اگر ایسا کریں تو کیا برا ہے

سائنس کی جہتیں اٹھاکر دیکھ لیں۔ طبیعات، حیاتیات، نباتات، کیمیا، ارضیات کیا علم ہے جس پر کام نہیں ہوا،


Shehla Aijaz April 07, 2015
[email protected]

FAISALABAD: یمن کو جس صورتحال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ایسا پہلی بار نہیں ہو رہا، عرب تاریخ گواہ ہے کہ اس خطے سے کبھی سازشیں ابھریں، جنگیں ہوئیں، فسادات ہوئے، نفرتیں پھوٹیں، قبضے ہوئے اور اب تک وقفے وقفے سے یہ سلسلہ برقرار ہے، ایسا ہونا دراصل ایک ایسا عمل ہے جسے انسانی فطرت سے علیحدہ کرنا ممکن نہیں، ایک طویل عرصہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے بعد صحابہ کرامؓ نے جس انداز میں عرب کے وسیع خطے پر حکومت کی بلکہ دور دراز کے علاقوں کو بھی اپنی فتوحات میں شامل کیا اس میں ان کی صداقت، شجاعت، وسیع القلبی اور عاجزی و انکساری جیسے اخلاقی معیار کا کردار اولین حیثیت رکھتا ہے۔

آپ صحابہ کرامؓ کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں کتنے تدبر اور عقلمندی سے انھوں نے شہروں کو آباد کیا، عوام الناس کے لیے سہولیات فراہم کیں، حکومتی ڈھانچوں کو ایک رخ دیا، لیاقت و دانشوری اور علمی درجات کی بدولت عہدوں پر تعیناتی کی اس کی دنیا میں مثال کسی بھی ادوار میں نہیں ملتی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دنیا کو ایک باقاعدہ اعلیٰ و عمدہ ریاست کا نمونہ ملا جس کی تقلید کرکے دیگر اقوام کو اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرنے کا موقع ملا۔

سائنس کی جہتیں اٹھاکر دیکھ لیں۔ طبیعات، حیاتیات، نباتات، کیمیا، ارضیات کیا علم ہے جس پر کام نہیں ہوا، کھانے پینے سے لے کر پہننے، اوڑھنے، پڑھنے لکھنے، زندگی گزارنے کے لیے آسانیوں کو فراہم کرنے، پیغام رسانی، تجارت، صنعت و حرفت تمام شعبہ زندگی میں اس اعلیٰ معیار کی ترقی ہوئی کہ دنیا کا ایک حصہ علم و حرفت کے چراغوں سے روشن تھا تو دنیا کا مغربی حصہ کیچڑ اور اندھیرے میں سرد اور خنک ہواؤں سے سحر زدہ ٹھٹھر رہا تھا۔

مغرب کے اندھیروں سے کچھ علم کی پیاس بجھانے اور ترقی کی غرض سے نکلے اور یوں ایک نئے سفر کا آغاز ہوا، زمانہ قدیم سے ہی ایسے علاقے جو ترقی یافتہ ہو خوشحال ہو، ان پر نظریں گڑی رہتی ہیں لہٰذا عرب ممالک بھی ایسی ہی نظروں میں ایک طویل عرصے سے تھے لیکن ان کی اپنی خامیوں نے باہر سے ہونے والی سازشوں کو پنپنے کا موقع دیا ۔1508 کے بعد پرتگال نے اپنے ایک کپتان جو برق کے ذریعے یمن اور حضرموت کے ساحلوں پر بحری قلعے بنالیے اور مسقط تک قابض ہوگئے۔

عربوں کے لیے بحری تجارت کے راستے محدود ہوتے گئے صرف یہی نہیں اندرونی طور پر ایسے حالات پیدا ہوتے گئے کہ انھوں نے اپنی قومی مصلحتوں اور جماعتی انتظامات کی وجہ سے اپنے اپنے قبائل کے الگ الگ شیخ مقرر کر لیے یوں بکھرنے کا سلسلہ چل پڑا، اس کی کہانی تو بہت طویل ہے لیکن تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو خامیاں انسانی کرداروں میں نظر آتی ہیں، جس کا فائدہ دوسروں نے اٹھایا، ان تمام مراحل میں لالچ، حرص اور خودغرضی کے عوامل ابھر کر سامنے آتے ہیں، ایک ہری بھری کھیتی کس طرح ترستی آنکھوں کو خیرہ کرتی ہے اور اس کے لیے محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہے کہ مقولے پر کس طرح عمل کیا جاتا ہے وہ ہوچکا ہے اور ہو رہا ہے۔

ملت اسلامیہ کے لیے خانہ کعبہ کی اہمیت کس قدر ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے اس اہمیت کے کتنے دشمن ہیں جو اس کی آڑ میں سازشیں سرگرم رکھے ہوئے ہیں لیکن ان سازشوں کے پس پردہ کیا عوامل ہیں ان سے ذرا ہٹ کر کیا اگر ہم قرآن پاک میں سورۃ الفیل کو ذرا غور سے پڑھیں اور اس کے ترجمے پر توجہ دیں تو واضح ہوجاتا ہے کہ اللہ نے ہاتھی والے لشکر کا کیا انجام کیا اس پر انھوں نے جھنڈ کے جھنڈ پرندوں کے بھیجے جو ان ہاتھیوں پر کنکریاں برساتے تھے اور وہ بھوسے کی طرح ڈھے جاتے تھے، ذرا تصور کریں کہ چھوٹے چھوٹے پرندے اپنی ننھی ننھی چونچوں میں بڑے بڑے طاقتور آہنی بم تو لے کر نہیں آتے تھے یہ تو اللہ کی قدرت ہے وہ جیسے چاہیں کریں۔

وہ اپنے گھر کی حفاظت کرنا خوب جانتے ہیں، یمن کے عیسائی گورنر ابراہہ الاشرم نے صنعا میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیدائش والے سال میں ایک بڑا شاندار گرجا گھر بنوایا تھا اور چاہتا تھا کہ لوگ خدا کے گھر خانہ کعبہ کی بجائے گرجا میں عبادت کے لیے آئیں اس نے لمبے چوڑے ہاتھیوں کی فوج بنائی اور خانہ کعبہ کی دیوار ڈھانے پہنچا۔ اس نے حضرت عبدالمطلب اور اہل مکہ کے اونٹ پکڑ لیے۔ حضرت عبدالمطلب ابراہہ کے پاس پہنچے۔ انھوں نے ابراہہ سے اپنے دو سو اونٹوں کی واپسی کا مطالبہ کیا ابراہہ کے لیے یہ بات حیران کن تھی وہ سمجھا تھا کہ وہ خانہ کعبہ کو نہ گرانے کی بات کریں گے۔

عبدالمطلب کا جواب بہت خوبصورت اور واضح تھا، انھوں نے فرمایا کہ ''اونٹ میرے ہیں اس لیے میں نے تم سے اپنے اونٹوں کی بات کی ہے۔ خانہ کعبہ اللہ کا گھر ہے اور وہ خود ہی اپنے گھر کی حفاظت کرے گا۔ ابراہہ نے ان کے اونٹ واپس کردیے۔ عبدالمطلب نے اہل مکہ کو پہاڑوں پر جانے اور مکہ کو خالی کرنے کا حکم دیا اور خود خانہ کعبہ کا کنڈا پکڑ کر دعا کی کہ اے اللہ! اپنے گھر کی حفاظت فرما اور ابراہہ اور اس کے لشکر سے اپنے عزت والے گھر کو بچالے۔

اور اللہ رب العزت نے اپنے گھر کی حفاظت خود کی۔ ہاتھی والے ان کا رخ مکہ کی جانب موڑتے تو وہ بیٹھ جاتے جب وہ وادی محسر میں پہنچے تو مکے کی بجائے کسی اور جانب رخ موڑا جاتا تو وہ تیزی سے دوڑنے لگتے یہاں تک کہ سمندروں سے پرندوں کا جھنڈ برآمد ہوا اور ان کی چونچوں میں دبی کنکریوں نے ایک ایسے کیمیائی ہتھیار کا کام دکھایا جس کی ایجاد آج تک نہ ہوسکی۔

بچپن سے اپنے اساتذہ سے اس سچی حقیقت کے بارے میں سنتے آئے ہیں جسے سن کر عقل حیران رہ جاتی ہے لیکن تاریخ کے اس اہم باب پر توجہ دینے والے صرف کان کھجا رہے ہیں یہ حقیقت ہے کہ مختلف ادوار میں مختلف عناصر اپنے ذاتی عناد کو مذہب کے پیرائے میں گھول کر نفرتوں کے انبار جمع کرتے رہے ہیں کون سچ پر ہے کون غاصب ہے اس کا فیصلہ کرنا دشوار نظر آتا ہے لیکن ایک بات واضح ہے کہ ذاتی مفاد، انا پرستی اور ہوس کی جنگ سے لڑنا بھی اتنا ہی مشکل ہے جتنا گولہ بارود کی جنگ سے لڑنا۔

اسلامی دنیا ایک دردناک صورتحال میں داخل ہے۔افغانستان، عراق کی حالت تو پہلے ہی دگرگوں ہوچکی تھی لیکن اب مشرق وسطیٰ بھی اس درد میں شمار ہے۔ غیر اسلامی طاقتیں کبھی تم ہمارے دوست اور کبھی تم ہمارے دشمن کے کھیل کو انجوائے کر رہی ہیں اور اسلامی قوتیں ایک دوسرے پر بگڑ رہی ہیں کہ شاید اب یہ ذاتیات کی جنگ بنتی جا رہی ہے، پچھلے کچھ عرصے تک ذہن پریشان رہا لیکن جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دادا عبدالمطلب کے جواب کو اور سورۃ الفیل کے ترجمے کو غور سے پڑھ کر سمجھا تو دل میں سکون سا آگیا۔

اب وقت آچکا ہے کہ ذاتیات سے نکل کر اخلاص سے عمل پر توجہ دی جائے کہ رب العزت معاف کردینے والے ہیں ذرا بڑی طاقتوں کی بجائے اس بڑی ذات سے مضبوط ناتا جوڑنے کی کوشش کریں کہ اسی میں فلاح ہے ہم سب کی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں