ہائے خاندانی نظام
مشترکہ خاندانی نظام کی تشکیل میں عورت کا کردار اہم ہوتا ہے کیونکہ یہ فیصلہ عموماً عورت کا ہی ہوتا ہے
DASKA:
معاشرے میں رہن سہن کے لیے انسان تنہا زندگی نہیں گزار سکتا۔ اسی لیے انسانوں کے ساتھ رہنے کا نظام بنایا گیا ہے جوکہ صدیوں سے رائج ہے۔ اس نظام کے تحت انسان کسی معاشرے میں رہنے کے لیے معاشرے میں تعلقات استوار کرتا ہے۔ اپنا ایک الگ گھر بناتا ہے اور پھر اس گھر کا منتظم بن کر، گھر کے نظام کو احسن طریقے سے چلانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس نظام کو خاندان کہا جاتا ہے۔ اس میں کسی بھی انسان کے قریبی اور خونی رشتے دار شامل ہوسکتے ہیں۔ خاندان کا سربراہ عموماً سب سے بزرگ یا سب سے بڑا انسان ہوتا ہے۔ خونی رشتوں میں والدین، ددھیال، جب کہ سماجی رشتوں میں ننہیال اور سسرال شامل ہوتے ہیں۔
مشترکہ خاندانی نظام کی تشکیل میں عورت کا کردار اہم ہوتا ہے کیونکہ یہ فیصلہ عموماً عورت کا ہی ہوتا ہے، اس ضمن میں مختلف خواتین کے مختلف تجربات ہیں، کچھ خواتین کی رائے میں محبت و احترام کا تعلق دل سے ہوتا ہے پاس یا دور رہنے سے نہیں، بے شمار افراد ایسے بھی ہیں جو ایک چھت کے نیچے رہتے ہوئے رقیبوں کی طرح رہتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ ہمارا خاندانی نظام مضبوط ہوا کرتا تھا، دکھ سکھ سانجھے ہوا کرتے تھے، ایک کی تکلیف دوسرے کو محسوس ہوتی تھی، ایک کی خوشی پورے خاندان کی خوشی ہوتی تھی۔
مشترکہ خاندانی نظام میں ایک ہی گھر میں رہنے والے مختلف رشتے کے افراد کے خیالات آپس کے خیالات نہ ملنے کے باوجود مشترکہ خاندانی نظام بہتر ہوتا تھا، مشترکہ خاندانی نظام میں تحمل، رشتوں کا احترام اور قربانی کا جذبہ موجزن ہوتا تھا۔ غم و خوشی دکھ درد کا مل کر مقابلہ کیا جاتا تھا، ایک دوسرے کی مدد کی جاتی تھی، گھریلو اخراجات مشترکہ ہوتے تھے، رواداری اور ہمدردی کے پیکر معاشرہ ہوا کرتا تھا۔
خاندانی نظام میں بزرگوں کی مداخلت سے میاں بیوی کی کشیدگی کی نوبت طلاق تک نہیں پہنچتی تھی، بچوں کی تربیت خاندانوں کے بزرگ کیا کرتے تھے، بچے شام ڈھلے بزرگوں کی بیٹھک میں جاری علمی اور ادبی گفتگو سنتے تھے، سبق آموز قصے کہانیاں سنا کرتے تھے۔ خاندانی نظام ملازمت پیشہ خواتین کی مدد کرتا تھا، ساس اپنی بہو کو بیٹی کا درجہ دیتی تھی اور بہو اپنی ساس کو ماں کا درجہ دیتی تھی، بزرگوں کو گھر پر رحمت کا سایہ کہا جاتا تھا، مشترکہ خاندانی نظام میں فرد خود کو محفوظ سمجھتا تھا، اعصابی دباؤ اور ڈپریشن نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی تھی، میاں بیوی خوش رہا کرتے تھے، معاشرے میں طلاق کی شرح نہ ہونے کے برابر تھی، مشترکہ خاندانی نظام میں کم بجٹ میں گھر کا خرچ باآسانی چلتا تھا، گھر کے سربراہ تمام کمانے والے افراد کے مابین مالی بوجھ کو توازن میں رکھتا تھا۔
پھر نہ جانے کیا ہوا ہے کہ خاندانی نظام دم توڑ رہا ہے، یہ نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، معاشی ناہمواریوں، ترقی کی دوڑ اور بہتر روزگار کی تلاش کی وجہ سے رشتوں کا احترام دن بہ دن کم ہوتا جا رہا ہے، لوگ رشتوں سے دور ہوتے جا رہے ہیں، سماجی حیثیت نمایاں رکھنے کے لیے لوگ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوششوں میں مصروف ہیں جس کی وجہ سے رشتوں کے احترام میں کمی دکھائی دیتی ہے۔
سنگل فیملی سسٹم نے پاکستانی معاشرے کی مشرقی روایات جوکہ ایک خوبصورت گلدستے کا نمونہ تھا، کو توڑ کر بکھیر دیا ہے، لوگوں میں موجود خود غرضی، مفاد پرستی اور انا نے سب کچھ خاکستر کردیا ہے، معاشرے میں لوگوں نے دہرا معیار اپنالیا ہے، رواداری اور ہمدردی کا تصور ختم ہوتا جا رہا ہے، معاشرے میں متمول گھرانے معاشی ناہمواریوں کے شکار اپنے عزیز و اقارب سے کٹ کر رہنے کی کوشش میں مصروف ہیں، سنگل فیملی سسٹم نے مہنگائی بڑھنے پر ہر فرد کے اخراجات میں اضافہ کردیا ہے، خاندان سے کٹ کر رہنے والے خوشیوں سے دور ہیں ان کا دکھ درد بانٹنے والا کوئی نہیں ان کا مددگار کوئی نہیں، میاں بیوی ذرا ذرا سی بات پر جھگڑ پڑتے ہیں ان کے درمیان صلح کرانے والا کوئی نہیں ذرا سی بات طلاق کی نوبت کو پہنچتی ہے۔
سنگل فیملی سسٹم کے نظریے نے ماں باپ جیسی ہستیوں کو پناہ گاہوں میں داخل کروادیا ہے ان کی محبت و احترام کی قدر کو کھو دیا ہے، ضعیف والدین کو معاشی بوجھ سمجھا جا رہا ہے ایسی اولاد پر خدا کی ناراضی ہوگی جنھوں نے اپنی جنت اور رحمت کو اولڈ ہوم میں داخل کرا رکھا ہے۔ انفرادی فیملی سسٹم کے بچے بڑوں اور بزرگوں کے احترام سے بے نیاز اور بدتہذیبی کا شکار ہیں جب کہ ان کے والدین کو دولت کے حصول کی دوڑ میں بچوں کی مصروفیات اور مشاغل کا علم ہی نہیں اور نہ ہی ان کی بہتر تربیت کے لیے والدین کے پاس وقت ہے۔ سنگل فیملی سسٹم کی بدولت شادی کے بعد لڑکا لڑکی علیحدہ رہنے کو ترجیح دیتے ہیں تاکہ گھر والے ان کی زندگی میں مداخلت نہ کریں۔
یہ سنگل فیملی سسٹم کا ہی نتیجہ ہے کہ والدین دفتر جاتے وقت چھوٹے بچوں کو آیا کے حوالے کردیتے ہیں یا پھر کسی بے بی ہاؤس میں داخل کروا دیتے ہیں۔ ساس بہو کی اور بہو ساس کی صورت دیکھنا نہیں چاہتی ہیں، تعلیم یافتہ خواتین کی اکثریت شادی کے بعد سنگل فیملی سسٹم میں رہنا پسند کرتی ہیں جس سے وہ عدم تحفظ کا شکار ہوتی ہیں، مہنگائی کے باعث شوہر گھر کی تنہا کفالت کرنے سے قاصر ہوتا ہے جس سے ہونے والے اعصابی دباؤ اور ڈپریشن سے میاں بیوی میں ناچاقی بڑھ جاتی ہے، اسی وجہ سے معاشرے میں طلاق کی شرح بڑھ رہی ہے۔ پھر بھی کہا جاتا ہے زمانہ ترقی کر رہا ہے۔ یہ ترقی نہیں زوال پذیری ہے۔ رشتوں کا احترام کم ہوجانے سے بے سکونی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس تنہائی میں گھر بار لٹ رہے ہیں، عدم تحفظ کا احساس بڑھتا جا رہا ہے۔
اب بھی دیر نہیں ہے، وقت ہے، پلٹ آؤ، صبح کا بھولا شام کو گھر آنا اچھی بات ہے۔ مشرقی روایات میں حرکت ہے، برکت ہے، اپنا ایک حسن ہے، خوشبو ہے، جس کی مہک سے پورا گھرانہ مہکتا ہے۔ ایک دو انگلی میں نہیں پورے پنجے میں طاقت ہوتی ہے۔ تنہا پتے کو ہوا لے اڑتی ہے، تناور درخت طوفانوں میں بھی جڑ نہیں چھوڑتا۔ مشرقی روایات میں شرم و حیا ہے اور یہی عورت کا اصل زیور ہے، ماں کے قدموں تلے جنت ہے، باپ رحمت کا سایہ ہے۔ کہاں چلے ارے او پگلے، لوٹ آؤ، تیرا گھر تیری جنت ہے۔