زباں بگڑی دہن بگڑا

اسی ہنگامہ میں آ گیا دھرنوں کا زمانہ۔ پھر وہاں تو بات اتنی بڑھی کہ اللہ دے اور بندہ لے۔


Intezar Hussain April 10, 2015
[email protected]

KARACHI: ''صاحب' ہم نے تو پہلے ہی کہا تھا''۔ اس بیان پر ہمارے کان کھڑے ہوئے۔ پوچھا' پہلے کب کہا تھا' اور کیا کہا تھا۔ ارے صاحب یہی کہا تھا کہ ع

گھوڑے کو دو نہ دو لگام منہ کو ذرا لگام دو

اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ ہمارے ٹی وی چینلوں پر سیاسی بحثیں شروع ہوئیں تو جلد ہی بحث کا بازار گرم ہوتا چلا گیا اور جلد ہی شرفا کو محسوس ہونے لگا کہ زبان و بیان کا رنگ تہذیب و شائستگی کی حدوں سے گزرتا چلا جا رہا ہے۔

اسی ہنگامہ میں آ گیا دھرنوں کا زمانہ۔ پھر وہاں تو بات اتنی بڑھی کہ اللہ دے اور بندہ لے۔ ان دنوں جذبات کا دریا چڑھا ہوا تھا۔ اور جب جذبات کا دریا اس طرح چڑھے کہ اس میں غصے کی لہر بھی شامل ہو جائے تو پھر مت پوچھئے کہ جذبات کا چڑھا دریا کیا رنگ لاتا ہے۔ زبانیں اس طرح کھلتی ہیں کہ بدزبانی شروع ہو جاتی ہے۔ کتنی مرتبہ ہم نے دیکھا کہ شرفا نے دانتوں میں انگلیاں دابیں اور تشویش سے کہا کہ یہ کیسی زبان میں سیاست بگھاری جا رہی ہے۔ شرافت اور شائستگی کو تو یارو اغیار نے طاق میں رکھ دیا ہے۔

خیر وہ زمانہ تو گزر گیا اور جذبات کا چڑھا دریا بھی اتر گیا۔ مگر پیچھے بہت گند بلا چھوڑ گیا ع

زباں بگڑی تو بگڑی تھی خبر لیجیے دہن بگڑا

ایک طرف سے کچھ ایسا بیان آیا کہ یار احتجاجاً چلائے کہ خواتین کے بارے میں ایسی زبان کا استعمال۔ ادھر سے جلدی ہی سوری سوری کہا گیا۔ مگر ہم آپ جانتے ہی ہیں کہ کمان سے نکلا ہوا تیر اور زبان سے نکلا ہوا گرا ہوا کلمہ واپس نہیں آیا کرتے۔ اور ابھی پچھلے دنوں اسمبلی میں بھی یہ گونج سنائی دی کہ بولنے اور بیان دینے والے اب شریفانہ لہجہ میں بات ہی نہیں کرتے۔

یہ ردعمل نیک فال ہے۔ کم از کم سیاسی حلقوں کو یہ احساس تو ہوا کہ سیاست کی گرما گرمی میں وہ حد سے اس طرح گزرے ہیں کہ شائستگی چہ کتیست کہ بیش مرداں می آید۔ یہ کہ شریفانہ لہجہ کو بالائے طاق رکھ دیا ہے۔
کہنے والے کہتے ہیں کہ بات گالی گلوچ تک بھی پہنچ گئی تھی۔ اس سے ہمیں خیال آیا کہ شاید اب سے پہلے بھی ہمارے معاشرتی معاملات میں کوئی ایسا رنگ آیا تھا کہ ہماری شاعری تک میں اس کی گونج سنائی دینے لگی۔ میرؔ کا ایک شعر سنئے؎

دیں گالیاں انھیں نے وہی بے دماغ ہیں
میں میرؔ کچھ کہا نہیں اپنی زبان سے

اس پر ایک یار نے ٹکڑا لگایا کہ میرؔ نے کچھ زیادہ ہی شائستگی کا مظاہرہ کیا ہے ورنہ یہاں بے دماغ کی جگہ بدزبان کی ترکیب بھی استعمال ہو سکتی تھی۔ خیر اس سے بڑھ کر ایک اور شعر سنئے۔ اس میں ذرا کھل کر بات کی گئی ہے ؎

لگے منہ بھی چڑانے دیتے دیتے گالیاں صاحب
زباں بگڑی سو بگڑی تھی خبر لیجیے دہن بگڑا
لیجیے ایک شعر استاد ذوق کا بھی سن لیجیے؎
نہ جھاڑا غیر کو تونے کہ ہو کر بدزبان لپٹا
مجھی پر گالیوں کا جھاڑ تونے بدزبان باندھا
کسی پرانے شاعر کا ایک شعر اور اس ذیل میں سن لیجیے؎
گالی کو جانتا ہے سارا جہان گندی
مت لا زباں پہ گالی ہو گی زبان گندی

ہاں ایک بات اور۔ ویسے تو زبان نے بہت گل کھلائے ہیں۔ مگر گالی نام کا گل عجب کھلایا ہے۔ اصل میں تو یہ نفرت کے اظہار کا ذریعہ ہے۔ نفرت کے اظہار کا اور غصے کے اظہار کا۔ مگر یہی گالی وقت موقعہ کے حساب سے پیار محبت کا کلمہ بھی بن جاتی ہے۔ اور ہاں ہنسی دل لگی کا کلمہ بھی۔ سو ذرا میر حسن کے اس شعر کو دیکھئے؎

کہیں چٹکیاں اور کہیں تالیاں
کہیں قہقہے اور کہیں گالیاں

پھر کہیں کہیں ایسا بھی ہوتا ہے۔ یا یوں کہہ لیجیے کہ کسی کسی کے یہاں کوئی ایک گالی اس کا تکیہ کلام بن جاتی ہے۔ یعنی موصوف نے پہلے گالی دی بلا کسی وجہ کے' بلا کسی تقریب کے۔ بس گالی بکی اور پھر جو بات کہنی تھی وہ بات کہی۔ اور ایسے بزرگ بھی دیکھئے گئے کہ گالیاں ہی ان کی مرغوب غذا بن جاتی ہیں۔ جب تک گالی نہ دیں ان کا کھانا ہضم نہیں ہوتا۔

ایک لطیفہ بھی سن لیجیے۔ ایک سکھ جو انگریزی بولنے کا شوقین تھا' اسے کسی بات پہ غصہ آیا تو اس نے انگریزی ہی میں گالیاں دینی شروع کر دیں۔ ڈیم فول سے شروع ہوا اور ایسے کلمات جو گالی کے ذیل میں آتے ہیں بولتا چلا گیا۔ مگر اس کی تسکین نہیں ہوئی۔ تب اس نے کہا موراوور moreovers۔ اور پھر پنجابی میں ایک موٹی سی گالی دی۔ بس اس ایک گالی سے اس کی تشفی ہو گئی۔

اس سے یاروں نے یہ نتیجہ نکالا کہ باقی دنیا بھر کے قصے قضئے آپ انگریزی میں بگھار لیجیے۔ مگر گالی اپنی زبان ہی میں سجتی ہے۔

تو یہ گالی عجیب قسم کی لسانی ایجاد ہے۔ بنیادی طور پر یہ نفرت کا اظہار ہے۔ نفرت کا اور غصے کا۔ یاں یوں کہئے کہ آدمی کو جب کسی شخص کے فعل پر یا رویّے پر غصہ آتا ہے اور نفرت کا اسے مظاہرہ کرنا ہوتا ہے اس طرح کہ شائستگی کو بالائے طاق رکھتا ہے اور منہ بھر کر گالی دیتا ہے یا گالیاں دیتا ہے اور دیتا چلا جاتا ہے۔ مگر پھر اسی گالی سے گالی دینے والے کو اتنا شغف ہو جاتا ہے کہ وہ بات بے بات گالیاں دینے پر اتر آتا ہے۔ پھر اس کے لیے گالی کثیر الاستعمال چیز بن جاتی ہے۔

اس پس منظر میں دیکھئے تو گالی انسانی ضرورت ٹھہرتی ہے۔ اس لیے ہر زبان اپنے بولنے والوں کی ضروریات کو ملحوظ رکھتے ہوئے رنگ رنگ کی گالیاں بھی ایجاد کرتی ہے۔ اور یہ ایسی ضرورت ہے کہ یہاں شرافت اور شائستگی کو بالائے طاق رکھ دیا جاتا ہے۔

لو ہم نے تو گالی کے بارے میں اچھی خاصی منطق بگھارنی شروع کر دی۔ مگر بات جہاں سے شروع ہوئی تھی وہیں پر ختم ہونی چاہیے۔ مطلب کہنے کا یہ تھا کہ ہمارا معاشرہ زوال کے اس درجہ میں ہے کہ لوگوں میں برداشت کا مادہ ختم ہو چلا ہے۔ انسانیت جاتی رہی ہے۔ تعصبات اور نفرت کے جذبات کا بول بالا ہے۔ اس عمل میں ہم نے شائستگی اور وضعداری کو بالائے طاق رکھ دیا ہے۔ یہ بھی خیال نہیں رکھتے کہ کیا مبتذل ہے اور تہذیب سے کتنی گری ہوئی بات ہے۔ ایسے میں گالی ہماری مرغوب جذباتی غذا بن جاتی ہے۔

تو کیا اس غیر مہذب اور انسانیت سے گری ہوئی عادت سے نکلنے کی کوئی صورت ہے۔ ہاں ہے اور ہو سکتی ہے بشرطیکہ ہمیں احساس ہو جائے کہ یہ کتنا غیر شریفانہ عمل ہے۔
بات تو اسی کلام پر ختم ہونی تھی۔ مگر کیا کریں۔ دکھنی شاعری کے دور کا ایک بھلا سا شعر یاد آ گیا۔ ان خرابیوں سے پاک جن کا ابھی ذکر ہوا۔ تو وہ سن لیجیے ؎

بامن کی بیٹی آج موری آنکھ منہ پڑی
غصہ کیا و گالی دیا اور دگر لڑی

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں