ایران جوہری معاہدے پر اسرائیل سےاختلافات ہیں اوباما

ایران کے متنازع جوہری پروگرام پر ڈیل کا مطلب اسرائیل کے دفاع میں کمی کرنا ہرگز نہیں،اوباما


آن لائن/AFP April 07, 2015
ایران کی طرف سے ایٹمی پروگرام کے فریم ورک معاہدے کی شرائط کی خلاف ورزی کی صورت میں امریکا کے لیے ہرطرح کی کارروائی کے راستے کھلے ہیں، اوباما۔ فوٹو: فائل

امریکی صدر باراک اوباما نے اسرائیل کی موجودہ حکومت کے ساتھ کشیدگی کا اعتراف کیا ہے اور کہا ہے کہ میرے دور حکومت یا میری وجہ سے اسرائیل کا کمزور ہونا خود میری صدارت کی ناکامی کا باعث بنے گا، ایران کے جوہری پروگرام پر معاہدے سے متعلق اسرائیل سے اختلافات کے باوجود دونوں ملکوں کے درمیان تمام شعبوں میں تعاون جاری رہے گا۔

یہ بات انھوں نے نیویارک ٹائمز کو ایک وڈیو انٹرویو کے دوران کہی۔ امریکی صدر کا کہناتھاکہ اگر میرے کسی ایسے کام یا میرے دور صدارت میں اسرائیل کمزور ہوتا ہے تو یہ میری صدارت کی ایک بڑی ناکامی ہوگی اور یہ ناکامی اخلاقی ناکامی بھی ہوگی۔ انھوں نے کہا کہ اسرائیل اور امریکا کے درمیان ایران کے جوہری پروگرام پر معاہدے کے حوالے سے اختلافات ہیں مگر وہ ایسے بھی نہیں کہ ان کی بنیاد پر واشنگٹن اور تل ابیب ایک دوسرے سے رابطے بھی منطقع کردیں۔ اس حوالے سے میری اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو سے بات بھی ہوئی۔ میں نے انھیں یقین دہانی کرائی تھی کہ ایران کے متنازع جوہری پروگرام پر ڈیل کا مطلب اسرائیل کے دفاع میں کمی کرنا ہرگز نہیں۔ ہم اسرائیل کا استحکام اور دفاع کرتے رہے ہیں، حملے کی صورت میں امریکا اسرائیل کا ساتھ دے گا۔

امریکی صدر نے ایران کے ساتھ ایٹمی فریم ورک کے معاہدے کا بھرپور دفاع کرتے ہوئے کہا کہ یہ معاہدہ مشرق وسطیٰ کے استحکام میں بڑی اہمیت کا حامل ہے اس سے ایران کوایٹمی ہتھیاروں کی تیاری سے روکنے میں بڑی مدد ملے گی اور مشرقی وسطیٰ میں طویل مدتی استحکام آئے گا۔ انھوں نے کہا کہ امریکا عالمی طاقت ہونے کے ناطے معاہدے پر اچھی طرح عملدرآمد کرواسکتا ہے اور ایران کی طرف سے ایٹمی پروگرام کے فریم ورک معاہدے کی شرائط کی خلاف ورزی کی صورت میں امریکا کے لیے ہرطرح کی کارروائی کے راستے کھلے ہیں اور بالکل واضح ہے کہ ایران اب ایٹمی ہتھیار حاصل نہیں کرے گا۔

دوسری طرف امریکی سینیٹ میں موجود رپبلیکن پارٹی کے نمائندوں نے مطالبہ کیا ہے کہ امریکی کانگریس کو ایران کے ساتھ ہونے والے جوہری معاہدے پر ووٹنگ کرنے کی اجازت دی جائے مگر ان کا کہنا تھا کہ وہ فیصلہ کرنے سے قبل عبوری معاہدے کی تکمیل تک کا انتظار کرلیں گے۔ سینیٹ کی خارجہ تعلقات پر قائم کمیٹی کے چئیرمین باب کورکر کا کہنا تھا کہ صدر اوباما کو یہ معاہدہ امریکی عوام کو بیچنا ہے اور کانگریس کو اس عمل میں شامل ہونا پڑے گا۔ کورکر نے ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان ہونے والے فریم ورک معاہدے کو تنقید کا نشانہ نہیں بنایا مگر انھوں نے ایران کی تنصیبات کے معائنے اور معاہدے کی شقوں سے متعلق واشنگٹن اور تہران کے متضاد بیانات پر اپنے خدشات کا اظہار کیا۔

امریکی ریاست ٹینیسی سے منتخب سینیٹر کا کہنا تھا کہ ان کی کمیٹی 14اپریل کو ایران کے ساتھ ہونے والے کسی حتمی معاہدے کی منظوری سے قبل سینیٹ میں نظر ثانی اور اس کی منظوری کے لیے ووٹنگ کروائے گی۔ فریم ورک معاہدے کے تحت حتمی معاہدہ جون کے اواخر تک مکمل کرلیا جائے گااس بل کو ریپبلکنز اور بہت سے ڈیموکریٹ سینیٹرز کی حمایت بھی حاصل ہے۔ اس بل کے نتیجے میں اوباما کانگریس کی جانب سے معاہدے پر نظرثانی کے 60دن کے عرصے کے دوران ایران سے پابندیاں نہیں اٹھاسکیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں