ایک چونکا دینے والا سچ

یہ بہت سال پہلے کی بات ہے کہ میں کراچی کے مقامی اخبار کے لیے ملازمت پیشہ خواتین کے انٹرویوز کیا کرتی تھی۔


Shabnam Gul April 02, 2015
[email protected]

یہ بہت سال پہلے کی بات ہے کہ میں کراچی کے مقامی اخبار کے لیے ملازمت پیشہ خواتین کے انٹرویوز کیا کرتی تھی۔ یہ شخصیات جن کا تعلق فنون لطیفہ سے بھی تھا اور کچھ ادب شعر و شاعری سے بھی وابستہ تھیں۔

ڈاکٹر، وکلا اور انجینئر خواتین بھی تلاش جستجو کے سفر میں میری ہمسفر بنیں۔ ہم نے مل کر سوچ و خیال، خواب و حقیقتوں کی پرپیچ راہیں ساتھ عبور کیں۔ کئی تلخ حقائق سامنے آئے۔ خوابوں کی ٹوٹی ہوئی کرچیاں چبھیں تو کہیں مصائب کے پہاڑ دکھائی دیے۔ اور اندازہ ہوا کہ عورت کی زندگی ہر طرح کے مسائل، پریشانیوں و ذہنی دباؤ سے بھری ہوئی ہے۔ مگر یہ تمام تر ادھوری سچائیاں تھیں۔

محض ایک مبہم سچ۔۔۔۔

ان ہی دنوں درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ایک خاتون کے کھرے سچ نے مجھے بے اختیار چونکا دیا۔ انھوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا ''لوگ ضرورتاً جھوٹ بولتے ہیں، میں نے زندگی میں بلاوجہ کئی جھوٹ بولے ہیں۔ میرے رشتے و ناتے جھوٹ ہیں اور میں بذات خود ان رشتوں و ناتوں کو نبھانے کی خاطر ایک بہت بڑا جھوٹ ہوں۔'' یقین جانیے وہ انٹرویو کئی دن پڑا رہا۔ میں نے ان سے ایک دو بار نظرثانی کی درخواست کی مگر وہ اپنی بات پر قائم رہیں۔ بہرحال وہ انٹرویو جوں کا توں چھپا جو میرے لیے ایک طویل عرصے تک وجہ حیرت بنا رہا۔

وہ خوش گمانی کا عجیب دور تھا۔ ہم سب زندگی کے ایسے موڑ سے ضرور گزرتے ہیں، جب زندگی کے نوکیلے حقائق خوش فہمی کے گلابوں سے ڈھک جاتے ہیں۔ ہم یا تو سچ کو سمجھنا نہیں چاہتے یا حقائق سے نظریں چرانے لگتے ہیں۔

یہ سوال بارہا میرے ذہن میں اٹھتا رہا کہ آخر لوگ جھوٹ کیوں بولتے ہیں؟ یا پھر کچھ لوگ اتنا کھرا سچ کیوں بولتے ہیں؟ جھوٹ اور سچ کے درمیان الجھی زندگی کی کہانی آگے چل کر کون سا موڑ اختیار کرے گی۔ جھوٹ کی گہری کھائی میں گرنے سے پہلے ہم سچ کا دامن کیوں نہیں تھام لیتے؟

وقت گزرتا رہا۔ لمحوں کے چہرے سے خوش گمانی کا نقاب اترتا رہا۔ حقائق مختلف تھے۔ زندگی کی سچائی نوکیلے کانٹوں سے مزین نظر آئی۔ گہرائی میں جاکے دیکھو تو تہہ در تہہ جھوٹ کے مساوی کڑے سچ دکھائی دیتے ہیں۔

سچ اور حقائق روز ازل سے یکساں ہیں۔ مگر ایک وقت آتا ہے جب انسان کی پرکھ کا پیمانہ بدل جاتا ہے۔ وہ خوش فہمی اور پرفریب خیالات کی دنیا سے باہر نکل آتا ہے۔ پھر احساس ہوتا ہے کہ ذہن محض واہموں میں الجھا رہتا ہے۔ قیاس آرائیاں، زندگی کے سچ سے دور کردیتی ہیں۔

جھوٹ، دکھاوا، بناوٹ اور حقائق سے پہلو تہی ہماری معاشرتی اقدار کا حصہ ہیں۔ مصلحت، منافقت اور غلط بیانی نے کامیابی کے جھنڈے گاڑ رکھے ہیں۔ جھوٹ ایک منفی دراڑ ہے، جو آنے والی کئی نسلوں کے مستقبل کو کھوکھلا کرکے رکھ دیتا ہے۔ اس کے باوجود جھوٹ ایک منفی توانائی ہے۔

یہ غرض کی ڈور سے بندھا ہے۔ بے وفائی کی جڑ سے پھوٹ نکلتا ہے۔ انتشار کے لاوے میں پکتا رہتا ہے۔ غم کی بھٹی میں سلگتا ہے۔ ندامت، پشیمانی اور جرم کو خوب پنپتا ہے۔ یہ اذیت پسندی کی اونچی مسند پر بیٹھا نظر آتا ہے۔ یہ خوشنما باتوں کی ترجیح بن جاتا ہے۔ اور خوبصورت فقروں کے لبادے میں اکثر چھپ جاتا ہے۔ آپ اس سے چھپ نہیں سکتے۔ کہیں نہ کہیں روپ بدل کر یہ لوٹ آتا ہے۔ اس کا زہر ہمہ وقت ڈسنے کو تیار ملتا ہے۔

ہمارے معاشرے کا المیہ ہی یہ جھوٹ ہے۔ جو چوربازاری، ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ، غیر معیاری جان لیوا اشیا کا فروغ، کامیابی کے حصول کے مختصر راستے، آمدنی کے غلط ذرایع کو فروغ دینے میں پیش پیش رہتا ہے۔ یہ منفی رویے سب کے سب سکہ رائج الوقت ہیں۔

جھوٹ کو ہمیشہ چھپنے کے راستے مل جاتے ہیں۔ یہ حسین چہروں، امارت، قیمتی کپڑوں، بڑی گاڑیوں اور بیش بہا چیزوں کے پیچھے چھپ جاتا ہے۔ جھوٹ خودشناسی کے جوہر سے محروم کردیتا ہے۔

جھوٹ کی سچائی سے نہیں بنتی۔ سچائی آزادی کا خاتمہ کردیتی ہے۔ انگریزی کے مضمون نگار فرانسس بیکن کہتا ہے ''انسان گمان میں مبتلا ہوکر خوش ہوتا ہے۔ جس سے اس کی زندگی خوبصورت ہوجاتی ہے۔ اگر انسانی زندگی جھوٹی شان سے محروم ہوجائے تو وہ سپاٹ، اداس اور بدحال دکھائی دینے لگتی ہے۔'' لہٰذا زندگی کی رونقیں اور تمام تر خوبصورتی جھوٹی شان، دکھاوے اور منافقت کے اردگرد گھومتی ہیں۔ اس لیے انسان سچائی سے نفرت کرتا ہے۔ کیونکہ سچ کے آئینے میں وہ اپنا اصلی روپ نہیں دیکھنا چاہتا۔

زندگی کی تمام تر پیچیدگیاں جھوٹ کی مرہون منت ہیں۔ یہ وہ معمہ ہے، جس کے سرے کہیں نہ کہیں جھوٹ اور غلط بیانی سے جا ملتے ہیں۔ سچے اور کھرے لوگ قابل قبول نہیں ہوتے۔ نہ انھیں محفلوں میں بلایا جاتا ہے۔ اور نہ ہی ان کی پذیرائی کی جاتی ہے۔ لہٰذا دکھ تکلیف اور مصائب کو سوچ کر سچ کے بجائے انسان مصلحت پسند بن جاتا ہے۔ جن معاشروں میں دہرا معیار پایا جاتا ہے وہاں جھوٹ دھرنا مار کر سانس لیتے خلیوں میں بیٹھ جاتا ہے۔ پھر ورثے کی صورت نسل در نسل گردش کرنے لگتا ہے۔

ترغیب سے جھوٹ کا جہنم بھڑک اٹھتا ہے۔ ترغیب سے اگر انسان منہ موڑ لے تو جھوٹ بھی دم توڑ دے۔ سب سے زیادہ تکلیف دہ جھوٹ وہ ہے جو رشتوں کے درمیان سر اٹھانے لگتا ہے۔ بعض رشتے جھوٹ کی بنیاد پر رکھے جاتے ہیں۔ جو مستقل بے اطمینانی کا سبب بن جاتے ہیں۔ کچھ رشتوں کے درمیان میں جھوٹ گھس آتا ہے اور وہ بکھرنے لگتے ہیں۔

جھوٹ کے پاس انتشار کی طاقت ہوتی ہے۔ یہی جھوٹ آج اسلامی دنیا کی بنیادیں ہلا رہا ہے۔ کیونکہ جھوٹ کے پاس یکجہتی کو منتشر کرنے کا سلیقہ ہے۔ یہی جھوٹ ہے جو محبتوں میں فاق کا بیج بوتا ہے۔ بہت سال بعد یہ بات سمجھ آئی کہ اس چونکا دینے والے سچ کی حقیقت کیا ہے۔ وہ کھرا سچ بولنے والی خاتون کو ہر قدم پر اس کے اپنے رشتے و ناتوں نے مسترد کیا ہوگا۔

اس کی ذات کی سچائی کو جھٹلایا ہوگا۔ اور وہ بھی جھوٹ کا حصہ بن کر رشتوں سے نباہ کرتی رہی۔ دنیا کے سامنے سرخرو ہونے کی خاطر۔ کیونکہ یہ جھوٹ ہے دور جدید میں جو گلی کوچوں میں پھیل گیا ہے۔ اس نے پررونق راستوں اور مصروف شاہراہوں کا سراغ ڈھونڈ نکالا ہے۔

اس نے تعلق اور رابطوں میں پناہ ڈھونڈی ہے۔ یہ سزا سے بچنے کا سلیقہ ہے۔ یہ خودفریبی کا جوہر ہے۔ عارضی خوشیوں کی جنت ہے۔ یہ طاقت کا سرچشمہ ہے لہٰذا آپ کسی طور جھوٹ کی اہمیت اور سچائی سے انکار نہیں کرسکتے۔ بہرحال ایک کھرا سچ تمام عمر میری سوچ کا پیچھا کرتا رہا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں