ان کی نظروں سے محبت کا جو پیغام ملا
ایورنیو اسٹوڈیو میں ایک فلم کے سیٹ پر نامور شاعر اور نغمہ نگار کلیم عثمانی مل گئے تو مجھے دیکھتے ہی بولے۔
BEIJING:
ایورنیو اسٹوڈیو میں ایک فلم کے سیٹ پر نامور شاعر اور نغمہ نگار کلیم عثمانی مل گئے تو مجھے دیکھتے ہی بولے۔ بھئی یونس ہمدم! کل اسٹوڈیو کے ریکارڈنگ چینل میں اداکارہ سنگیتا سے ملاقات ہوئی وہ اپنی فلم ''تیرے میرے سپنے'' کا گیت ٹیپ پر ٹرانسفر کروا رہی تھی۔ جس کی آیندہ ہفتے فلم بندی کے لیے وہ مری جا رہی ہے۔ اس نے مجھے وہ گیت سنایا اور یہ بھی بتایا کہ یہ گیت یونس ہمدم کا لکھا ہوا ہے۔ مجھے یہ جان کر بڑی خوشی ہوئی، موسیقار کمال احمد نے بہت اچھا کمپوزکیا ہے اور ناہید اختر کی آواز بھی بڑی خوبصورت ہے۔
یہ گیت ابھی سے اسٹوڈیو میں پاپولر ہوتا جا رہا ہے اس گیت سے ناہید اختر کی بڑی دھوم مچے گی، مگر تمہیں بھی خوب شہرت ملے گی، میں نے کلیم عثمانی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا۔ اگر آپ نے ایسا کہا ہے تو یہ میرے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے۔ میں نے تو اپنے شعری سفر کا آغاز آپ جیسے جید شاعر حضرات کو سن کر ہی کیا ہے۔ میرے لیے آپ کی تحسین کے چند الفاظ بھی ایک بڑا سرمایہ ہیں، میری یہ خوش نصیبی تھی کہ مجھے لاہور میں قتیل شفائی، خواجہ پرویز اورکلیم عثمانی جیسے نامور شاعروں کا تعاون حاصل رہا اور مجھے اپنے کالج کا وہ زمانہ اکثر یاد آجاتا تھا جب کراچی کے کسی مشاعرے میں قتیل شفائی، حمایت علی شاعر اور کلیم عثمانی شریک ہوتے تھے تو میں انھیں بڑے شوق سے سننے کے لیے جاتا تھا اور کوشش کرکے ان سے ملاقات بھی کرتا تھا، حمایت علی شاعر اور کلیم عثمانی کے ترنم کا بھی میں بڑا شیدائی تھا ان شاعروں کے مقبول فلمی نغمات بھی بڑی چاہت سے سنتا تھا اور ان شاعروں کے نغمات ہی نے میرے دل میں بھی فلمی نغمہ نگار بننے کی خواہش کو جنم دیا تھا اور پھر ایک ایسا وقت بھی آیا کہ میں ان کا ہم عصر بھی بن گیا۔
کلیم عثمانی کا تعلق بھی ایک مذہبی گھرانے سے تھا مگر ان کے والد فضل الٰہی خود ایک معتبر شاعر تھے اور بیکل ان کا تخلص تھا، علامہ شبیر احمد عثمانی کے گھرانے سے یہ تعلق رکھتے تھے۔ کلیم عثمانی کو ابتدا ہی سے شعر و ادب کا ماحول میسر ہوا تھا جب کلیم عثمانی دبستان ادب سے وابستہ ہوئے تو احسان دانش جیسے اساتذہ کی قربت نصیب ہوئی اور ان کی شاعری میں مزید نکھار پیدا ہوا، ابتدا میں یہ صحافت کے پیشے سے بھی وابستہ رہے اورکئی اخبارات اور رسائل سے جڑے رہے، بحیثیت شاعر جب مشاعروں میں جانا شروع کیا تو اپنے خوبصورت ترنم کی وجہ سے شاعروں کی جان بنتے چلے گئے، لاہور ان کا مسکن تھا تو بھلا لاہور کی فلم انڈسٹری سے یہ کس طرح دور رہ سکتے تھے۔
اسی دوران مشہور موسیقار فیروز نظامی ان کی شاعری کو پسند کرنے لگے اور دونوں کی بہت اچھی دوستی ہوگئی۔ جب ہدایت کار ہمایوں مرزا نے فلم ''انتخاب'' شروع کی تو فیروز نظامی کو موسیقار منتخب کیا اور فیروز نظامی نے ہی پہلی بار کلیم عثمانی سے فلم ''انتخاب'' کے لیے گیت لکھوائے ، فلم ریلیز کے بعد بری طرح فلاپ ہوگئی۔ مگر کلیم عثمانی، ہمایوں مرزا کی گڈ بک میں آگئے تھے جب ہمایوں مرزا نے اپنی نئی فلم ''بڑا آدمی'' کا آغاز کیا تو اس فلم میں مرزا نے فیروز نظامی کی بجائے موسیقار غلام نبی عبداللطیف کو لیا اس موسیقار جوڑینے ''بڑا آدمی'' کے لیے ہندوستانی فلم انڈسٹری کی مشہور گلوکارہ مبارک بیگم جو ان دنوں پاکستان آئی ہوئی تھی اسے اپنی فلم میں گوایا اور کلیم عثمانی نے گیت لکھا تھا۔ جس کے بول تھے:
کاہے جلانا دل کو
چھوڑو جی غم کے خیال کو
مذکورہ فلم اوسط درجے کی رہی مبارک بیگم کا گایا ہوا گیت ان دنوں کافی مقبول ہوا تھا پھر ہمایوں مرزا نے جب اپنی فلم ''راز'' شروع کی تو ایک بار فیروز نظامی کو پھر سے اپنے یونٹ میں شامل کرلیا۔ فیروز نظامی کے ساتھ کلیم عثمانی کی جوڑی نے اس فلم میں اچھے گیت دیے اور گلوکارہ زبیدہ خانم کا گایا ہوا گیت جس کے بول تھے ''میٹھی میٹھی بتیوں سے جیا نہ جلا'' اس گیت کو بڑی شہرت ملی اور کلیم عثمانی بحیثیت نغمہ نگار کامیابی کے راستے پر بڑھتے چلے گئے اور فلمساز و ہدایت کار ہمایوں مرزا کے یونٹ میں کلیم عثمانی کی بات بنتی چلی گئی۔ جب ہمایوں مرزا نے ایک اور فلم ''دھوپ اور چھاؤں'' بنائی تو شاعرکلیم عثمانی ہی تھے۔
اس فلم میں مرزا صاحب نے موسیقار غلام نبی عبداللطیف کی جوڑی کو پھر موقع دیا۔ اس فلم میں گلوکار سلیم رضا کی گائی ہوئی اورکلیم عثمانی کی لکھی ہوئی غزل ''آج اس شوخ کی تصویر سجا لی میں نے'' کو کافی شہرت حاصل ہوئی اور شہرت کا یہ سفر چلتے چلتے موسیقار ناشاد تک پہنچ گیا۔ موسیقار ناشاد نے بھی فلم ''جلوہ'' میں کلیم عثمانی سے گیت لکھوائے اور یہ دو گیت :
''کوئی جا کے ان سے کہہ دے
ہمیں یوں نہ آزمائیں
(مجیب عالم)
لاگی ری لاگی لگن یہی دل میں
دیپ جلے سُرکے ساگر میں
جب میں گیت سناؤں، لاگی رے
دوسرا گیت مہدی حسن کی آواز میں تھا اور جس رچاؤ کے ساتھ یہ گایا گیا تھا اس گیت نے فلمی حلقوں میں بڑی دھوم مچائی تھی اور یہ گیت مہدی حسن کے کلاسک ہٹ گیتوں میں شامل ہوگیا تھا۔ اس گیت کے بعد اب میں ایک اور ہٹ غزل کی طرف آتا ہوں جسے ایک نئی گلوکارہ رونا لیلیٰ نے گایا تھا اور جس کی مدھر موسیقی فلم ''ہم دونوں'' کے لیے ناشاد نے مرتب کی تھی اور غزل کا مطلع تھا:
ان کی نظروں سے محبت کا جو پیغام ملا
دل یہ سمجھا کہ چھلکتا ہوا اک جام ملا
رونا لیلیٰ کو ناشاد ہی نے روشناس کرایا تھا اور اس غزل کی دھن اتنی مسحور کن اور دلکش بنائی تھی کہ ساری فلم انڈسٹری میں اس کی دھوم مچ گئی اور رونا لیلیٰ کو اس ایک غزل سے اتنی شہرت ملی جو کسی بھی گلوکارہ کو برسوں کی محنت و ریاضت کے بعد نصیب ہوتی ہے۔ ان دنوں ہر طرف کلیم عثمانی کی غزل کے ہی چرچے تھے اور پھر کلیم عثمانی معروف ترین نغمہ نگاروں کی فہرست میں شامل ہوگئے تھے اور یہی حال موسیقار ناشاد کا بھی تھا کہ لاہور فلم انڈسٹری کا ہر بڑا پروڈیوسر ناشاد کو اپنی فلم میں موسیقار لینے کے لیے بے چین رہتا تھا۔
رونا لیلیٰ ان دنوں لاہور کے ہر موسیقار کی توجہ کا مرکز بنتی جا رہی تھی۔ ایم ۔اشرف، کمال احمد، نثار بزمی اور روبن گھوش کے ہونٹوں پر تو بس رونا لیلیٰ ہی کا نام ہوتا تھا۔ روبن گھوش کا جب نام آیا ہے تو روبن گھوش ہی کی موسیقی میں کلیم عثمانی کا لکھا ہوا ایک گیت کبھی نہیں بھلایا جاسکتا، مہدی حسن کی جادو بھری آواز میں اس گیت کو سدا بہار گیت کا درجہ حاصل ہے جس کا تعلق فلم ''شرافت'' سے ہے اس کے بول ہیں:
تیرے بھیگے بدن کی خوشبو سے
لہریں بھی ہوئیں مستانی سی
اس گیت نے کلیم عثمانی کی شہرت میں مزید چار چاند لگا دیے تھے۔ یہاں میں ایک بات کا تذکرہ اور کرتا چلوں کہ جس طرح کلیم عثمانی کی فلم ''دونوں'' کے لیے لکھی گئی غزل نے رونا لیلیٰ کو عروج دیا اسی طرح فلم ''گھرانہ'' میں موسیقار ایم۔اشرف کی دھن میں کلیم عثمانی کے لکھے ہوئے گیت سے ایک نئی گلوکارہ نیرہ نور فلمی دنیا سے روشناس ہوئی اور اس کا پہلا گیت سپر ہٹ ثابت ہوا جس کے بول تھے:
تیرا سایا جہاں بھی ہو سجنا' پلکیں بچھا دوں
ساری عمر بتا دوں
اور اس طرح فلم انڈسٹری کو ایک میٹھی اور سریلی آواز نصیب ہوئی تھی۔ کلیم عثمانی کے کریڈٹ پر بے شمار فلمیں ہیں اور بے شمار ہٹ گیت بھی ہیں مگر ایک ایسا قومی گیت بھی کلیم عثمانی نے فلم ''فرض اور مامتا'' کے لیے لکھا تھا جس کے بول تھے:
اس پرچم کے سائے تلے
ہم ایک ہیں' ہم ایک ہیں
یہ گیت نیرہ نور اور ساتھی گلوکاراؤں نے گایا تھا اس گیت کو قومی گیت ہی کا سا درجہ حاصل ہے اور یہ جتنا کل مقبول تھا اتنا ہی آج بھی مقبول ہے اور جب تک پاکستان زندہ ہے یہ نغمہ بھی ہمیشہ زندہ رہے گا اور کلیم عثمانی کی یاد دلاتا رہے گا۔ کلیم عثمانی کا ہر گیت ادب کا شاہکار تھا۔ کلیم عثمانی نے فلموں کے لیے ان گنت گیت لکھنے کے علاوہ ٹیلی وژن اور ریڈیو کے لیے بھی بہت گیت لکھے ہیں۔ کلیم عثمانی قلم کے اس قبیلے سے تعلق رکھتے تھے جس نے فلموں میں بڑی شدومد کے ساتھ ادب کو فروغ دیا اور فلموں کے ذریعے ادب کو پروان چڑھایا اس قبیلے میں کلیم عثمانی کے ساتھ منیر نیازی، احمد راہی، قتیل شفائی اور حمایت علی شاعر کے نام آتے ہیں۔
کلیم عثمانی نے فلموں میں ادبی قدروں کو اپنے آخری وقت تک برقرار رکھا، وہ بہت ہی خوش اخلاق، باکردار اور انتہائی نفیس انسان تھے۔ ان کی ذات میں درویشی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ انھوں نے قدم قدم پر فلمی دنیا میں میری معاونت کی اور میرے حوصلے بڑھائے اللہ ان کے درجات بلند کرے (آمین)