غالب کے غیر مطبوعہ خطوط…
مرزا تفتہ! تم اس دیس کے بارے میں تجسس اور بے کلی کا شکار ہو
مرزا تفتہ! تم اس دیس کے بارے میں تجسس اور بے کلی کا شکار ہو، جہاں کہ ان دنوں میں قیام پذیر ہوں۔ ارادہ تم نے یہ ظاہر کیا ہے کہ تم بھی رخت سفر باندھنے والے ہو۔ عزیزم دھیرج! شوریدہ سری، بم دھماکے، خودکش حملے اور اب بچوں کا قتل عام اسلامی انقلاب کے نام پر ہورہا ہے۔ سرزمین بہت انقلابی معلوم ہووئے ہے۔ ہر لمحہ انقلاب کی زد میں بسر ہوتا ہے۔
جتنا اور جس قدر انقلاب وطن عزیز میں آوے ہے، اتنا اس سیارے پر شاید ہی کہیں آتا ہو۔ ہر سال انقلاب، ہر ماہ انقلاب اور اب تو ہر ہفتے انقلاب آنے لگا ہے۔ پارٹی کے کارکن ہاتھوں میں بینرز اور جھنڈے اٹھائے ہوتے ہیں اور ان کے گلے کی رگیں انقلابی نعروں سے پھولی ہوئی ہوتی ہیں۔ زندہ باد، مردہ باد۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ استعماری قوتوں کو پھونکوں سے اڑا دیویں گے اور اختتام جلوس تک چور بازاری، غنڈہ گردی، کرپشن، بھتہ خوری، ملاوٹ اور مہنگائی کا خاتمہ کر ڈالیں گے۔
لوگ سادہ لوح اور رجائیت پسند معلوم ہووے ہیں۔ ان انقلابات اسلامی کے جھانسے میں آجاتے ہیں۔ اپنے وطن کی طرف آنکھ اٹھا کر کوئی نہیں دیکھتا، امریکا اور بھارت میں انھیں ساری برائیاں دکھائی دیویں ہیں۔ گرم مسالوں میں ملاوٹ، ہڈیاں اور چربی پگھلا کر کھانے پکانے کا تیل یہاں بنایا جاوے ہے۔ بچوں کو دیا جانے والا دودھ ملاوٹ سے بھرپور۔ (کہنا ایک دانا اور ہوشمند کا یہ ہے کہ وہ جو آج بچوں کے دودھ میں ملاوٹ کررہے ہیں گویا کل وہ ایک کمزور اور ناتواں قوم حاصل کریں گے) مہنگائی سر پہ چڑھ کر بولے ہے۔ اس پر یہ دعویٰ کہ ہم اسلامی انقلاب لاویں گے۔ وطن عزیز ہی میں نہیں بلکہ ساری دنیا میں دین محمدی کا جھنڈا لہرا دیویں گے۔ تفتہ تم ہی کہو کہ جو قوم پچاسوں اسلامی فرقوں میں بٹ چکی ہو، کیا ممکن ہے کہ اسلامی انقلاب لے آوے؟ یہ سب ایک دوسرے کے مسلک کے اتنے خلاف ہیں کہ ایک دوسرے کی مسجدوں میں نہیں جاتے اور ان کی فقہ بھی علاحدہ ہے۔ یہ متحد ہوکر اسلامی انقلاب کیسے لاویں گے؟
اس دیس کے باسی اس امید پر سوتے ہیں کہ کل سے ہر چیز بدلی ہوئی ہوگی اور دودھ کی نہر بہنے لگے گی۔ ہر شخص ایماندار ہوچکا ہوگا۔ انھیں یہ نہیں معلوم کہ انقلاب تو ایک مسلسل عمل ہووے ہے۔ انقلاب لانے کے لیے تو بڑے پاپڑ بیلنے پڑے ہیں۔ انقلاب حکمراں نہ لاویں ہیں بلکہ ہم جیسے محنت کش لاویں ہیں۔
جرنیل اول کا زمانہ گزر گیا، تو دوسرا تخت حکمرانی پر فروکش ہوا۔ پری چہرہ نازنینوں کے جھرمٹ میں اس کے شب و روز کٹتے تھے۔ قرار اسے کسی پہلو نہ آتا تھا۔ محفل ناؤ نوش سجی رہتی تھی اور ان کے بیچ فرائض منصبی بھی ادا کیے جاتے تھے۔ نشے میں دھت رہنا اور ہر فیصلہ وھسکی کے جام پر کرنا اس کے خمیر میں شامل تھا۔ چنانچہ انقلاب کے نام پر اس حکمراں نے وافر مقدار میں نالیوں میں چونا ڈلوانے اور لحم فروشوں کی دکانوں پر جالیاں لگوانے کے علاوہ اگر کوئی کارنامہ انجام دیا تو وہ عام انتخابات تھے۔
نام جس کا ذوالفقار علی بھٹو، دانا و بینا، سب حکمرانوں سے الگ تھلگ منفرد اور عالی جاہ۔ شخصیت جس کی جاذب نظر اور کارنامے جس کے کمال۔ جس کے سبب اس خطہ زمین کو وقار نصیب ہوا۔ بلاشبہ انقلابی تھا۔ گلی کوچوں میں انقلاب آگیا۔ سبزی فروشوں اور پان فروشوںکو بھی انقلاب سے آگاہی نصیب ہوئی۔ وہ یقیناً اس سرزمین کو کہن رسیدہ اور فرسودہ اذہان رکھنے والوں کی گرفت سے نکال کر ترقی پسندوں کی صف اول میں کھڑا کرکے رکھ دیتا، لیکن طالع آزماؤں نے اسے تختہ دار پر چڑھادیا۔ تب عقل و فہم رکھنے والوں نے جان لیا کہ یہ زمین سخت اور مردار ہے، یہاں انقلاب کا پودا اگ ہی نہیں سکتا۔
جرنیل سوئم کو فری ہینڈ ملا، اتنا کہ لالوکھیت، نیلا گنبد اور برنس روڈ پر اس کی مخالفت میں بھی کوئی کھڑا نہیں ہوا۔ وہ مرد مومن اسلامی انقلاب تو نافذ نہ کراسکا، البتہ اس نے ہیروئن اور کوڑا کلچر ضرور متعارف کرادیا۔ اس کا انقلاب شیروانی پہننے تک آیا تھا، بالغ و نابالغ شیروانی کے فریب میں آگیا اور جناح کیپ لگا کر خود کو قائد ثانی سمجھنے لگا۔
نوٹوں پر رزق حلال عین عبادت ہے ضرور لکھا گیا، لیکن محض لکھنے لکھانے سے کوئی بات نہ بنی۔ مجلس شوریٰ، عشر کا نظام اور اسلامی بینکاری سب فریب ثابت ہوا۔ وہ فریب و بطلان کی پوٹلی کھول کر سب کو چکمہ دیتا رہا، لیکن اس سے برآمد کچھ نہ کرسکا۔ البتہ اسے عہد اقتدار کی طوالت بے محابانہ نصیب ہوگئی۔ امریکی جہادی فلسفے کے تحت اس نے طالبان کو گھوڑا بنا کر خوب سواری کی اور روس کی اسلامی ریاستوں میں اسلام کے دریا بہانے کے ٹیکنی کلر خواب بھی دیکھنے لگا۔ خواب رنگین دیکھنے کو عینک اسے چچا سام نے مہیا کی تھی۔
اگلی حکومت آئی تو انقلاب کی چھولداری لپیٹ کر رکھ دی گئی۔ اہل دانش نے جان لیا کہ نہ روس کو اسلام سے کوئی مخاصمت تھی اور نہ امریکا کو اسلام سے کوئی رفاقت۔ جہادی فلسفے پر مبنی کتابیں واپس لے لی گئیں۔ انقلاب کا تعزیہ ٹھنڈا ہوگیا۔ گلی کوچوں میں انقلاب آتے اور جاتے رہے۔ ضیا کی ذریات اب طاقتور ہوچکی ہے۔ اس نے کھل کھیلنا شروع کردیا ہے۔ نہ جانے وطن عزیز کو یہ کہاں پہنچا کر دم لے گی۔
جرنیل چہارم کو اسلامی انقلاب سے شمہ برابر کا واسطہ نہیں تھا۔ وہ کسی اور ہی انقلاب کے چکر میں تھا۔ ایک روزنامے میں، اس خاکسار نے اس کی ایک تصویر دیکھی تھی جس میں اس نے دو سگ طفل اٹھائے ہوئے تھے۔ یارانہ جس کا چچا سام سے بہت تھا۔ تعلقات کی نہ پوچھو، فرشتے زیادہ چھوٹ دیتے تو اس سرزمین کو وہ دیار غیر کے شہر نیویارک جیسا بنا کرہی چھوڑتا۔ زور آزمائی اس کی کامیاب نہ رہی۔ سیاست دوراں سے پنجہ کشی میں ناکام رہا۔ نتیجے کے طور پر کچھ اندرکچھ باہر بھی رہا۔ اب سکون کے سانس لے رہا ہے۔ کوچہ سیاست میں قدم رکھنے کو بے تاب ہے، مگر عدالت نے قدغن لگادی ہے۔ خیر اس کا انقلاب بھی لپیٹ دیا گیا۔ کوئی معجزہ ہی ہوگا کہ اسے پہلے جیسی عزت وتوقیر نصیب ہوسکے۔
یوں تو یہ سرزمین انقلابیوں سے بھری پڑی ہے، لیکن ایک انقلابی طائر القادری بھی تھا، (اب پتا نہیں کہ کہاں ہے) جس کا دعویٰ تھا کہ وہ اسلام آباد کے گلی کوچوں سے اسلامی انقلاب لاوے گا۔ باوجودیکہ لاکھ سر مارنے پر سمجھ میں نہیں آیا کہ اب تک اسلام کہاں تھا جو لایا جاوے گا؟ اسلام یہیں تھا اور یہیں رہے گا۔ ہمارے تمہارے دلوں میں۔ بس انقلابی اسے ادھر ادھر کر دیویں ہیں۔
ملکی روزناموں میں کبھی کبھار اس کے چہرے کا عکس مبارک دکھائی دے جاوے ہے۔
میرے عزیز! اسلام تو ہم سبھوں کے دل میں ہے۔ بات صرف عمل پیرا ہونے کی ہے۔ صدق دل سے توبہ کرلو اور مالک سے لو لگالو، انقلاب خود بہ خود آجاوے گا۔ اس کے لیے بینر اٹھانے اور گلی کوچوں میں نعرے بازی کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ انقلاب تو تبدیلی کا نام ہے۔ یہ تبدیلی ہم لاویں گے۔ تبدیلی قلب کے ذریعے سے۔ اس کے لیے کسی دوسرے کو درمیان میں لانے کی کیا ضرورت ہے؟