قائد اعظم کی جدوجہد آزادی

لٹیروں نے پاکستان کو لوٹنے میں توڑنے اوراس کی بنیادوں کو کمزور کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی


Naseem Anjum April 05, 2015
[email protected]

1930کے اواخر کی بات ہے جب مولانا محمد علی جوہر کو لندن کی گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے جانا تھا لیکن شدید علالت کے باعث وہ اپنے پیروں پر چلنے سے قاصر تھے لہٰذا انھیں اسٹریچر پر لٹا کر جہاز میں سوار کیا گیا، ان کے چاہنے والے سچے مسلمان انھیں اس حالت میں دیکھ کر آبدیدہ ہو گئے۔

بعض عقیدت مندوں نے مولانا سے سوال کیا کہ آپ کے بعد مسلمانوں کی قیادت کون کرے گا، آپ نے برملا کہا کہ صرف اور صرف مسٹر جناح۔ علامہ اقبال نے بھی نیروبی کی مسلمان ایسوسی ایشن کو لکھا تھا کہ ''میں یہ بات آپ سب کے علم میں لانا چاہتا ہوں کہ میں اپنا کام ختم کرچکا ہوں لہٰذا اس وقت ایک شخص ایسا ہے جس کی مسلمانان عالم کو بالعموم اور مسلمانان ہند کو بالخصوص اشد ضرورت ہے اور وہ ہیں مسٹر محمد علی جناح۔ میری دلی خواہش ہے کہ وہ آگے آئیں اور آپ سب ان کی درازی عمر کی دعا کریں۔''

خدائے بزرگ و برتر نے ان دونوں مسلم رہنماؤں کی خواہشات کو پورا کیا اور محمد علی جناح انگلستان سے قوم کے اصرار پر واپس آئے انھوں نے مسلم لیگ کے مردہ تن میں نئی روح پھونک دی۔

قائد اعظم محمد علی جناح کو بھی ایسا ہی ماحول ملا، جہاں کذب و صدق میں تفریق کی تعلیم دی گئی، جس سال برطانیہ کی ملکہ وکٹوریہ نے قیصر ہند کا لقب اختیار کیا اسی سال حضرت قائد اعظم 25 دسمبر 1876کو کراچی میں پیدا ہوئے ان دنوں قائد اعظم کے والد محترم جناح پونجا کی تجارت کو چار چاند لگ چکے تھے، کاروباری ترقی اپنے عروج پر تھی لہٰذا جب قائد اعظم نے ہوش سنبھالا تو انھیں ہر قسم کی آسائش میسر تھی، 6 سال کی عمر میں مدرسے میں داخل ہوئے۔

حکمت خداوندی کہ والدین نے انھیں کاروبار میں شامل کرنے کی بجائے لندن بھیج دیا اس طرح اپنی محنت، جدوجہد اورکاوش کی بدولت 1892میں بیرسٹری کے امتحان میں کامیابی حاصل کرلی، یہ وہی زمانہ تھا جب آپ سیاست کی طرف راغب ہوئے اور محمد علی جناح کی ملاقات مشہور پارسی لیڈر دادا بھائی نورو جی سے ہوئی، ان کے خیالات وے وہ بہت متاثر ہوئے لیکن 1894میں انھوں نے کراچی آنے کا قصد کیا اور جب کراچی پہنچے تو پتہ چلا کہ والد صاحب کا کاروبار تقریباً ختم ہوچکا ہے۔

لیکن قائد اعظم جیسی بلند ہمت، مرد آہن، صبر و استقلال کے پیکر نے ہمت نہیں ہاری اور نہ مایوسی کو اپنے پاس پھٹکنے دیا، اسی پریشانی میں بمبئی پہنچ گئے لیکن یہاں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تین سال تک اپنے چھوٹے سے دفتر میں بیٹھتے رہے ایک مقدمہ بھی نہ ملا، لیکن اللہ کی مدد ان کے ساتھ تھی، محمد علی جناح کے والد کے دوست نے بمبئی کے ایڈووکیٹ جنرل مسٹر میکفرسن سے ملوادیا۔

اس نے قائد اعظم سے اس طرح تعاون کیا کہ اپنی ذاتی لائبریری سے استفادے کی اجازت دے دی اور اس کی ہی سفارش پر پریزیڈنسی مجسٹریٹ کی عارضی نوکری مل گئی اس طرح ان کی علمیت، قابلیت اور صلاحیتیں سامنے آئیں اور مالی حالات بھی بہتر ہوگئے، جناح کی قانونی قابلیت کے قانون دان اور دوسرے حضرات معترف تھے ایک مرتبہ ایک انگریز جج نے آپ کے پراعتماد انداز گفتگو کو دیکھ کر ٹوکا کہ مسٹر جناح آپ یہ بات ضرور یاد رکھیں کہ آپ کسی تھرڈ کلاس کے مجسٹریٹ سے ہمکلام نہیں ہیں۔ آپ نے بھی بغیر مرعوب ہوئے جواب دیا کہ آپ بھی یہ یاد رکھیں کہ آپ کسی تھرڈ کلاس وکیل سے مخاطب نہیں ہیں۔

1904 میں کانگریس کے اجلاس کلکتہ میں تقریر کی اسی سال مسلمانوں نے اپنی سیاسی بیداری کا ثبوت اس طرح دیا کہ مسلم لیگ کی بنیاد رکھی گئی۔1910میں محمد علی جناح کو برطانوی ہند کی امپیریل کونسل کا رکن منتخب کیا گیا۔ قائد اعظم کانگریس کے سرگرم رکن تھے لیکن مسلم لیگ کے لیے نرم گوشہ رکھتے تھے۔

اسی وجہ سے مولانا محمد علی جوہر اور سید وزیر حسن کا کہا مان لیا اور مسلم لیگ میں شامل ہوگئے۔ 1914میں قائد اعظم نے ہندو مسلم اتحاد کی وجہ سے کانگریس اور مسلم لیگ کو قریب لانے کی کوشش کی اور جس کا نتیجہ میثاق لکھنو کی صورت میں ظاہر ہوا۔ جیساکہ کفار کے بارے میں یہ حقیقت قرآن کے حوالے سے سو فیصد درست ہے کہ وہ مسلمانوں کے دوست نہیں ہوسکتے ہیں چنانچہ ادھر بھی ایسا ہی حال ہوا، جب پہلی جنگ عظیم اپنے اختتام کو پہنچی تو برطانوی حکومت اپنے وعدوں سے منحرف ہوگئی اور رولٹ ایکٹ جیسے قانون کے ذریعے تحریروتقریر اور سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگانے کی کوشش کی اس قانون کے خلاف برصغیر میں مخالفت شروع ہوگئی۔

مارشل لا نافذ کردیا گیا آپ نے 1920 میں کانگریس سے علیحدگی اختیار کرلی دوسری طرف ہندوؤں کی طرف سے شدھی سنگھٹن اور ہندی زبان کی تحریکیں چلائی جانے لگیں اس طرح بڑے شہروں میں فرقہ وارانہ ہنگامے پھوٹ پڑے، ان حالات میں قائد اعظم برصغیر کی سیاست سے اس قدر بیزار ہوگئے تھے کہ آپ نے مستقل طور پر انگلستان میں سکونت اختیار کرلی۔علامہ اقبال اور لیاقت علی خان کی کوششوں نے قائد اعظم محمد علی جناح کو واپس آنے پر مجبور کردیا۔ اس طرح 1934میں مسلم لیگ ایک بار پھر فعال ہوگئی، دو سال کے اندر ہی آپ نے یقین پیہم اور عمل محکم پر عمل کرکے یہ بات ثابت کردی کہ مسلم لیگ ایک طاقتور جماعت بن چکی ہے۔

اسی زمانے میں قوم نے محمد علی جناح کو قائد اعظم کا خطاب دیا اس سے پہلے قائد اعظم کو برطانیہ نے ''سر'' کا خطاب دے کر اپنے من پسند کام کروانے کے لیے راہ ہموار کی تھی لیکن محمد علی جناح نہایت دور اندیش، مدبر اور راست باز انسان تھے، انھوں نے حالات کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے انکار کردیا اور برجستہ فرمایا کہ میں ''سر'' کی جگہ ''جناح'' کہلانا پسند کروں گا، لیکن ملت کے دیے ہوئے خطاب پر آپ نے کسی قسم کا اعتراض نہیں کیا۔20 فروری 1940کو مسلم کی کونسل کا اجلاس دہلی میں ہوا اس میں آپ نے اپنی تقریر میں کہا کہ برطانیہ ہندوستان پر اور مسٹر گاندھی اور کانگریس مسلمانوں اور ہندوستان دونوں پر حکومت کرنے کے خواہش مند ہیں لیکن ہمارا مطمع نظر اس کے برعکس ہے ہم دونوں کے اثر سے آزاد ہونا چاہتے ہیں۔

23 مارچ1940 قرارداد پاکستان کا دن تھا۔ جب لاہور میں مسلم لیگ کے اجلاس کے دوران یہ بات کھل کر سامنے آگئی تو حکومت کو یقین ہوگیا کہ مسلمانوں کا نصب العین پاکستان ہے۔ 25 دسمبر 1940 قائد اعظم محمد علی جناح کی سالگرہ کا دن تھا 24 ویں سالگرہ کے موقع پر ہندو، مسلم اور انگریز دانشوروں نے مبارکبادی کے پیغامات ارسال کیے راؤ بہادر ایم سی راجہ نے اس بات کا اعتراف کیا کہ میری رائے میں مسٹر جناح ایک ایسی ہستی ہیں جنھیں اس غرض کے لیے بھیجا گیا ہے کہ وہ ان گمراہیوں کی اصلاح کریں جن میں کانگریس نے گاندھی کی رہنمائی میں ہندوستانیوں کو مبتلا کردیا ہے۔

ایسے حالات میں ایک ایسے شخص کی ضرورت تھی جو کانگریس کے مقابلے میں کھڑا ہوکر اسے بتاتا کہ ان کی جماعت اکثریت اور مالیت کے لحاظ سے کتنی ہی طاقتور کیوں نہ ہو سارے ہندوستان کی نمائندہ ہرگز نہیں ہوسکتی۔ میں مسٹر جناح کا ممنون ہوں کہ انھوں نے مسلمانوں کے مطالبات کی وکالت کرتے ہوئے ان تمام جماعتوں کے دعاوی کی حمایت کی ہے کہ جنھیں ہندوؤں کی طرف سے خطرات درپیش ہیں۔

قائد اعظم محمد علی جناح کو بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑا، فسادات بھی ہوئے اور بے شمار مسلمانوں کے جان و مال کو تباہ و برباد کردیا گیا صوبہ بہار میں شہید ہونیوالے مسلمانوں کی تعداد 8 ہزار تک پہنچ گئی، ان حالات میں برطانوی حکومت کو بڑی تشویش ہوئی اور ہندوستان تقسیم کی طرف بڑھنے لگا۔ اور حکم خداوندی کے مطابق پاکستان معرض وجود میں آگیا۔

مگر ہندوستان اس حقیقت کو برداشت نہ کرسکا اس نے کشمیر پر حملہ کیا، جونا گڑھ پر قبضہ کیا پاکستان کے حصے کا سامان اور روپیہ ضبط کرلیا لیکن قائد اعظم جیسے رہنما نے ان مشکلات پر قابو پانے کے لیے دن رات ایک کردیے مسلسل کام کرنے کی وجہ سے آپ بیمار رہنے لگے، لٹیروں نے پاکستان کو لوٹنے میں توڑنے اوراس کی بنیادوں کو کمزور کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی لیکن الحمد اللہ ایک بار پھر پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہونے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں