کراچی کے شہریوں کو صرف امن چاہیے

شہر میں ہڑتال کے اعلان سے ایک روز قبل ہی خوف اور دہشت کی فضا قائم کرکے کامیاب ہڑتال کی بنیاد رکھ دی جاتی۔


Dr Mansoor Norani March 29, 2015
[email protected]

ویسے تو سارا پاکستان نائن الیون کے بعد دہشت گردی کی زد میں ہے لیکن شہر کراچی گزشتہ تیس سال سے کسی نہ کسی شکل میں ایک ایسے عذاب میں مبتلا رہا ہے جس میں قتل و غارت گری، ٹارگٹ کلنگ، چندہ اور بھتہ خوری، چوری اور ڈکیتی اور احتجاج اور ہڑتالیں روز کا معمول بن چکی ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں وارداتیں کرنے والوں کا تعین کرنا دشوار اور مشکل ہی نہیں ناممکن بھی رہا ہے جب کہ باقی سارے پاکستان میں ہم باآسانی دہشت گردوں کو کوئی نام دے سکتے ہیں، ان کی پہچان بتاسکتے ہیں۔ جب کہ کراچی میں انھیں نامعلوم کہہ کر پکارا جاتا رہا ہے۔ یہاں جب بھی جرائم پیشہ افراد کے خلاف کوئی ایکشن لیا جاتا ہے توکسی نہ کسی فریق، گروہ یا تنظیم کو یہ شکایت رہتی ہے کہ صرف ان کے خلاف یہ یکطرفہ کارروائی کی جارہی ہے۔

اسی وجہ سے یہاں سماج دشمن عناصر اپنے اعمال کی سزا سے اب تک بچتے رہے۔ کبھی سیاسی مصلحتیں آڑے آگئیں تو کبھی کسی کے ذاتی مفادات۔ کراچی کے عوام عرصہ دراز سے ایک ایسی مصیبت اور اذیت میں گرفتار رہے ہیں جس میں وہ ہر صبح ڈر اور خوف کی فضا میں آنکھیں کھولتے اور رات گئے اسی کیفیت اور حالت میں واپس اپنی آنکھیں بند کرلیتے۔

دن بھر جس روز شہر میں چند افراد کے قتل ہونے اور لوٹے جانے کی خبر نہیں آتی ہو وہ دن انھیں عجیب معلوم ہونے لگتا۔ مائیں بچوں کو اسکول بھیجتے ہوئے ڈرتی ہیں اور بیویاں اپنے شوہروں کے کام پر جانے سے پریشان اور خوفزدہ رہتی ہیں۔ جب تک وہ لوٹ نہیں آتے ان کے دل کو ہر وقت دھڑکا لگا رہتا ہے۔ کب کہاں اور کس وقت کوئی ناگہانی واقعہ رونما ہوجائے اور دیکھتے ہی دیکھتے کراچی کی سڑکیں سنسان اور ویران ہوجائیں۔ گاڑیوں کا جلانا اور دیگر املاک کو نذر آتش کرنا ان نامعلوم وارداتیوں کا مشغلہ بن چکا ہے۔

شہر میں ہڑتال کے اعلان سے ایک روز قبل ہی خوف اور دہشت کی فضا قائم کرکے کامیاب ہڑتال کی بنیاد رکھ دی جاتی۔ ٹرانسپورٹر اپنی گاڑیوں کو جل جانے سے بچانے کے لیے خود ہی اپنی طرف سے ہڑتال کی حمایت کا اعلان کردیتے اور نجی اسکولوں کے مالکان بھی اسکول بند رکھ کر ہڑتال کو پہلے ہی پچاس فیصد کامیاب کروا دیتے۔ رفتہ رفتہ یہ طریقہ کار بڑا کارآمد اور مقبول ہوتا گیا۔ دہشت گردوں کے حوصلے بڑھتے گئے۔ حکومتیں کوئی ایکشن لیتے ہوئے گھبراتی رہیں۔

مقدمے اگر دائر کر بھی دیے گئے تو اس کی پیروی ہی نہ کی گئی۔ پراسیکیوشن اتنا کمزور اور نامکمل ہوتا کہ مجرم باآسانی بری ہوجاتے۔ عدالتیں فیصلوں سے اجتناب کرتیں۔ تاریخوں پر تاریخیں دے کر مقدمے کو بے اثر اور بے نتیجہ بنادیا جاتا۔ تھانے اور قانون نافذ کرنے والے اپنی اپنی نوکریاں بچاتے رہتے۔ جرائم پرورش پاتے رہے اور مجرم دندناتے رہے۔ شہر کا کوئی پرسان حال نہ تھا۔ عوام مسلسل اذیت اور کرب میں مبتلا رہتے رہے۔ کوئی ان کی دادرسی کرنے کو تیار نہ تھا۔

مالدار اور دولت مند اپنا کاروبار سمیٹ کر دوسرے شہروں اور ملکوں کو نکلتے رہے، مگر غریب اور نادار لوگ چار و ناچار یہاں رہنے پر مجبور ہوتے رہے۔ مقتدر حلقے ایک دوسرے کو الزام دیتے رہے۔ کسی نے حالات سدھارنے کی سنجیدہ کوشش ہی نہیں کی۔ اسی طرح وقت گزرتا گیا۔ مہینے اور سال بیتتے گئے۔ حالات خراب سے خراب تر ہوتے گئے۔

امن و امان ناپید ہوتا گیا، لوگ مرتے گئے، املاک جلتی رہیں، شہر اجڑتا گیا۔ اور بالآخر دنیا کے نقشے پر ایک نیا وزیرِستان تشکیل پاگیا، جہاں صرف اسلحے کی زبان بولی جاتی رہی، موبائل چھینے جانے کی واردات ہو یا کروڑوں روپے کا بھتہ لینا ہو، آلہ واردات پستول اور کلاشنکوف ہی ہوتا۔

یہاں کبھی بوریوں میں بند لاشیں ملتی رہیں اور کبھی لوگوں کو ان کا شناختی کارڈ دیکھ کر مارا جاتا رہا۔ ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں سفر خطرناک اور غیر محفوظ بنتا گیا۔ حالات جب انتہائی کشیدہ اور ناگفتہ بہ ہوگئے تو مختلف حلقوں کی جانب سے آپریشن کلین اپ کا مطالبہ کیا جانے لگا۔ پولیس اور رینجرز کے ذریعے ایک سال قبل ایک ٹارگٹڈ آپریشن کا آغازکیا جاتا ہے۔ حالات میں کچھ بہتری کے آثار نمودار ہونے لگتے ہیں اور عوام سکھ چین کا سانس لینے لگتے ہیں۔

اچانک پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں دہشت گردی کا اندوہناک اور سفاکانہ واقعہ ہوجاتا ہے۔ ساری قوم متحد و منظم ہو کر دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے کمربستہ ہوجاتی ہے۔ فوجی عدالتوں کی تشکیل سمیت ہر ممکن طریقہ کار اپنانے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ اسی اصول کے تحت کراچی اور بلوچستان کو بھی دہشت گردوں سے پاک کرنے کا تہیہ کیا جاتا ہے۔ آہستہ آہستہ مجرموں کے گرد گھیرا تنگ کیا جاتا ہے۔ ٹارگٹڈ آپریشن کے تحت مختلف علاقوں میں کارروائیاں کی جاتی ہیں۔

جہاں جہاں سے مکمل انفارمیشن ملتی ہے چھاپے مارے جاتے ہیں۔ جرائم پیشہ عناصر کی بیخ کنی کی جاتی ہے۔ اس آپریشن کا مقصد کسی ایک گروپ یا سیاسی جماعت کو نشانہ بنانا نہیں، مجرم جہاں جہاں پایا جائے گا وہاں وہاں کارروائی ہوگی۔ سول اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ پہلی بار دہشت گردی کے خلاف اس طرح متفق و منظم ہوپائی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہمارے قانون نافذ کرنے ادارے اس بار دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوا تو یہ اس قوم کے ساتھ بہت بڑی زیادتی ہوگی۔ اسے کسی طور ادھورا نہیں چھوڑنا چاہیے۔

علاقہ چاہے وزیرستان ہو یا بلوچستان، کراچی ہو یا اس ملک کا کوئی اور شہر، ہر جگہ جہاں ضروری ہو کارروائی ہونی چاہیے۔ ذاتی مفادات اور مصلحتوں کا دور اب بیت چکا۔ اس شہر اور اس ملک کو اب امن و آشتی کا گہوارا بننا ہوگا۔ تمام سیاسی جماعتوں اور تمام مکتبہ فکرکے لوگوں کو اس مقصد کے حصول کے لیے اپنی فورسز کا ساتھ دینا ہوگا۔ ہماری سیکیورٹی فورسز اپنی جانوں پر کھیل کر اس سرزمین وطن کا دفاع کررہی ہیں۔

انھیں ہمارا تعاون اور مدد درکار ہے۔ وہ ہماری دشمن نہیں ہیں۔ ہمارے ہی سکھ و چین کے لیے وہ اپنا چین کھو رہے ہیں۔ وہ اگر ایسا نہ بھی کرتے تو کوئی انھیں الزام نہیں دے سکتا تھا۔ ماضی میں اگر کسی سے کوئی غلطی سرزد ہوگئی ہے تو اب اس کا اعادہ نہیں ہونا چاہیے۔ اس ملک و قوم نے بہت ستم اٹھا لیے ہیں۔ بہت تباہی و بربادی دیکھ لی ہے۔

ترقی و خوشحالی اب اس کا بھی مقدر ہونا چاہیے۔ ہم دنیا کی وہ بدقسمت قوم ہیں جو براہ راست کسی دشمن ملک سے نبرد آزما ہوئے بغیر ہی کئی سال سے ایک ایسی جنگ میں ملوث ہیں جو ہمارے اپنے لوگوں کی پیدا کردہ ہے۔ ہمیں اپنے ان دوست نما دشمن کی پہچان کرنا ہوگی، جو ہمارے بچوں اور ہماری نسلوں کو قتل کرتا ہو، جو ہماری اقتصادی اور معاشی تباہی کا سبب ہو۔ ہمیں اسے اپنی صفوں سے نکال کر باہر کرنا ہوگا۔ اب سیاست اور دہشت گردی ایک ساتھ نہیں چل سکتی، جس دن ہم نے یہ سبق پڑھ لیا ہمارے حالات خودبخود بدل جائیں گے۔

ملک و قوم کی ترقی اس شہر کے امن سے وابستہ ہے، جب یہاں امن ہوگا تو نفرتیں اور کدورتیں دور ہوں گی، بھائی چارگی اور محبت پروان چڑھے گی، لسانی شناخت کی لکیریں گہری ہونے کے بجائے دھندلی پڑجائیں گی، فرقہ واریت، مذہبی منافرت اور علاقائی تعصب کو کوئی جگہ نہ مل پائے گی۔ یہی اس آپریشن کا مقصد ہے۔ کسی کو سیاست سے الگ کرنا اور دیوار سے لگانا اس کا مشن نہیں ہے۔ کراچی کے باسیوں کو امن چاہیے، وہی امن اور بھائی چارگی جو کبھی اس شہرکا خاصہ ہوا کرتی تھی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں