خبریں اور فقرے

ہمارے تمام ادارے بالخصوص قانون نافذ کرنیوالے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور سخت محنت بھی۔


نجمہ عالم April 03, 2015
[email protected]

اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ملک میں ہر قسم کی بدعنوانی، رشوت، اقربا پروری اور بطور خاص دہشت گردی و بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ پر مکمل قابو پالیا گیا ہے۔ رعایا امن و سکون سے ہیں اور راوی ہر طرف چین ہی چین لکھتا ہے۔ ہمارے تمام ادارے بالخصوص قانون نافذ کرنیوالے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور سخت محنت بھی۔

ہمارے وزیر اعلیٰ نے ان دونوں اداروں کی اس کارکردگی کی بے حد تعریف کی ہے بلکہ عوام بھی بہتر ہوتی صورت حال پر بے حد مسرور ہیں۔ اتنا لکھ دینا ہی کافی ہے اب صرف دو ہفتوں میں دو یا تین دن کے اخبارات سے محض خبریں آپ کی خدمت میں پیش ہیں جن کو پڑھ کر آپ حالات حاضرہ سے ہم سے زیادہ باخبر ہوسکتے ہیں۔

یہ خبریں کن کن اخبارات سے برآمد کی گئی ہیں اس کا ریکارڈ ہمارے پاس محفوظ ہے نظر سے تو آپ کی بھی گزری ہوں گی۔(1)۔''ٹارگٹ کلنگ زیرو، بھتے پر بھی کنٹرول کرلیا گیا، آئی جی سندھ۔'' ایک خبر دوکالمی زبردست واہ بھئی واہ! برسوں کا مسئلہ چٹکی بجاتے حل ہوگیا ، مگر یہ کیا اسی اخبار کے اسی صفحے پر ایک اور چشم کشا یا پھر بے خبری کا اعلیٰ نمونہ چھ کالمی خبر ''دکانداروں کو بھتہ خوروں کی دھمکیاں، ایم اے جناح روڈ کے تاجروں کا احتجاج، ٹریفک جام۔ آئی جی سندھ نے محض ایک گھنٹہ قبل بھتہ خوری پر قابو پانے کا دعویٰ کیا تھا۔ ہماری گزارش ہے ان دونوں خبروں پر تبصرہ آپ خود اپنی مرضی کیمطابق فرمالیں۔

(2)۔''قتل میں ملوث دو تھانیدار سپریم کورٹ کے حکم پر معطل۔'' تفصیل اس سرخی کی یہ ہے کہ ایس ایچ او سچل اور سہراب گوٹھ نے ایک شہری کو گرفتار کرکے لواحقین سے پانچ لاکھ رشوت (بھتہ) مانگی نہ دینے پر شہری کو جعلی پولیس مقابلے میں قتل کردیا گیا۔

اس کے باوجود دونوں افسران اور سی آئی اے میں تعینات ایک اہلکار ہراساں کر رہے ہیں مقتول کے والد کا بیان۔ گویا کارکردگی اتنی عمدہ کہ بھتہ بھی وصول پھر بھی قتل کردینا اور مقدمہ درج کرنے پر رشوت بھی طلب یہ ہوا نا ایک پنتھ تین کاج۔(3)۔نیو کراچی سے 22 افراد کا قاتل اشتہاری ٹارگٹ کلر گرفتار۔ گرفتار ٹارگٹ کلر سنی تحریک کا سابق سیکٹر انچارج ہے۔''

مطلب یہ کہ صرف سیاسی جماعتیں ہی نہیں (جن کا مقصد ہی سیاست ہے) مذہبی جماعتیں بھی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہیں تو پھر ان کے خلاف بھی بھرپور کارروائی ہونی چاہیے کیوں نہیں؟ (4)۔''سندھ پولیس Kالیکٹرک کی ایک ارب 37 کروڑ سے زائد کی نادہندہ۔'' آخر پولیس ہے ہر طرح سے کھا سکتی ہے چاہے بجلی کے بل کی صورت میں ہی سہی۔(5)۔''سرکار پولیس کو ٹھیک نہیں کرسکتی تو بتا دے یہ کام ہم اپنے ذمے لے لیں گے۔ سپریم کورٹ۔'' جس کو بگاڑا ہی خود سرکار نے وہ بھلا کیوں ٹھیک کرے اور پھر بے چاری حکومت کیا کیا کرے ملک کی لوٹی ہوئی دولت کو باہر بھیجنے کے لیے ہی اس کو کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔

(6)۔''عزیر بلوچ کو چند روز میں پاکستان کے حوالے کردیا جائے گا، کراچی پولیس ٹیم۔'' اس خبر کے 12 یا 14 دن بعد کی خبر ملاحظہ فرمائیے۔ عزیر بلوچ کی وطن واپسی کے لیے گئے افسران خالی ہاتھ لوٹ آئے۔''عزیر بلوچ کی وطن واپسی کا فیصلہ بدل دیں تو سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا، مولا بخش چانڈیو۔'' جناب عزیر بلوچ کے بارے میں تین خبریں حاضر خدمت ہیں جن سے آپ ماشا اللہ سمجھ گئے ہوں گے کہ بااثر افراد کتنے ''بااثر'' ہوتے ہیں۔

(7)۔''اوپن لیٹر پر چلنے والی گاڑیوں سے دہشت گردی کا خدشہ۔ریکارڈ نہ ہونے سے ان گاڑیوں کا سراغ لگانا ناممکن ہے۔'' آخر دہشت گرد بھی انسان ہیں ان کو پوری سہولت فراہم کرنا بھی تو کسی کی ذمے داری ہوگی۔ (8)۔''بوگس چیک دینے پر سرکاری افسر کو جیل بھیج دیا گیا، ملزم سرکاری افسر ہے، عمرہ ویزہ دلوانے کے لیے شہریوں سے لاکھوں روپے وصول کیے۔'' ایک تو حکومت سرکاری افسران کو گھر کا نوکر سمجھتی ہے بطور مشاہرہ کچھ اتنا زیادہ بھی نہیں دیتی کہ افسرانہ شان برقرار رکھی جاسکے یعنی اونچی دکان پھیکا پکوان والی بات اب اگر وہ سائیڈ بزنس نہ کریں تو حکومت کا نام اور شان کیسے برقرار رکھی جاسکتی ہے۔

جیل گئے تو کتنے دن کے لیے؟ کمائی دولت کہیں تو کام آئے گی مقدمہ ختم کرانے اور جیل سے باہر آنے میں ہی کیوں نہیں؟ کاروبار دوبارہ بھی جاری رکھا جاسکتا ہے، کوئی ہر بار تھوڑی پکڑے جائیں گے۔(9)۔''پولیس اہلکار کی ٹارگٹ کلنگ میں پولیس اہلکار ہی ملوث۔ ملزم قیصر گینگ وار کے کارندوں کے لیے اپنے ہی پیٹی بند بھائیوں کی مخبری کرتا اور بھاری رقم وصول کرتا تھا۔'' تو کیا ہوا، آخر کام تو کرتا تھا۔ بیٹھے بیٹھے تو رقم وصول نہیں کرتا تھا، کام بھی کتنا محنت طلب اور خطرناک، یوں بھی ''پولیس کا ہے کام مدد آپ کی'' اب یہ مدد آپ کے بجائے کسی کی بھی ہوسکتی ہے چاہے وہ گینگ وار کے کارندے ہوں یا ''اور کوئی''۔

(10)۔''اغوا اور جرائم میں ملوث دو پولیس اہلکار نوکری سے برطرف۔ کانسٹیبل نزاکت اور نواب اغوا اور اسٹریٹ کرائم کی وارداتیں کرکے بھاری رقم وصول کرتے تھے۔''ہم آپ کو باوثوق ذرایع کے بغیر بتائے دیتے ہیں کہ اول تو یہ الزام بے بنیاد ثابت ہوگا اور وہ دوبارہ برسر روزگار ہوجائیں گے اور اپنی سائیڈ بزنس بھی پوری شان سے جاری رکھیں گے کیونکہ ان کے خلاف کوئی گواہ ملے گا ہی نہیں۔ یوں ہی تو ہمارا ملک بدعنوانی میں گلے گلے نہیں پھنس گیا ہے۔

(11)۔''سانحہ لنک روڈ حکومت کے جواب داخل نہ کرنے پر عدالت برہم۔'' سپرہائی وے دائرہ اختیار میں ہے لنک روڈ اختیار سے باہر ہے این ایچ اے۔'' تمام مجرموں کو چاہیے کہ وہ ایسے ہی علاقوں میں لے جاکر لوگوں کو قتل کریں، لوٹیں، بھتہ وصول کریں، تاوان طلب کریں جو کسی کے دائرہ اختیار میں نہ ہوں یعنی فری زون ہوں آپ کا کام بھی ہوجائے اور پکڑ بھی نہ ہوگی، کیوں کیسا ہے یہ مشورہ؟

(12)۔''بلدیاتی اداروں میں جعلی فائلوں کے ذریعے کروڑوں کی بدعنوانی۔اخراجات ظاہر کرکے بلدیہ عظمیٰ اور ضلعی بلدیاتی اداروں میں جعلی فائلوں کا کام عروج پر، سب سے زیادہ جعلی فائلیں ڈیوالڈ ڈپارٹمنٹ میں بنائی جا رہی ہیں۔ترقیاتی منصوبے عملی طور پر نامکمل مگر فائلوں میں مکمل ہونے لگے جب کہ بلدیاتی ملازمین تنخواہوں کے لیے ہر ماہ پریشان۔ اگر صوبائی حکومتوں کے پاس کمائی کا یہ ذریعہ نہ ہو تو پھر وہ بلدیاتی انتخابات سے کیوں گریزاں ہوتیں۔

(13)۔''اسٹیل ٹاؤن ڈانس(رقص) پارٹی پر چھاپہ۔ 9خواتین سمیت 41 گرفتار۔'' ڈیفنس، کلفٹن اور گلشن اقبال کے تاجر بھی شامل، چند افراد بھاری رقم دے کر رہا۔'' اس میں کیا نئی بات ہے جو رہ گئے وہ بھی رقم دے کر چھوٹ جائیں گے کسی کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ چھاپہ مارا ہی اس لیے گیا تھا کہ کچھ رقم ہاتھ لگ جائے، ورنہ اس شہر میں کیا کیا کھلے عام نہیں ہو رہا، چھاپے سے بچنے کے لیے کسی '' بڑے '' کی سرپرستی ضروری ہے۔

(14)۔(i)''پی ٹی وی پر حملہ: عمران خان اور عارف علوی کی مبینہ آڈیو ٹیپ نے ہلچل مچا دی۔آوازیں اصلی ہیں مگر جوڑی ہوئی ہیں ڈاکٹر علوی۔'' (ii)عمران نے پی ٹی وی اور پارلیمنٹ کی طرف بڑھنے کی باتیں کی تھیں۔ جاوید ہاشمی گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے۔(iii)۔''ٹیپ نے دھرنے کی حقیقت واضح کردی۔ پرویز رشید۔'' تو کیا واقعی سیاسی پارٹیاں عوامی مفاد کے لیے اتنے دکھ جھیلتی ہیں۔ اگر عوام یوں سوچتے ہیں تو یہ ان کی بے وقوفی ہے آخر ان کے مفاد کو اپنے مفاد پر کون ترجیح دے گا؟

(15)۔''آڈیو ٹیپ کراچی سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہوسکتی ہے احمد قریشی۔'' تو کیا دھرنے ضرب عضب سے توجہ ہٹانے کے لیے نہیں تھے۔

(16)۔''پولیس والوں کا ضمیر کیوں مردہ ہوگیا۔ جسٹس شاہد صدیقی۔'' جسٹس موصوف نے کہا کہ'' پولیس والوں کا ضمیر کیوں مردہ ہوگیا کہ وہ حکمرانوں کا آلہ کار بن کر انتہائی گھٹیا اور غیر قانونی کام کرنے پر تیار ہوجاتے ہیں۔'' پولیس والے ہوتے ہی حکمرانوں کی خدمت کے لیے ہیں ۔یہ دو تین دن کے اخبارات سے لی گئی خبریں ہیں جوکہ پوری اب بھی نہیں ہوئیں کم ازکم دس بے حد اہم خبریں باقی ہیں۔ چلیے چھوڑیے۔ اب سوچنا یہ ہے کہ جس ملک میں پولیس قانون نافذ کرنیوالے دیگر اداروں اور معاشرے کے کلیدی ادارے کس قدر بدعنوانی کے مرتکب ہوں تو ہم مستقبل کے بارے میں کیا فیصلہ کریں؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں