسی دباؤ کے جاری رہے گا۔
امن بہرحال ہر محب وطن کی پہلی خواہش ہے اور کراچی جیسے میگا سٹی میں جو ملک کا صنعتی و تجارتی ہب ہے امن ہر صورت قائم ہونا چاہیے۔ کراچی میں پولیس اور رینجرز قیام امن اور جرائم پیشہ افراد کی گرفتاری کے لیے مشترکہ و انفرادی ہر دو سطح پر کارروائیاں کر رہے ہیں۔ ردعمل میں شرپسند عناصر بھی رینجرز و پولیس پر حملہ آور ہو رہے ہیں چار روز پیشتر رینجرز کی موبائل کو نشانہ بنایا گیا جس میں دو رینجرز اہلکار شہید ہو گئے۔ مزید ایسے واقعات رونما ہو سکتے ہیں ۔
تاہم رینجرز اور پولیس کو اپنے حوصلے و عزم کو بلند رکھنا ہو گا۔ کراچی آپریشن کے حوالے سے ملک کے سیاسی، صحافتی و عوامی حلقوں میں سوالات بھی اٹھائے جا رہے ہیں اور متعدد افواہیں بھی گردش کر رہی ہیں۔ کبھی گورنر سندھ کی تبدیلی کی افواہ سنائی دیتی ہے اور کبھی سندھ میں گورنر راج کے نفاذ کی خبر گشت کرتی ہے۔
90 پر چھاپے کے بعد ایم کیو ایم کو دیوار سے لگانے کی خبریں بھی اخبارات کی زینت بن رہی ہیں۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ 18 ویں ترمیم کے بعد گورنر راج لگانا مشکل کام ہے اور اگر گورنر راج نافذ بھی کیا گیا تو صرف سندھ میں نہیں پورے ملک میں لگے گا اور محض تین ماہ بعد واپس لینا پڑے گا۔ سینیٹ میں پی پی پی کے پارلیمانی قائد سینیٹر سعید غنی کا موقف ہے کہ یہ حقیقت ہے کہ ایم کیو ایم کی ایک سیاسی حیثیت ہے۔
شہباز شریف صاحب نے بھی سینیٹ چیئرمین شپ کے لیے الطاف حسین سے رابطہ کیا تھا اور جب تک ایم کیو ایم کی پارلیمنٹ میں نمایندگی موجود ہے ان کے ساتھ سیاسی ڈائیلاگ کرنا پڑے گا۔ اسے مین اسٹریم میں لانا اور جرائم پیشہ افراد سے دور کرنے کی کوشش کرنا ملک کے لیے بہتر ہو گا۔
حالات کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ارباب اختیار مثبت سیاسی سوچ کا مظاہرہ کریں قیام امن کے لیے جرائم پیشہ افراد اور دہشت گردوں کے خلاف بلاتفریق کارروائی کی جائے۔ لسانی و صوبائی تعصب اور فرقہ واریت کا خاتمہ اور آئین کے تحت اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے اقدامات کیے جائیں تب ہی ہم من حیث القوم یوم پاکستان کے اصل مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔