پولیس کی درخواست قابل ستائش ہے

اہم تجارتی مراکز اور شاہراہیں بند ہونے کی وجہ سے معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے۔


محمد نعیم April 04, 2015
اب یہ ضرورت بن چکی ہے کہ تمام مذہبی و سیاسی پروگرامات کے لیے جگہیں مختص کر دی جائیں۔ فوٹو آن لائن

پاکستان میں پولیس کو مظلوموں کا نہیں ظالموں کا ساتھی سمجھا جاتا ہے۔ یہ میری رائے نہیں بلکہ آواز خلق ہے۔ اگر پولیس والے یہ سمجھتے ہیں کہ عوام ان کو مددگار اور محافظ کی نظر سے دیکھتی ہے تو یہ ان کی غلط فہمی ہے۔ لیکن شاید پاکستان میں تھانہ کلچر بدلنے والا ہے۔

اپریل کے آغاز میں میری نظر ایک ایسی خبر پر پڑی جس نے مجھے حیران کردیا۔ یقیناً اگر یہ کام ہوجائے تو پاکستان بالخصوص کراچی کے کروڑوں لوگ پولیس کو دعائیں دیں گے۔ یہ کمپوزنگ کی غلطی نہیں، نا ہی اس وقت میں مذاق کرنے کے موڈ میں ہوں۔ جی ہاں واقعی لوگ بدعائیں نہیں بلکہ اب پولیس کو دعائیں ہی دیں گے۔

اگرآپ شہر کے کسی بڑے تجارتی مرکز میں اپنا کوئی کاروبار کرتے ہوں۔ وہاں پورا سال نہ کوئی ہڑتال ہو، اور نہ جلسہ نہ جلوس آپ کا کاروبار بند ہونے کا سبب بنے۔ تو آپ کے کاروبار کو خسارے کے بجائے نفع بخش بنانے میں معاونت کرنے والے کے لئے آپ کے دل سے دعا نکلے گی یا نہیں؟

چلیں آپ کا کاروبار نہیں ہے۔ آپ کوروزانہ شہرقائد کی اہم شاہراہوں سے گزرنا پڑتا ہو۔ آپ کو کوئی راستہ یا سڑک بلاک نہ ملے، نہ کہیں آپ کی گاڑی پر پتھراؤ ہو ۔ نہ آپ کو جلاؤ گھیراؤ میں کوئی نقصان پہنچے۔ نہ کوئی دھرنا آپ کا منہ چڑا رہا تو ایسے پرسکون سفر کے مواقع مہیا کرنے والے کو بھی آپ اچھے لفظوں میں ہی یاد کریں گے نا۔

یا آپ ایک خاتون خانہ ہیں اور آپ کو اپنے بچوں، خاوند، والدین یا بہن بھائیوں کے باخیریت گھر لوٹنے کی فکر رہتی ہے۔ یا آپ کسی تعلیمی ادارے میں پڑھتے ہیں اور آئے روز غیر اعلانیہ چھٹیوں اور ہنگاموں کے باعث تعلیم کا حرج ہونے پرآپ پریشان ہوں، اور کسی شخص کے بروقت اقدام سے آپ کا تعلیمی کیرئیر داؤ پر لگنے سے بچ جائیں تو اسے آپ ہمیں اچھے لفظوں میں یاد کریں گے نا۔





آپ کی یہ بھی خواہش ہوگی کہ اگر آپ نے ہنگامی بنیادوں پر کسی کو اسپتال پہنچانا ہے یا کسی کی جان بچانے کے لیے جلد اسپتال پہنچنا ہے تو آپ کی گاڑی تیز رفتاری کے ساتھ چلتی رہے۔ نہ مریض کو راستے میں ایڑیاں رگڑنی پڑیں نہ اسپتال میں۔ تو ایسے سہولت کار کا احسان بھی آپ زندگی بھر فراموش نہیں کریں گے۔

اوپر میں نے بات کی تھی کہ لوگ پولیس کو دعائیں دیں گے پھر زندگی کے چند شعبہ جات کا ذکر کیا کہ جس سے منسلک افراد مستقل قریب میں پولیس کے قصیدے پڑھیں گے۔ صرف یہی نہیں بلکہ پورا شہر، پورا ملک خوشی کا اظہار کرے گا۔

خبر یہ ہے کہ محکمہ پولیس نے حکومت کو ایک مراسلہ لکھا ہے۔ جس میں درخواست کی ہے کہ سیاسی، مذہبی و سماجی جماعتوں پر عوامی اجتماعات اور ریلیاں سڑکوں، چوکوں یا چوراہوں پر کرنے کی اجازت دینے کے بجائے ان کے لئے باقاعدہ خصوصی مقامات مختص کئے جائیں۔ مراسلے میں کہا گیا ہے کہ مذہبی و سیاسی جماعتوں کے ریلیوں، جلسے جلوسوں کی وجہ سے عوام کی جان و مال خطرات کی زد میں آجاتے ہیں۔

کراچی میں اکثر جلسے جلوسوں سے متعلقہ اداروں کو لاعلم رکھنے کے باعث سیکورٹی رسک بڑھ جاتا ہے۔ اہم تجارتی مراکز اور شاہراہیں بند ہونے کی وجہ سے معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے۔ اب یہ ضرورت بن چکی ہے کہ تمام مذہبی و سیاسی پروگرامات کے لیے جگہیں مختص کر دی جائیں۔



https://twitter.com/AadamBezaar/status/507439854033305600

مراسلے میں متعلقہ حکام سے چند مجوزہ جگہوں کو مختص کرنے کی بھی سفارش کی گئی ہے، جن میں ڈسٹرکٹ ایسٹ کے لئے جناح گراؤنڈ، ملیر کے لئے اسٹار گراؤنڈ، ڈسٹرکٹ سینٹرل کے لئے انو بھائی پارک، ڈسٹرکٹ ساؤتھ کے لئے کے ایم سی گراؤنڈ، ڈسٹرکٹ ویسٹ کے لئے شیرپاؤ کالونی مختص کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ جلسے، جلوسوں اور ریلیوں سمیت تمام احتجاجی مذہبی و سیاسی اجتماعات کے حوالے سے ماضی میں بھی اس طرح کی سفارشات سامنے آ چکی ہیں۔

عوام کی بھی یہی خواہش ہے اور پولیس سمیت قانون نافذ کرنے والے تمام ادارے بھی یہی چاہیں گے کہ وہ اپنی صلاحیتیں اور سرکاری وسائل ان اجتماعات کی سیکورٹی پر خرچ کرنے کے بجائے عملی طور پر جرائم کے سدباب اور لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے کوئی عملی اقدامات کر سکیں۔





اگر حکومت سندھ اس حوالے سے سنجیدگی کا مظاہرہ کرے اور ان اجتماعات کی صورت میں سارا سال جاری رہنے والے عذاب سے عوام کو چھٹکارا دلادیں تو یقیناً کروڑوں لوگ ایڈیشنل آئی جی غلام قادر تھیبو جو اس بابت سنجیدگی سے عملی کوشش کر رہے ہیں۔ ان سمیت عوام پورے محکمے کو جھولیاں پھیلا پھیلا کر دعائیں دے گی۔ حکومت اگر اس حوالے سے عوامی رائے لینے کی بھی کوشش کرے گی تو بھی 100 فیصد رائے دہندگان اسی خواہش کا اظہار کریں گے کہ تمام مذہبی و سیاسی اجتماعات عوامی مقامات سے ہٹ کر ہونے چاہیں۔

[poll id="334"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں