عظیم رہنما باکونن کا انتباہ
چونکہ ریاست کو طبقات نے تشکیل دیا ہے، اور وہ بھی صرف صاحب جائیداد طبقات کی حفاظت کے لیے۔
چونکہ ریاست کو طبقات نے تشکیل دیا ہے، اور وہ بھی صرف صاحب جائیداد طبقات کی حفاظت کے لیے۔ اس لیے آپ جتنی بھی نیک نیتی اور ایمانداری سے ریاستی ڈھانچے میں رہتے ہوئے شریفانہ جتن سے عوام کی بھلائی ہی کیوں نہ کرنا چاہتے ہوں، ممکن نہیں۔ ریاست طبقات کی خلیج کو بڑھاوا تو دے سکتی ہے لیکن ختم نہیں کرسکتی۔ کچھ گروہ، جماعتیں اور پارٹیاں عوام کی فلاح کی نیت سے اسی جبر کی ریاست میں مصروف عمل ہوجاتے ہیں مگر تاریخ نے ثابت کردیا ہے کہ صرف یہ قابل عمل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔
ریاست کو برقرار رکھتے ہوئے بہت سے بھولے اور نیک تمنا رکھنے والے ایسی کوششیں کرچکے ہیں، لیکن آگے چل کر وہ خود ریاست کے آلہ کار اور عوام پر جبر کرنے لگے۔ ولادیمیر الیچ لینن، ماؤزے تنگ، فیڈل کاسٹرو، کم ال سنگ ایسی کوششیں کرچکے ہیں مگر آخرکار نتیجہ صفر نکلا۔ عوام کو سب سے زیادہ فائدہ سوویت یونین کی حکومت نے دیا۔ علاج، تعلیم، روزگار، رہائش، ٹرانسپورٹ، غذا اور دیگر سہولتیں لیکن انھیں ان اقدام کے لیے عوام پر جبر کرنا پڑا اور اس ڈھال کو استعمال کرتے ہوئے بورژوازی (سرمایہ دار) پہلے زیر زمین بعد میں کمیونزم کا سہارا لے کر طبقاتی خلیج پیدا کی اور یہ خلیج بڑھتا گیا۔
روس میں سوشلسٹ انقلاب کے بعد جب مزدوروں، کسانوں، پیداواری قوتوں اور شہریوں نے زیادہ آزادی کے لیے فیکٹریوں اور زمینوں پر کمیونسٹ کارکنان کے بجائے خود اجتماعی قبضے کی کوشش کی تو انھیں لینن اور ٹراٹسکی کے احکام پر گرفتار کیا گیا، تشدد کیا گیا اور جلاوطن کیا گیا۔ پندرہ ہزار انارکسسٹوں، کمیونسٹوں اور انقلابی سوشلسٹوں کو قتل کیا گیا، تشدد کیا گیا اور زیر زمین جانے پر مجبور کیا گیا۔ روس کے عظیم کمیونسٹ (انارکسسٹ) انقلابی رہنما پیترکرو پوتکن، جنھوں نے ہزاروں لاکھوں انارکسسٹوں کی رہنمائی میں بالشویکوں کے ساتھ مل کر زارشاہی کی سفید فوج کے خلاف ((1917- 20 تک مسلح جدوجہد کی اور زارشاہی کی فوج کو شکست دی۔ بعد ازاں اسی کمیونسٹ رہنما کو جو کہ زارشاہی کا بھائی بھی تھا اور بادشاہت کو لات مار کر انقلاب کے میدان جنگ میں نکل آیا، انھیں انقلاب کے بعد بھی (1917- 20) تک اپنے فارم ہاؤس میں لینن نے مقید رکھا۔
جب اس عظیم رہنما کی 1920 میں رحلت ہوئی تو ان کے جنازے میں ان کے ساتھی جو جیل میں قید تھے انھیں ملنے کی اجازت نہیں دی جارہی تھی۔ بڑی مشکل سے چند کامریڈوں کو ٹراٹسکی نے شرکت کی اجازت اس شرط پر دی کہ جنازے میں شرکت کے بعد فوری جیل واپس جانا ہوگا۔ اگر ریاست کی موجودگی میں مزدور طبقہ اپنے مقاصد حاصل کرنے کے بعد کمیونسٹ سماج میں داخل ہوسکتا تھا تو پھر 46 سوشلسٹ ممالک میں سے کسی کو تو کمیونسٹ سماج میں داخل ہونا چاہیے تھا؟ اس پر عظیم انارکسسٹ رہنما باکونن الیگزنڈروچ میخائل نے کارل مارکس سے اختلاف کرتے ہوئے کہا تھا کہ انقلاب کے بعد اگر اسٹیٹ لیس سوسائٹی (یعنی کمیونسٹ سماج) کا اعلان نہ کیا گیا تو کمیونزم آنا تو درکنار طبقاتی خلیج بڑھے گی اور رد انقلاب کے ذریعے کیپٹلسٹ انقلاب آجائے گا اور آج یہ بات درست ثابت ہوئی۔
پیرس کمیون دنیا کا پہلا محنت کشوں کا انقلاب تھا جس میں دو سو کی اسمبلی میں قطعی اکثریت انارکسسٹوں کی تھی جو پرودھون کے کمیونسٹ نظریات سے متاثر تھے۔ ریاست کی مو جودگی میں بہتر بھلائی کرنے کی کوششیں بھی آخرکار نقش بر آب ثابت ہوتی ہیں۔ رائٹ تو رائٹ لیفٹ کی پارٹیاں اور گروہ کو بھی مطلق اقتدار ملنے سے ان میں رعونت آجاتی ہے۔ پاکستان کے ایک گروپ نے گزشتہ دنوں ایک کارکن کو چارج شیٹ، شوکاز یا صفائی کا موقع دیے بغیر اس گروپ سے نکال دیا کہ وہ براہ راست کمیونسٹ سماج کے قیام کی بات کرتا ہے۔
مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ نکالنے کے بعد بھی اس کارکن کو یہ اطلاع بھی نہیں دی کہ اسے نکال دیا گیا ہے۔ اب بھلا آپ خود ریاست کی کارستانی دیکھیں کہ انقلاب تو ابھی آیا ہی نہیں، اس سے قبل ہی آمرانہ اور ون مین شو کا مظاہرہ برملا کیا جاتا ہے۔ ان واقعات اور حالات سے یہ قدم بہ قدم ثابت ہوتا ہے کہ ریاست کسی بھی طور پر عوام کی بھلائی نہیں بلکہ صاحب جائیداد طبقات کی رکھوالی کرتی ہے۔ ریاست کے چار آلہ کار اسمبلی، فوج، عدالت اور میڈیا ہیں۔ اسمبلی کے ارکان آئے روز اپنی تنخواہیں بڑھواتے رہتے ہیں، جس پر انھیں آپس میں کوئی اختلاف نہیں جب کہ ان کے اپنی جانب سے کیے گئے وعدے کے مطابق مزدوروں کی کم از کم تنخواہیں بارہ ہزار روپے ہوں گی، اس کا نوے فیصد مزدوروں پر عملدرآمد نہیں کیا جارہا ہے۔
وکیل کو پانچ لاکھ روپے فیس دینی ہوتی ہے، ایک مزدور کی کل تنخواہ اگر آٹھ ہزار روپے ہے تو وہوکیل کی فیس دینے کے خواب بھی نہیں دیکھ سکتا ۔ جہاں تک میڈیا کا سوال ہے تو میڈیا، خاص کر الیکٹرونک میڈیا پر تجزیہ کرتے ہوئے متوسط طبقہ کے موقع پرست ہی نظر آئیں گے مگر مزدوروں یا بے زمین کسانوں کی جانب سے کسی کو تجزیہ کرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے ہیں۔
ریاست کو بیساکھی بنانے والے اکثر کہتے ہیں کہ ہمارے ملک میں انقلابی حالات تیار ہیں، صرف قیادت کا فقدان ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ قیادت مرکزیت کا مضبوط نمایندہ ہے۔ جب کسی کو مطلق اقتدار مل جاتا ہے تو اس میں رعونت آجاتی ہے، اور عقل کل بن کر کارکنوں کو بھول جاتے ہیں اور کارکنان عوام کو بھول جاتے ہیں۔ دنیا کی معلوم تاریخ میں جتنے معروف انقلابات آئے وہ بلا کسی جماعت اور لیڈر شپ کے آئے، مثال کے طور پر 1789 میں فرنچ ریوولیشن کسی جماعت یا رہنما کے ماتحت نہیں تھا بلکہ ریاست ندارد تھی۔ عوام نے مقامی بنیادوں پر عوامی، محلہ اور پنچایتی کمیٹیاں قائم کی تھیں۔
1936-39 کی اسپین کی عوامی جنگ، 1886 کے شکاگو کی مزدور تحریک اور حال ہی میں 2011 میں وال اسٹریٹ قبضہ تحریک جو کہ نیویارک سے شروع ہوئی اور نیوزی لینڈ تک جا پہنچی۔ پاکستان میں جتنی بڑی بڑی تحریکیں چلیں یا آج چل رہی ہیں وہ کسی بھی جما عت یا سکہ بند رہنماؤں کے تابع نہیں رہیں۔ 1968 میں پورے پاکستان میں ہفتوں ریاست ہوا میں معلق تھی۔ 1972-73 کی مزدور تحریک، مزدوروں نے خود چلائی تھی جس میں چودہ مزدور کراچی میں شہید ہوئے تھے۔ شہیدوں نے اپنے خون سے تحریک کو سینچا تھا۔
2013-14 میں لیڈی ہیلتھ ورکرز، اساتذہ، ینگ ڈاکٹرز، واپڈا کے مزدور، سابق کے ای ایس سی کے مزدور، پی ٹی سی ایل کے مزدور اور حالیہ نابیناؤں کی تحریک انھوں نے خود چلائی، کسی پارٹی نے ساتھ دیا اور نہ کسی پارٹی رہنما خواہ لیفٹ ہوں یا رائٹ نہ ڈنڈے کھائے اور نہ قید ہوئے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پیداواری قوتیں، محنت کش اور شہری خود انقلاب برپا کریں گے۔ جب تک ریاست کی متبادل عوام کی خودکار انجمنیں تشکیل نہیں پاتیں، اس وقت تک یہ ارتقائی تحریک چلتی رہے گی، جب جنگ ختم ہوجائیں گی ، ملکیت ختم ہوجائے گی، انسان جینا شروع کرے گا۔ یہ تبدیلی کسی ٹی وی پر نہیں دکھائی جائے گی اور نہ نشر ہوگی۔