ہاکی سے موسیقی اور شاعری تک
کراچی کے ہر علاقے میں ہر ہفتے موسیقی کی محفلیں اور فنکشن بڑے سکون کے ماحول میں تسلسل کے ساتھ منعقد ہوا کرتے تھے
KARACHI:
گزشتہ دنوں قوم ہاکی ٹیم کے نامورکھلاڑی سینٹر فارورڈ اور قومی ہاکی ٹیم کے سابقہ منیجر عبدالوحید خان کو یوم پاکستان کے موقعے پر اولمپک گیم 1960 اور جکارتہ گیم 1962 کے سلسلے میں شاندار خدمات پر تمغہ امتیاز سے نوازا گیا اور یہ قدر افزائی ایک ایسے کھلاڑی کے لیے تھی۔
جس نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ پاکستان کے قومی کھیل ہاکی کے لیے وقف کردیا تھا، عبدالوحید خان کے چھوٹے بھائی سعید کاشانی بھی قومی ہاکی ٹیم کے لیے شاندار کھیل پیش کرتے رہے اور برسوں تک قومی ہاکی ٹیم کا حصہ بنے رہے تھے۔ سعید کاشانی اور میں اسلامیہ کالج میں ایک ہی کلاس میں پڑھتے تھے اور میرا اکثر و بیشتر وحید بھائی کے گھر جانا رہتا تھا۔ ان کے گھر میں ہر چھوٹی بڑی خوشی کے موقعے پر بڑی اچھی اچھی تقریبات ہواکرتی تھیں، بڑے شاندار فنکشن اور موسیقی کی محفلیں بڑے منفرد انداز میں سجائی جاتی تھیں۔
عبدالوحید خان اور کاشانی ویسے تو کھیل کے میدان کے ماہر تھے مگر فن و ادب کا بھی بڑا شغف تھا ان کے گھر کی محفلوں میں جس طرح بڑے بڑے فنکار آئے تھے شاید ہی کسی اور گھر کو ایسی محفلیں نصیب ہوتی ہوں، ان کے گھر کی محفلوں میں لیجنڈ گائیک مہدی حسن، استاد امراؤ بندوخاں،استاد امیر احمد خان کی اکثر شمولیت رہتی تھی،احمد رشدی سے لے کر تحسین جاوید لہری سے لے کر معین اختر ان کے گھر کی محفلوں کی شان بڑھاتے تھے اور یہ دونوں کھلاڑی بھائی نامور فنکاروں کی پذیرائی میں ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے اس گھرانے میں فنکاروں کو جو محبت ملتی تھی وہ ایک مثال تھی۔
دن مسکراتے اور راتیں جگمگاتی تھیں، وحید بھائی اور کاشانی کے گھر کی تقریبات اور محفلوں میں فنکاروں کے ساتھ ساتھ ہاکی،کرکٹ اور اسکوائش کے کھلاڑی شیرو شکر نظر آتے تھے اور یہ سب ان دو بھائیوں کی محبت کا کمال تھا، مشہور فنکاروں سے تو میری ملاقاتیں ہوئی مگر مشہور کھلاڑیوں سے میں پہلی بار ان کے گھر میں ملا تھا۔
یہ ان دنوں کی حسین یادیں ہیں جب کراچی زندگی کے ہر شعبے میں اپنی ایک قدر رکھتا تھا، کراچی کا اسٹیج زندہ تھا، کراچی کا ہر چھوٹا بڑا فنکار کسی بھی قسم کی معاشی پریشانی میں مبتلا نہیں تھا۔ تھیوسو فیکل ہال، آدم جی آڈیٹوریم، علی بھائی ہال اورکراچی کے دیگر ہالوں میں اسٹیج ڈرامے بڑی شان و شوکت سے ہوا کرتے تھے۔ معین اختر، عمر شریف، شہزاد رضا، فرید خان، زیبا شہناز، اسماعیل تارا اور لیاقت سولجر اسٹیج ڈراموں کی جان اور شان ہوا کرتے تھے۔
ڈرامہ آرگنائزر فرقان حیدر کو سرکھجانے کی فرصت نہیں ملتی تھی، شہناز صدیقی ہر وقت ڈرامے پروڈیوس کرنے میں کوشاں رہتا تھا،لسبیلہ چوک کے قریب چارپائی ہوٹل ساری ساری رات کھلے ہوتے تھے اور آدھی آدھی رات کو اپنے اپنے ڈراموں سے فارغ ہوکر اکثر ڈراما آرٹسٹ لسبیلہ چوک آکر کھانا کھایا کرتے تھے اور پھر صبح طلوع ہونے تک دودھ پتی کی چائے کا لطف لیتے رہتے تھے یہ وہ دن اور راتیں تھیں کہ نہ کسی قسم کی دہشت گردی کا کوئی تصور تھا اور نہ ہی کہیں گولیوں کی سنسناہٹ کا خوف لوگوں کے دلوں میں ہوتا تھا۔
کراچی کے ہر علاقے میں ہر ہفتے موسیقی کی محفلیں اور فنکشن بڑے سکون کے ماحول میں تسلسل کے ساتھ منعقد ہوا کرتے تھے اور پھر عبدالوحید خان اور کاشانی کے گھروں کی محفلیں تو بے مثال ہواکرتی تھیں اورکاشانی کے گھر میں جب بھی کوئی خاص تقریب یا محفل سجائی جاتی تھی تو ایک خاص خوبی کاشانی کے گھر کا کھانا بھی ہوتا تھا جو کاشانی کی بیگم خود اپنے ہاتھوں سے بناتی تھیں اورکاشانی کے دوست فنکاروں کے ساتھ بڑی خندہ پیشانی سے پیش آتی تھیں اور ہم ہر تقریب کے بعد یہی دعا کرتے تھے کہ اﷲ کاشانی کے ہر غیر شادی شدہ دوست کو کاشانی جیسی بیگم عطا کرے اور معین اختر خاص طور پر اونچی آواز میں آمین کہا کرتے تھے۔ یہاں میں معین اختر کی ایک خاص عادت کا بھی تذکرہ کرتا چلوں کہ معین اختر کو خوبصورت ٹائیاں بہت پسند تھیں اور اس وقت ہم تمام دوستوں میں سب سے زیادہ ٹائیاں صرف معین اختر کے پاس تھیں۔
معین اختر کسی بھی گھریلو محفل میں جس دوست کی ٹائی کی تعریف کرتا تھا محفل ختم ہونے کے بعد وہ دوست اپنی ٹائی اخبار میں لپیٹ کر معین اختر کو دے دیا کرتا تھا تو معین اختر مسکراتے ہوئے کہتا تھا یار میری تعریف کرنے کا یہ مقصد تو نہیں تھا کہ تم اپنی ٹائی مجھے دے دو تو ٹائی دینے والا دوست کہتا تھا کہ یہ جملہ تم گزشتہ دس سال سے کہہ رہے ہو، چلو اب چپ چاپ رکھ لو اور پھر محفل میں ہر طرف قہقہے بکھر جاتے تھے۔
ایک اور بات بتاتا چلوں کہ کاشانی کے گھر میں منی بیگم کی محفلیں کچھ زیادہ ہی ہوا کرتی تھیں اور منی بیگم کو سننے کے لیے وحید بھائی کے جتنے بھی عمر رسیدہ دوست ہوتے تھے وہ بڑی پابندی سے شرکت کیا کرتے تھے اور کاشانی منی بیگم کو چھیڑتے ہوئے اکثر یہ کہتا تھا منی بیگم تم سینئر سٹیزن کی سنگر ہو اب تم اپنا نام بدل کر بڑی بیگم رکھ لو، منی بیگم بھی کسی موقع پر چوکتی نہیں تھی وہ اپنی گائیکی کے دوران بھی اور ویسے بھی ایسے برجستہ جملے کہتی تھی کہ سامنے والے کی بولتی بند کردیا کرتی تھی اور غزل کی گائیکی کے ساتھ ساتھ جگت بازی میں بھی اس سے کوئی مشکل ہی سے جیت پاتا تھا، کاشانی کے گھر میں اتنی تعداد میں موسیقی کی محفلیں ہوتی تھیں کہ کاشانی کو خود بھی طبلہ بجانے اور گانے کا شوق پیدا ہوگیا تھا۔
ایک دن کاشانی نے مجھے فون کیا یونس ہمدم! اس ہفتے میرے گھر ایک سرپرائز پارٹی ہے میرا نیا گھر تمہیں معلوم نہیں ہے میں نے استاد امیر احمد خان کو کہہ دیا ہے کہ وہ تمہیں اپنے ساتھ لے کر آئے گا۔ پھر جب میں ہفتے کو کاشانی کے گھر پہنچا تو نئے گھر کی خوشی میں وہ تقریب تھی اور کچھ سرپرائز بھی تھا، گھر کا بڑا سا ڈرائنگ روم بڑے قرینے سے سجایاگیا تھا وسط میں قالین پر سفید چاندی بچھی ہوئی تھی اور چھوٹے چھوٹے گاؤ تکیے بھی ادھر ادھر رکھے ہوئے تھے۔
ایک سائیڈ میں بڑا سا تان پورہ بھی رکھا ہوا تھا، درمیان میں خوبصورت ہارمونیم اور طبلوں کی جوڑی بھی رکھی ہوئی تھی۔ دوسرے کمرے میں کھانے کا اہتمام تھا، کھانے کے بعد تمام خاص دوست احباب پھر سے ڈرائنگ روم آگئے تو کاشانی نے سرپرائز کو توڑتے ہوئے کہا۔ دوستو! آج میں موسیقی اور گائیکی کا پہلا سبق استاد بشیر خاں سے لے رہا ہوں اور ان کی باقاعدہ شاگردی میں خود کو دے رہا ہوں، ہاکی تو بہت کھیل لی اب موسیقی اور گائیکی کے میدان میں بھی کچھ نہ کچھ کرنا چاہتاہوں پھر کاشانی نے استاد بشیر خاں کو بحیثیت شاگرد کچھ رقم نذرانے کی پیش کی اور پھر تالیوں کی گونج میں کاشانی نے باقاعدہ پہلی بار خود کو ایک غزل سنگر کی حیثیت سے پیش کیا اور غزل کا آغاز کیا۔ غزل کا مطلع تھا:
رفتہ رفتہ وہ مری ہستی کا ساماں ہوگئے
پہلے جاں پھر جان جاں پھر جانِ جاناں ہوگئے
استاد بشیر خاں کاشانی کے ساتھ ہارمونیم بجاتے رہے اور کاشانی بڑی مہارت اور خوبصورت سے وہ غزل گاتارہا غزل جب ختم ہوئی تو سب نے کاشانی کو دل سے داد دی اور خوب سراہا پھر کاشانی نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: یونس ہمدم! تم بھی یہ سن لو میں نے گائیکی کے ساتھ ساتھ اب شاعری بھی شروع کردی ہے اور آیندہ کسی محفل میں اپنی ہی لکھی ہوئی غزل دوستوں کے سامنے پیش کروں گا۔
یہ سن کر سب نے تالیاں بجاکر ایک بار پھر کاشانی کے حوصلے کی داددی، کاشانی نے اس محفل میں دو غزلیں اور سنائیں پھر استاد بشیر خان اور استاد امیر احمد خان نے راگ راگنیوں کے ساتھ چند کلاسیکل چیزیں سنائیں اور محفل میں ان دونوں کی جگل بندی نے ایک سماں باندھ دیاتھا۔ مجھے آج بھی جب کراچی کی یاد آتی ہے تو کراچی کی وہ سب حسین موسیقی کی محفلیں آنکھوں میں جگنوؤں کی طرح چمکنے لگتی ہیں۔