آسمانی اختیار
پاکستان میں قانون و انصاف سے کھیلنے اور اس کی دھجیاں اڑانے کا سلسلہ تیز سے تیز تر ہوتا جا رہا ہے۔
پاکستان میں قانون و انصاف سے کھیلنے اور اس کی دھجیاں اڑانے کا سلسلہ تیز سے تیز تر ہوتا جا رہا ہے۔ جس کی وجہ سے قانون شکنوں اور مجرموں میں بے خوفی اور ان کے حوصلے بڑھتے جا رہے ہیں اور انصاف اور قانون پسند شہریوں کے دلوں میں خوف، مایوسی اور بد دلی کے سائے گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔
شہری میڈیا کے ذریعے بلاناغہ اس قسم کے واقعات سنتے، دیکھتے اور پڑھتے رہتے ہیں جن میں طاقتور اور مجرم قانون کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں، جن کے سامنے انصاف کی فراہمی اور اس کے اطلاق کے ذمے دار ادارے بھی بے وقعت اور بے دست و پا نظر آتے ہیں۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی تو سوالیہ نشان ہوچکی ہے ان کے دعوے، بڑھکیں اور نمائشی اور مصنوعی قسم کے اقدامات محض طفل تسلیوں کے سوا کچھ نظر نہیں آتے۔ جدید اسلحہ، ہتھیار، گاڑیاں، آلات و لیبارٹریز وغیرہ اندرون و بیرون ملک تربیت اور خطیر بجٹ کے باوجود خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آرہے، کراچی پولیس نے چند ماہ پیشتر آن لائن ایف آئی آر درج کرانے کا سلسلہ شروع کیا تھا تاکہ لوگوں کی اس دیرینہ شکایت کا ازالہ کیا جا سکے کہ پولیس جرائم کے ریکارڈ پر آنے یا مجرموں کے با اثر ہونے کے خوف یا پھر کام کا بوجھ بڑھ جانے کی وجہ سے ایف آئی آر درج کرنے پر آمادہ نہیں ہوتی ہے۔
محکمہ پولیس کے اس آن لائن ایف آئی آر درج کرنے کے اقدام کو تمام طبقات نے سراہا تھا، لیکن پولیس کا دعویٰ بھی بے معنی رہا، کراچی کے ایک نجی اسپتال میں مبینہ طور پر غلط دوا دیے جانے اور اس کے بعد دوسرے اسپتال میں ڈاکٹروں کی لاپرواہی سے موت کے آغوش میں چلے جانے والے بچے کے والدین کئی ماہ سے ڈاکٹر اور اسپتال کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کے لیے مارے مارے پھر رہے ہیں۔
متعلقہ تھانہ ایف آئی آر درج کرنے، درخواست وصول کرنے یا کوئی کارروائی کرنے سے انکار کر رہا ہے۔ بچے کے لواحقین کا کہنا ہے کہ وہ کراچی پولیس آفس میں آن لائن ایف آئی آر درج کرانے گئے تو ان کی درخواست تو وصول کرلی گئی لیکن تھانے نے اب تک کوئی کارروائی نہیں کی، میڈیا کے سوال پر ایس ایچ او نے بتایاکہ یہ بڑا کیس ہے، اعلیٰ افسران سے اجازت لیے بغیر ایف آئی آر درج نہیں کی جاسکتی جب اس کی منظوری ہوجائے گی تو مقدمہ درج ہوجائے گا۔
محکمہ پولیس کی جانب سے شہریوں کی فوری مدد اور جرائم کی بیخ کنی کے لیے ہیلپ لائن 15 شروع کی گئی تھی، اس کے مستقل شہریوں کو شکایات ہیں کہ یہ نمبر نہیں اٹھایا جاتا یا بات نہیں سنی جاتی اور اکثر اوقات بروقت اور موثر کارروائی بھی عمل میں نہیں لائی جاتی ہے۔ ایک خبر کے مطابق جیلوں سے پیرول پر رہا کیے گئے 16 قیدی تا حال واپس نہیں آئے یہ قیدی قتل، اقدام قتل، ناجائز اسلحہ اور دیگر سنگین جرائم میں ملوث تھے جنھیں نوازتے ہوئے ایک دو دن کی بجائے 90 دنوں کے لیے پیرول پر رہا کیا گیا تھا۔
ایک سنسنی خیز خبر یہ آئی ہے کہ سابقہ دور حکومت میں برطانیہ میں قتل و منشیات کے الزام میں 12 سال کی قید کاٹنے والے تین قیدیوں کو پاکستان لاکر رہا کردیاگیا تھا ان لوگوں نے برطانیہ میں دوبارہ کاروبار شروع کیا تو برطانوی حکام کو شک گزرا اور انھوں نے ان قیدیوں سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا۔
ملاقات کے لیے آنے والی ٹیم سے ایک قیدی کو لاہور جیل میں بند کرکے ملاقات بھی کرادی گئی لیکن تینوں قیدیوں کے برطانیہ میں جاری کاروبار پر برطانوی حکام نے از خود تحقیقات کیں اور پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کے ساتھ مشترکہ کارروائی کرتے ہوئے گزشتہ دنوں اسلام آباد کے ایک فائیو اسٹار ہوٹل سے ایک مجرم کو گرفتار کیا تو دیگر دو ملزمان کی گرفتاری بھی عمل میں آئی، نادرا نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ بہت اصل مجرموں کی جگہ جعلی افراد جیلوں میں قید ہیں۔
جن کے کوائف جیل ریکارڈ سے مطابقت نہیں رکھتے ہیں۔ اس سلسلے میں حکومت سندھ نے ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے دی ہے جو تحقیقات کرے گی کہ تمام قیدی اصل ہیں یا ان کی جگہ دوسروں کو قید رکھا گیا ہے اور ایسے قیدیوں کو کب، کہاں اور کیسے تبدیل کیاگیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ جیلیں کمزور، لاوارث اور غریب افراد کے لیے عقوبت خانے ہیں انھیں وہ بنیادی انسانی حقوق اور سہولیات میسر نہیں جن کی ضمانت آئین و قانون میں فراہم کی گئیں ہیں، جب کہ صاحب ثروت، اثر و رسوخ کے حامل اور جرائم پیشہ افراد کے لیے جیلیں عشرت کدہ ہیں جہاں انھیں دنیا کی ہر نعمت اور سہولت اور تحفظ میسر ہے، حال ہی میں ڈالرز اسمگلنگ کیس میں گرفتار ماڈل ایان علی کے متعلق روزانہ خبریں شایع ہورہی ہیں کہ اس کے آنے سے اڈیالہ جیل کی رونقیں بڑھ گئی ہیں۔
بڑی بڑی با اثر شخصیات اور بیورو کریسی کے افراد کا جیل میں آنا جانا لگا ہوا ہے، ملزمہ کو کھانا پی سی سے منگواکر کھلایا جارہا ہے، خدمت کے لیے دو کنیزیں (وارڈنز) دی گئیں ہیں، گھر جیسی سہولیات اور ماحول فراہم کرنے کے علاوہ جیل حکام دن میں کئی کئی مرتبہ جاکر مزاج پرسی کرتے ہیں۔ میڈم کو الرجی ہوگئی تو اس نے جیل کے مرد ڈاکٹر سے علاج کرانے سے انکار کردیا اور باتیں میڈم کو جیل سے باہر علاج کرانے کی ہونے لگیں۔
اس نے جیل کی گاڑی میں عدالت جانے سے انکار کیا تو پروٹوکول کے ساتھ خصوصی گاڑی کی پیشکش کردی گئی۔ ادھر کراچی میں قتل کے جرم میں سزا پانے والے شاہ رخ اور مقتول شاہ زیب کے ورثا کے مابین صلح نامہ عدالت میں پیش کرکے سزا معاف کرانے کی خبریں بھی آرہی ہیں۔
جس نے دن دھاڑے قتل کے بعد ملک سے فرار ہونے اور عمر کم ظاہر کرنے کے لیے تمام حکومتی اداروں کے کرپٹ عناصر کو استعمال کیا تھا، عدالتوں میں دھینگا مستی کی اور مقتول کے ورثا کو عدالت کے اندر زدوکوب کیا تھا اور یہ مجرم مقتول کے دوست احباب، سپورٹر اور سول سوسائٹی کے بے انتہا دباؤ اور اعلیٰ عدالتوں کی مداخلت سے اپنے کیفر کردار تک پہنچاتھا۔ اگر شاہ رخ کیس میں کوئی لچک سامنے آتی ہے تو ملک بھر میں دہشت گردی کے مقدمات میں پھانسی کے منتظر مجرموں کے ساتھی اور گینگز اپنے ساتھیوں کی جانیں بچانے کے لیے خوف، دباؤ اور لالچ کا استعمال کریں گے اور یہ عمل جاری مقدمات پر بھی اثر انداز ہوکر ایک غلط نظیر قائم کرے گا۔
اس نوعیت کے ایک مقدمے میں پہلے ہی پشاور ہائی کورٹ معافی نامہ کو مسترد کرچکی ہے۔ 30 مارچ کو سپریم کورٹ نے قتل کے ملزم محمد ریاض کی پھانسی رکوانے کی درخواست کو اس بنیاد پر مسترد کردیا کہ دہشت گردی ریاست کے خلاف اور ناقابل معافی جرم ہے عام قتل میں مقتول کے ورثا کو معاف کردینے کا حق ہوتا ہے لیکن دہشت گردی میں سزائے موت پانے والا دیت دے کر بھی بری نہیں ہوسکتا، ریاست سزا پر عمل در آمد کی پابند ہوتی ہے، عدالت خود قانون کی پابند اور تابع ہے اس کے پاس کوئی آسمانی اختیار نہیں ہوتا کہ قاتل کی سزا ختم کردے۔
اگر بالا عدالتیں قتل و غارت گری اور جرائم پیشہ افراد اور حکومتی اداروں اور افراد کے خلاف اپنا کردار ادا نہ کریں تو معاشرے میں ہر طرف ظلم و نا انصافی اور لوٹ مار کا کھلا بازار گرم ہوجائے، لیکن آزاد عدلیہ اور آزادانہ عدالتی فیصلہ حکمرانوں، طاقتور اور ظلم، لوٹ مار اور کرپشن کرنے والوں کے لیے کبھی قابل قبول نہیں رہے ہیں، قومی اسمبلی میں عدالتوں کے سو موٹو اختیارات کے استعمال سے متعلق ایک بل بھی قومی اسمبلی میں پیش کردیاگیا ہے۔
جس پر حکومتی ارکان کی خاموشی بھی معنی خیز ہے اس قسم کی کوئی قد غن حق و انصاف کے عمل اور عام شہریوں کے حقوق کو موتاثر کرے گی، عدالتوں کے اس اختیار کی وجہ سے بے نوا اور بے سہارا لوگوں کے لیے انصاف کے دروازے کھلتے ہیں، بہت سے بڑے بڑے اور طاقتور مجرم قانون کے شکنجے میں آتے ہیں، بہت سی قومی دولت لٹنے سے بچ جاتی ہے اور قومی افق پر نظر آنے والے بعض حکومتی اداروں کا وجود بھی اسی کا مرہون منت ہے۔
ملک میں بسنے والی چند فی صد آسمانی اختیارات کی حامل مخلوق ملک میں رائج ظلم و وزیادتی، حق تلفی، نا انصافی اور لوٹ مار کے نظام کو مزید سے مزید مضبوط تر کرنے کے لیے سرگرم ہے، اس کے لیے کسی قسم کے آسمانی اختیار کے استعمال سے نہیں چوکتی اس آسمانی مخلوق کے آسمانی اختیارات کے عمل دخل کا خاتمہ کیے بغیر ملک و قوم کے لیے کسی بہتری کی توقع نہیں کی جاسکتی ہے۔