دل میں کانٹا سا چبھ گیا
جو ایک پرفضا وادی میں اپنے دلدار کی محبت میں ڈوبی ہوئی اپنے مچلتے ہوئے جذبات کا اظہار کر رہی تھی۔
میرے گھر والوں کو اب اس بات کا اچھی طرح پتہ چل چکا تھا کہ میں لاہور کی فلمی دنیا سے وابستہ ہو گیا ہوں اور ایک فلمی شاعر کی حیثیت سے اپنا مستقبل بنانے کے لیے کوشاں ہوں، میرے گھر والوں کی طرف سے میرے کسی خط کا جواب نہیں آتا تھا، شاعری کا جنون اور فلمی دنیا کے شوق کی وجہ سے میرے والد کی خفگی اپنی جگہ قائم تھی، وہ ایک انتہائی مذہبی آدمی تھے اور شاعری کو فضول چیز اور فلمی دنیا کو بے کار سمجھتے تھے وہ ایک مشہور طبیب اور حکیم تھے، ان کے مطب میں اکثر و بیشتر مذہبی لوگوں کی بیٹھک رہا کرتی تھی۔
جب کوئی ان کا دوست میرے والد سے کبھی پوچھتا تھا کہ قاضی صاحب آپ کے کتنے صاحبزادے ہیں تو وہ برملا کہتے تھے میاں ماشا اللہ میرے چھ بیٹے ہیں مگر پانچ تو لائق ہیں لیکن ان میں سے ایک نالائق ہو گیا، وہ شاعر ہو گیا ہے۔ لاہور میں رات کو سوتے وقت میں جب بھی اپنے بارے میں سوچتا تھا تو والد کا ناراض چہرہ آنکھوں میں سما جاتا تھا اور میں اپنے رب سے صدق دل سے معافی مانگتے ہوئے یہ دعا کرتا تھا کہ اے میرے مولا! تو مجھے کسی قابل کر دے۔
میرے راستے کی دشواریوں کو دور کر دے اور کسی طرح بھی مجھے میرے والد محترم کی نظروں میں معتبر بنا دے۔ شاید وہ گھڑی قبولیت کی تھی۔ میرے اللہ نے میرے دل کی بات سن لی تھی میں لاہور میں معتبر ہوتا جا رہا تھا اور اپنی مسلسل کوششوں کے ساتھ بحیثیت فلمی نغمہ نگار منظر عام پر بھی آتا جا رہا تھا۔
اور اب تک فلم ''صبح کا تارا'' کے لیے میرے لکھے ہوئے تین گیت نامور گائیک مہدی حسن، نیرہ نور اور مسعود رانا کی آوازوں میں ریکارڈ ہو چکے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ نئے شاعر ہونے کی وجہ سے مجھے ان گیتوں کا ابھی تک معاوضہ نہیں ملا تھا۔ مجھے صرف نگار ویکلی کراچی کی طرف سے ہر ماہ کی آخری تاریخوں میں 150 روپے کا منی آرڈر آتا تھا اور لاہور کے ہفت روزہ اخبار فلم کے ایڈیٹرز اصغر چوہدری اور انور چوہدری برادران نے مجھے اخبار کے دفتر ہی میں رہنے کا ٹھکانہ دے دیا تھا۔
جہاں ایک کمرہ تھا، وہاں ایک چارپائی اور چائے بنانے کا چولہا بھی تھا اور نہانے کے لیے ایک پتلی سی جگہ بھی تھی، مگر میرے لیے ایک اجنبی شہر میں یہ جگہ بڑی دل خوش کن تھی۔ میں اسی کمرے میں اخبار کی کاپی جوڑتا تھا اور بڑے آرام سے وہیں سو جاتا تھا۔
جس ہفتے مجھے میرے لکھے ہوئے گیتوں کا ایک ساتھ معاوضہ ملا وہ بھی بڑا دلچسپ قصہ تھا۔ میں مالی اور ذہنی پریشانی سے گھبرا کر رنگیلا پروڈکشن گیا اور کیمرہ مین جان محمد سے تذکرہ کیا کہ یار جان بھائی! مجھے ابھی تک گیتوں کے سلسلے میں کوئی پائی پیسہ نہیں ملا۔ کیا نئے شاعر کے ساتھ فلم انڈسٹری میں ایسا ہی ہوتا ہے اور یہ کب تک ہوتا ہے۔ جان نے ہنستے ہوئے کہا۔ او یار ہمدم! پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، میں آج بات کروں گا۔ تمہیں کچھ نہ کچھ تو ملنا چاہیے۔
ابھی جان محمد سے میری یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ رنگیلا کی آمد ہو گئی۔ اس نے مجھے دیکھتے ہی کہا۔ اوئے یونس ہمدم! مینوں معاف کریں۔ میں شوٹنگ میں اتنا مصروف تھا تیرا مجھے یاد ہی نہیں آیا۔ توں کتھے سی۔ پھر اس نے اپنے پروڈکشن منیجر کو آواز دیتے ہوئے کہا۔ او چل بھئی! اس شاعر دا حساب کر۔ پروڈکشن منیجر نے انگلیوں کے اشارے سے پوچھا کتنے دوں؟ رنگیلا نے بھی اپنے دونوں ہاتھ کی انگلیاں دکھائیں اور ایک ہاتھ کا انگوٹھا موڑ لیا۔ منیجر سمجھ گیا وہ فوراً دوسرے کمرے میں گیا اور ایک واؤچر لے کر آیا۔ اس پر میرے سائن کرا کے مجھے تین گیتوں کا مجموعی معاوضہ اپنی جیب سے نکال کر 900 روپے دیا۔
میں نے رنگیلا کا شکریہ ادا کیا اور آفس سے جانے لگا تو رنگیلا نے مجھے روک کر کہا۔ اوئے ُرک جا۔ پھر رنگیلا نے منیجر سے 100 روپے اور لیے مجھے دیتے ہوئے کہا۔ یونس ہمدم! یہ تم میری طرف سے رکھو۔ میں نے ایک بار پھر شکریہ ادا کیا۔ اور پھر میں بڑے خوشگوار موڈ میں اسٹوڈیو کے بڑے گیٹ سے باہر نکلنے لگا تو سنگیتا کے پروڈکشن منیجر یاسین نے مجھے دیکھتے ہی آواز لگائی اور پھر میرے قریب آ کر کہنے لگا۔ یونس ہمدم صاحب! میں تو آپ کو ایک گھنٹے سے ہر فلور میں ڈھونڈ رہا تھا۔
آپ کسی بھی فلور پہ مجھے نظر نہیں آئے۔ پھر اس نے مجھے میڈم سنگیتا کا پیغام دیا کہ سنگیتا بیگم نے کل شام آٹھ بجے اپنے آفس میں آپ کو بلایا ہے۔ میں دوسرے دن ان کے دیے ہوئے وقت کے مطابق ایورنیو اسٹوڈیو میں ان کے خوبصورت سے آفس میں پہنچا تو وہاں سنگیتا کے علاوہ ان کی والدہ مہتاب بیگم، والد سید طیب حسین رضوی اور ہدایت کار و مصنف اقبال رضوی بھی موجود تھے۔
سنگیتا نے بات کا آغاز کرتے ہوئے کہا۔ یونس ہمدم! میں نے تم سے کہا تھا کہ میں اپنی فلم ''تیرے میرے سپنے'' کا آخری گیت تم سے لکھواؤں گی۔ اب پریشانی یہ آ گئی ہے کہ میری امی تمہارے حق میں ہیں، میرے ابا تمہارے حق میں نہیں ہیں ان کا کہنا یہ ہے کہ اس فلم کے تمام گیت اب تک تسلیم فاضلی کے لکھے ہوئے ہیں۔ لہٰذا یہ آخری گیت بھی تسلیم فاضلی سے لکھوانا چاہیے۔ یونس ہمدم سے کسی اگلی فلم میں کوئی گیت لکھوایا جا سکتا ہے۔ سنگیتا نے پھر کہا کہ وہ یہ دلیل نہیں مانتی۔ بے شمار فلموں میں کئی کئی شاعروں نے مل کر گیت لکھے ہیں۔
اب موسیقار کمال احمد آنے والے ہیں، دیکھنا یہ ہے کہ وہ کس کے حق میں ووٹ دیتے ہیں۔ ابھی یہ گفتگو جاری تھی کہ موسیقار کمال احمد بھی آ گئے۔ سنگیتا نے کمال صاحب کو بھی یہ ساری بات بتائی اور ان کی رائے پوچھی۔ موسیقار کمال احمد چند منٹ سوچتے رہے پھر وہ بولے۔ دیکھیں میڈم! میں فلم کا موسیقار ہوں، میرا بھی اپنا نام اور مقام ہے۔ فاضلی کا بھی اپنا نام ہے اور انھوں نے سارے گانے اچھے لکھے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ مشہور ہیں، مگر یونس ہمدم کے ایک گانا لکھنے سے فاضلی صاحب کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اور ان کا کوئی نقصان نہیں ہے۔
وہ معروف ترین شاعر ہیں۔ اگر یونس ہمدم کا لکھا ہوا ایک گانا چلو کچھ کمزور بھی ہوتا ہے تو فلم پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ مجھے امید ہے یونس ہمدم اس فلم کے لیے اچھا ہی گیت لکھیں گے۔ سنگیتا نے Well Done کہتے ہوئے کہا کمال صاحب یو آر رائٹ۔ پھر مہتاب بیگم نے فیصلہ سنا دیا۔ کمال احمد تم آج ہی سے اس گیت پر کام شروع کر دو۔ کل رات تک ہمیں گیت مکمل چاہیے۔ اسی ماہ یہ گیت مری میں شوٹ کیا جائے گا۔ پھر سنگیتا نے مجھے کہا۔ ہمدم! آپ کمال احمد کے ساتھ دوسرے کمرے میں چلے جائیں اور اپنے گیت کی تیاری کریں۔
کچھ دیر کے بعد میں اور موسیقار کمال احمد نئے گیت پر کام کر رہے تھے۔ کمال احمد نے کہا۔ یونس ہمدم! اس گیت میں ایک پہاڑی لڑکی اپنے محبوب کو خیال میں لا کر اپنی محبت اور جذبات کا اظہار کرتی ہے مجھے بہت اچھی شاعری نہیں صرف سادا لفظوں میں سچویشن کا گیت چاہیے۔ میں نے کافی دیر تک دھن سنی پھر کمال صاحب کو ایک مکھڑا سنایا جو کچھ یوں تھا:
خیالوں میں سجنا بلائے مجھے۔ وہ خوابوں میں آ کر ستائے مجھے۔ ہائے میں کیا کروں۔ کیا کروں۔
مکھڑا سن کر کمال احمد بولے۔ اب تم سچویشن کے قریب آتے جا رہے ہو، مگر مکھڑا کچھ اور پھڑک دار اور جاندار ہونا چاہیے۔ میں پھر دھن سنتا رہا اور سوچتا رہا اور تصور میں پہاڑی دوشیزہ رقص کرتی رہی۔
جو ایک پرفضا وادی میں اپنے دلدار کی محبت میں ڈوبی ہوئی اپنے مچلتے ہوئے جذبات کا اظہار کر رہی تھی۔ میں مکھڑے کے الفاظ دھن میں سمونے کی کوشش میں خود بھی دل ہی دل میں گنگنا رہا تھا۔ میں نے پھر ایک دم سے کمال صاحب کے ہارمونیم پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ کمال صاحب! ذرا یہ مکھڑا سنیں۔۔۔! پھر میں نے دھن کے اعتبار سے ٹکڑوں میں ایک مکھڑا سنایا۔بول تھے:
میں ہو گئی دلدار کی
ہونے لگی چبھن پیار کی، چبھن پیار کی، میری توبہ
دل میں کانٹا سا چبھ گیا، چبھ گیا
کمال صاحب نے فوراً ہارمونیم دوبارہ چھیڑا۔ ڈھولک اور طبلے کی سنگت کے ساتھ جب یہ مکھڑا کمال صاحب نے اپنی آواز میں گایا تو اس مکھڑے کا حسن کچھ اور ہی نکھر کر آیا۔ کمال صاحب نے مکھڑا فوراً او کے کر دیا۔ اور پھر جب دوسرے دن شام کو انترے کے ساتھ یہ گیت میڈم سنگیتا کو سنایا تو انھوں نے بھی دو تین بار سن کر کہا زبردست۔ واہ! یونس ہمدم! تم نے میری بات کا مان رکھ لیا۔
پھر ''تیرے میرے سپنے'' کا یہ آخری گیت نئی گلوکارہ ناہید اختر کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا جس نے ابھی تک ایک دو فلموں کے لیے ہی گیت گائے تھے۔ مگر ناہید اختر کا گایا ہوا یہ گیت اس کا پہلا سپرہٹ گیت تھا جس نے اسے عروج عطا کیا اور پھر ناہید اختر کی ہر طرف دھوم مچ گئی تھی۔