خان صاحب پہلے صحیح تھے یا اب
پاکستان تحریکِ انصاف کا پارلیمنٹ میں واپسی کا فیصلہ یقینا قابلِ تحسین ہے۔
پاکستان تحریکِ انصاف کا پارلیمنٹ میں واپسی کا فیصلہ یقینا قابلِ تحسین ہے۔ اِسے ہمیں تنقید کی بجائے سراہنا چاہیے۔ آپ خواہ اِسے عمران خان کا ایک اور یو ٹرن کہیں یا اُنہیں صبح کا بھولا کہہ کر پکاریں، بہر حال یہ اُن کا ایک اچھا فیصلہ ہے۔ گزشتہ سال 14 اگست سے اب تک وہ جو کرتے رہے اُسے اُن کی سیاسی عدم پختگی سمجھ کر درگزر کر دینا چاہیے۔
وہ دراصل نادانی میں اُس کھیل کا حصہ بن گئے جس میں اُن کا کردار صرف لوہا گرم کرنے تک ہی رکھا گیا تھا۔ باقی کام کسی اور کے ذ مے تھے اور ثمرات کا وصول کنندہ کسی اور کو ہونا طے پایا تھا۔ اسکرپٹ کے لکھنے والوں نے اُنہیں جو رول تفویض کیا تھا وہ ملک کے حالات کو صرف اُس نہج پر پہنچانے تک ہی مخصوص اور محدود تھا کہ جہاں عوام مجبوراً کسی بھی غیر جمہوری اقدام کو قبول کرنے پر آمادہ ہو جایا کرتے ہیں۔ عمران خان سیاست کو کرکٹ سمجھ کر کھیلتے رہے یہی اُن کی بڑی غلطی تھی۔
سیاست اور کرکٹ کے کھیل میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ وہ ایک گیند سے دو دو وکٹیں گرانے اور سارے معاملے کو ایک روزہ میچ یا ٹی ٹونٹی قرار دیتے رہے۔ کبھی اعلان فرماتے کہ ہفتے کے روز ایمپائر کی اُنگلی اُٹھ جائے گی اور کبھی اپنے لوگوں کو میاں صاحب کے استعفیٰ کی نوید سناتے۔
کبھی بجلی اور گیس کے بل جلا کر سول نافرمانی شروع کرتے اور کبھی شہر شہر بند کرنے کی منصوبہ بندی کرتے۔126 دنوں تک ڈی چوک پر ہر شام ایک محفل سجاتے اور رات گئے واپس بنی گالا لوٹ جاتے۔ عوامی پذیرائی کے سحر اور نشے میں اپنے ساتھ دیگر ارکانِ پارلیمنٹ کے نہ صرف استعفے جمع کروا دیے بلکہ اُنہیں منظور کروانے کے لیے حکومت پر ہر طرح کا دباؤ بھی ڈالتے رہے۔
پہلے وزیرِ اعظم کے استعفیٰ سے کم کسی چیز پر راضی نہ تھے مگر رفتہ رفتہ ہر شہ پر رضامند ہونے لگے۔ جس جوڈیشل کمیشن کے بنائے جانے کے وزیرِ اعظم کے اعلان کو وہ مسترد کر چکے تھے پھر خود ہی اُسی جوڈیشل کمیشن کا مطالبہ شد و مد کے ساتھ کرنے لگے۔ سمجھانے والوں نے اُنہیں بہت سمجھایا کہ جمہوریت کی بیخ کنی میں خود اُن کا اپنا نقصان ہے۔
عوامی حمایت اور پذیرائی کو جو اُنہیں 30 اکتوبر 2011ء کو اچانک حاصل ہو گئی تھی اتنی جلدی کیش کروانا مناسب طرز عمل نہیں ہے۔ ذرا صبر و تحمل سے کام لے کر آہستہ آہستہ خراماں خراماں آگے بڑھتے جائیے۔ اپنی کارکردگی اور طرز عمل سے لوگوں کے دل جیتیے۔
صوبہ خیبر پختون خوا میں جو مینڈیٹ ملا ہے وہاں اپنی منفرد حکمت ِعملی کے ذریعے خود کو وفاق میں حکمرانی کا اہل ثابت کیجیے تا کہ اگلے الیکشن میں لوگ خود اُن کے سر پر اقتدار و اختیار کا ہما لا بٹھائیں۔ یہی جمہوری سیاست کا مروجہ طریقِ کار ہے۔ مگر وہ ایسے کسی مشورے کو لائقِ اعتناء بھی نہیں سمجھتے رہے بلکہ ایسے صحافیوں اور نقادوں کو لفافہ صحافی کہتے رہے۔
سیاست میں کوئی بھی شارٹ کٹ اوّل تو ہوتا نہیں اگر ہو بھی جائے تو مضبوط اور پائیدار نہیں ہوتا۔ یہ کو ئی کرکٹ تو نہیں ہے کہ صرف ایک میچ کی کارکردگی پر سارا نقشہ ہی بدل جائے۔
یہاں کوئی مقام حاصل کرنے کے لیے ہزاروں جتن کرنے پڑتے ہیں۔ ویسے بھی عمران خان خود کو دوسرے سیاستدانوں سے مختلف اور منفرد قرار دیتے ہیں۔ لہذا اُن پر بھار ی ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ روایتی سیاستدانوں کی طرح موقعہ پرستی اور مصلحت کوشی کا شکار نہ ہوں۔ جو بات کریں اُس پر ڈٹے رہیں۔ اُصولوں پر کوئی سمجھوتہ نہ کریں۔ مفادات کی سیاست کا کھیل نہ کھیلیں۔ قبل از وقت بلند بانگ دعوے نہ کریں کہ بعد میں شرمندگی اُٹھانی پڑ جائے۔
خان صاحب گزشتہ آٹھ ماہ کی اپنی سیاست پر اگر ایک نظر دوڑائیں تو اُنہیں معلوم ہو گا کہ اُنہوں نے کیا کچھ کہا اور کیا کچھ کر دکھایا۔ کہاں کہاں غلطیاں کیں اور کہاں کہاں ناکامیاں دیکھیں۔ خود کا ایک تنقیدی جائزہ لیں اور فیصلہ کریں کہ وہ پہلے صحیح تھے یا اب۔ یہ پینتیس پنکچر والی باتیں اور اُردو بازار سے بیلٹ پیپر چھپوانے کے الزامات حقیقت تھے یا محض اُن کے ذہنی اختراع کا نتیجہ۔ بلاوجہ ساری قوم کو کئی ماہ تک کس جرم میں سخت ہیجان اور ابتلا میں مبتلا کیے رکھا۔
جس جوڈیشل کمیشن پر وہ آج رضامند ہو گئے ہیں اگر آٹھ ماہ پہلے ہی ہو جاتے تو اب تک تو اُس کا فیصلہ بھی آ چکا ہوتا۔ مبینہ دھاندلی کے الزامات کی حقیقت اور صداقت کا پتہ لگ گیا ہوتا۔ ملک و قوم اضطراب و بے چینی اور نا اُمیدی کے دور سے بچ گئے ہوتے۔ ترقی و خوشحالی کا پہیہ جھٹکے نہ کھا رہا ہوتا۔ مگر خیر اب تک جو ہو نا تھا وہ ہو چکا۔
اِس ساری کشمکش اور اضطرابی صورتحال میں ایک اچھی بات جو سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ جمہوریت نہ صرف جیت گئی ہے بلکہ مضبوط اور توانا ہو کر اُبھری ہے۔ اُسکے خلاف ہونے والی تمام سازشیں ناکامی و نامرادی سے دوچار ہو چکی ہیں۔ منتخب پارلیمنٹ کو جعلی کہہ کر اُس کی توہین کرنے والے آج پھر اُس کے ایوانوں میں جلوہ افروز ہیں۔
خان صاحب اب ایک فعال اپوزیشن کا کردار نبھانے جا رہے ہیں۔ اُنہیں چاہیے کہ آئین و دستور میں درج اُصولوں کے مطابق ایک مثبت اور حقیقت پسندانہ طرزِ عمل اپناتے ہوئے ملک و قوم کی ترقی میں اپنا ہاتھ بٹائیں۔ محاذ آرائی اور ہنگامہ آرائی کی سیاست کو خیر باد کہتے ہوئے حکومتی اداروں اور اہل کاروں پر تنقیدی نظر رکھتے ہوئے ہر جائز کام کی مکمل حمایت کریں اور ناجائز اور غلط کام کی کُھل کر مخالفت کریں۔
اپنا دباؤ برقرار رکھتے ہوئے وزیروں اور افسروں کو مالی بدعنوانی اور کرپشن جیسے افعال قبیح میں ملوث ہونے کا موقعہ نہ دیں۔ ملک کی داخلی اور خارجی پالیسی میں حکومت کو مفید مشوروں سے نوازیں۔ قانون سازی میں اپنا آئینی کردار ادا کریں اور عوام کی بھلائی اور اُس کی فلاح و بہبود کے اقدامات کے لیے حکمرانوں کو مجبور کریں۔ اگلے الیکشن کو دھاندلی سے بچانے اور پاک رکھنے کے لیے انتخابی اصلاحات کے کاموں پر مامور پارلیمانی کمیٹی کی بھرپور مدد کریں۔
جس اسمبلی میں وہ اب واپس لوٹ آئے ہیں اُس کی توہین و تضحیک کرنے سے اجتناب کریں۔ اشتعال انگیزی اور دشنام طرازی سے دوستوں کو اپنا مخالف نہ بنائیں۔ افہام و تفہیم کی سیاست سے سب کو ساتھ لے کر چلیں۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ سیاست میں کوئی دشمن ہمیشہ دشمن نہیں رہتا اور کوئی دوست تمام عمر دوست نہیں رہتا۔ یہ سب مفادات اور مصلحتوں کے اسیر ہیں۔ کل مخدوم جاوید ہاشمی آپ کا عزیز اور مہربان تھا کیونکہ وہ مسلم لیگ (ن) چھوڑ کر آیا تھا۔
لیکن اب وہ آپ سے الگ ہو چکا ہے اِسی لیے نافرمان سرکش اور باغی قرار پایا۔ اِسی طرح مخدوم شاہ محمود قریشی کل پاکستان پیپلز پارٹی حکومت میں وزیرِ خارجہ کے اہم عہدے پر فائز تھے آج آپ کے ہم نوالہ اور ہم رکاب ہیں اِسی لیے آپ کو دل و جان سے عزیز ہیں۔ ہم یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ کوئی بھی سیاسی پارٹی پاک صاف، با اُصول اور با ضمیر نہیں ہے۔ سبھی کی اپنی اپنی مصلحتیں اور ترجیحات ہیں۔
کسی کو سیاست کے اعلیٰ و ارفع معیارات پر تولا اور پر کھا نہیں جا سکتا۔ سبھی سیاست کے اِس حمام میں یکساں اور یک رنگ ہیں۔ یہ تبدیلی او ر انقلاب کی باتیں محض عوام الناس کو اپنی طرف راغب کرنے کے لیے ہوا کرتی ہیں۔ حقیقت سے اِن کا دو ر کا واسطہ بھی نہیں ہوتا۔ یہ سب اقتدار حاصل کرنے کا کھیل ہے۔ جو اِس میں کامیاب ہو گیا وہ سکندر اور جو ناکام ہو گیا وہ غریب قلندر۔