کتاب نہ پڑھوں تو نیند نہیں آتی

’’ایم بی اے‘‘ کرنے کے خواہش مند، نوجوان کُتب فروش، معظم محبوب کی کہانی


Alif Khay October 08, 2012
پرانی کتابوں کے کاروبار میں اب پہلے جیسی بات نہیں رہی ، کتب فروش فوٹو : فائل

شہرقائد میں واقع، گہماگہمی سے بھرپور حیدری مارکیٹ، خریداری کا ایک بڑا مرکز، جہاں روز ہی ہزاروں افراد من چاہے ملبوسات کی کُھوج میں آتے ہیں۔

اِسی مارکیٹ کے پہلو میں، چند اسٹالز پر مشتمل، پرانی کتابوں کی مارکیٹ ہے۔ اور وہیں معظم محبوب کا اسٹال ہے، جو گریجویشن کا مرحلہ طے کرنے کے بعد، ایک ٹریفک حادثے کی وجہ سے ایم بی اے کرنے کی آرزو پوری نہیں کرسکے، تاہم بُلندحوصلہ معظم نے ہمت نہیں ہاری۔ گوکہ حالات کٹھن ہیں، لیکن وہ آج بھی اِس خواہش کی پرورش کر رہے ہیں۔

معظم پرانی کتابوں کی خریدوفروخت کے میدان میں کاشف کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ اُنھوں نے 1987 میں کراچی کے علاقے محمود آباد میں آنکھ کھولی۔ اُن کے والد، محبوب علی شپ انجینئر تھے، آدھی زندگی دبئی میں گزاری، پھر گھریلو حالات کی وجہ سے سب کچھ چھوڑ کر اُنھیں پاکستان لوٹنا پڑا، جہاں ایک گیراج کرلیا۔ معظم نے اس گیراج میں والد کا ہاتھ بٹایا۔ بعد میں یہ گیراج ترقیاتی منصوبے کی زد میں آگیا۔ تلافی کے طور پر شہر سے خاصی دُور جگہ ملی، جس سے، زمینی فاصلے کی وجہ سے استفادہ ممکن نہیں تھا، سو معاشی مسائل خاندان پر مسلط ہوگئے، جن سے نبردآزما ہونے کے لیے معظم نے میٹرک کے بعد عملی زندگی میں قدم رکھ دیا۔

زمانۂ طالب علمی میں کرکٹ کھیلنے والے معظم ایک بہن، دو بھائیوں میں بڑے ہیں۔ والد کو اپنا دوست کہتے ہیں۔ ڈاکٹر سارا پبلک اسکول، پی ای سی ایچ ایس سے، سائنس سے میٹرک کرنے کے بعد اُنھوں نے سراج الدولہ گورنمنٹ کالج کا رخ کیا۔ ''پری انجینئرنگ'' کے چُنائو کا سبب مستقبل میں شپ انجینئرنگ کے میدان میں قسمت آزمانے کی خواہش تھی، لیکن معاشی مسائل رکاوٹ بن گئے، اور وہ انجینئرنگ کالج میں داخلہ نہیں لے سکے۔ بعد میں پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے بی کام کیا۔ ایم بی اے کرنے کی خواہش تھی، داخلہ فارم بھی جمع کروا دیا تھا، لیکن پھر ایک ٹریفک حادثے نے اُنھیں اسپتال پہنچا دیا۔ اگلے چند ماہ گھر کے بستر پر گزرے، جس کے بعد ایم بی اے کا معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا۔
تعلیم کے ساتھ ملازمتوں کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ ابتداً بہ طور الیکٹریشن چھے ماہ تک شادی کی تقریبات میں برقی قمقموں سے سجاوٹ کرتے رہے۔ پھر پرانی کتابوں کی خریدوفروخت کے کاروبار میں آگئے۔ اِس کاروبار کے چُنائو کا سبب یہ تھا کہ اُنھیں کالج اور ٹیوشن سینٹر جانے کا وقت مل جاتا تھا۔

ایک رشتے دار کے توسط سے، لگ بھگ دس برس قبل حیدری مارکیٹ میں اسٹال لگایا۔ ابتداً بیس ہزار روپے کی سرمایہ کاری کی۔ آغاز میں اسٹال پر لگ بھگ تین سو کتابیں تھیں۔ پہلے روز فقط پانچ کتابیں بکیں، تاہم مایوس نہیں ہوئے کہ خود پر بھروسا تھا۔ اِس عرصے میں ملازمتیں بھی کیں۔ چند برس قبل اسٹال سمیٹ کر ایک شپنگ کمپنی سے منسلک ہوگئے تھے، لیکن کمپنی کا دفتر لاہور منتقل ہونے کے بعد اس سے الگ ہوگئے۔ انشورنس ایجنٹ کے طور پر بھی کام کیا، لیکن بات نہیں بنی، سو دوبارہ اسٹال لگالیا، اور آج یہی یافت کا اکلوتا ذریعہ ہے۔ خواہش ہے کہ اِس کاروبار کو وسعت دیں۔

وہ دوپہر دو بجے سے رات دس بجے تک اسٹال پر بیٹھتے ہیں۔ اتوار کو چھٹی ہوتی ہے۔ اردو بازار کے علاوہ وہ پرانی کتابیں ریگل اور ڈیفینس میں لگنے والے بازاروں سے حاصل کرتے ہیں۔ اِس وقت اُن کے اسٹال پر پندرہ سو کتابیں ہیں، کچھ اسٹاک گھر پر بھی ہے۔ معظم کے مطابق اسٹال سے ہونے والی آمدنی سے، کھینچ تان کر ہی سہی، مگر گزارہ ہوجاتا ہے۔ ہر ماہ لگ بھگ پندرہ سولہ ہزار روپے ہاتھ آجاتے ہیں۔

سستی، پرانی کتابوں کی بابت معظم کا کہنا ہے، پاکستان جیسے ملک میں انگریزی کتابوں کے شایق نئی، مجلد کتابیں نہیں خرید سکتے، وہ پیپربیک ایڈیشنز کو ترجیح دیتے ہیں، جن میں سے بیش تر پرانی کتابیں ہی ہوتی ہیں۔ اُن کے بہ قول،''موجودہ معاشی حالات میں لوگ نئی کتابیں نہیں خرید سکتے، ایسے میں پرانی کتابیں، سستے ایڈیشنز ضروری ہیں!''

معظم کے اسٹال پر انگریزی کتابوں کا تناسب زیادہ ہے۔ کہنا ہے، ایسے بازاروں میں اردو کتابیں کم ہی فروخت ہوتی ہیں۔ انگریزی ناول پڑھنے والوں کا حلقہ، اُن کے مطابق محدود ہے۔ لگے بندھے گاہک ہوتے ہیں۔ بیش تر کا تعلق متمول طبقے سے ہوتا ہے، متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد خاصی کم ہے۔ ''دراصل تعلیم کے فقدان کی وجہ سے ہر کوئی انگریزی ادب نہیں پڑھ سکتا۔ کچھ مخصوص لوگ ہی ہیں، جو کتابیں خریدتے ہیں۔''
حیدری مارکیٹ اُن کے بہ قول پرانی کتابوں کی فروخت کے لیے اچھی جگہ ہے کہ شاپنگ کی غرض سے یہاں آنے والے اسٹالز دیکھ کر رک جاتے ہیں، اور اپنی پسند کی کوئی نہ کوئی کتاب خرید لیتے ہیں۔

اسٹالز سے ایک آدھ کتاب کی چوری، معظم کے نزدیک معمولی بات ہے، تاہم کبھی کبھی بڑی واردات بھی ہوجاتی ہے۔ بدقسمتی سے یہ افسوس ناک واقعہ اُن ہی کے ساتھ پیش آیا۔ بتاتے ہیں، ایک دوپہر مارکیٹ پہنچے، تو پورا اسٹال غائب تھا۔ فوراً پولیس سے رابطہ کیا، جن کی سرتوڑ کوشش کے بعد اسٹال تو مل گیا، لیکن 90 فی صد کتابیں غائب تھیں، یعنی بھاری نقصان برداشت کرنا پڑا۔ اُن کے بہ قول، یہ واقعے ذاتی دشمنی کا شاخسانہ تھا۔

بڑھتی منہگائی کے باعث اب پرانی کتابوں کی فروخت میں، اُن کے مطابق پہلے جیسی بات نہیں رہی۔ گاہکوں کی تعداد میں بھی واضح کمی آئی ہے۔ ''گذشتہ تین برسوں میں تو بہت کمی آئی ہے۔''
وہ جس قیمت پر پرانی کتابیں خریدتے ہیں، اس رقم سے بہ مشکل دس، پندرہ فی صد اضافی ہی کما پاتے ہیں کہ مارکیٹ میں بھائو تائو بہت ہوتا ہے۔ کہنا ہے، جب کوئی گاہگ اچھے انداز میں پیش آتا ہے، احترام دیتا ہے، تو خوشی محسوس ہوتی ہے۔ گاہکوں کے منفی رویے سے دُکھ بھری یادیں وابستہ ہیں۔ ''کچھ لوگ اس طرح بات کرتے ہیں، جیسے وہ کتاب کا نہیں، ہماری مجبوری کا سودا کر رہے ہوں۔''

کتابیں فروخت کرنے والا یہ نوجوان مطالعے کا شایق ہے۔ معظم کتاب نہ پڑھیں، تو رات کو نیند نہیں آتی۔ تصوف کا موضوع مطالعے میں رہتا ہے۔ ''شہاب نامہ'' پسندیدہ کتاب ہے۔ بانو قدسیہ، علیم الحق حقی اور بابا یحییٰ کی کتابیں پسند ہیں۔ انگریزی ادیبوں میں سڈنی شیلڈن اور جیفری آرچر کے ناول مطالعے میں رہتے ہیں۔ شاعری میں فراز اور ساغر صدیقی کا نام لیتے ہیں۔ فلموں سے دل چسپی نہیں۔ ابھی شادی نہیں ہوئی، اور اُن کے بہ قول، مستقبل قریب میں اِس کے امکانات خاصے محدود ہیں کہ پہلی ترجیح معاشی استحکام ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔