اسٹریٹجک وجغرافیائی اہمیت رکھنے والے یمن میں جاہ و منصب کا کھیل

صدرعلی عبداللہ نے ثابت کردیا کہ وہ حقیقتاً زروجاہ کا پجاری ہے اور ذاتی مفادات کے علاوہ اسے حلال حرام کی کوئی پروا نہیں


2012ء میں صدر علی عبداللہ نے بادل نخواستہ استعفیٰ دیا لیکن اس کی سیاسی و عسکری قوت برقرار رہی، فوٹو : فائل

DHAKA: کہتے ہیں، ''ہوس اتنی خوفناک شے ہے کہ وہ ہر چیز تباہ کر دیتی ہے۔'' اس قول ِصادق کی عملی شکل دیکھنی ہو، تو یمن پہ نظر ڈال لیجیے۔ اس برادر اسلامی ملک میں چند نام نہاد قومی رہنماؤں کی بے قابو ہوسِ جاہ و زر پورے دیس کو خانہ جنگی کے بھڑکتے شعلوں میں جھونک چکی ہے۔

ان رہنماؤں میں کسی کو اقتدار کا لالچ ہے، تو کوئی اپنے مخالفین سے انتقام لینا چاہتا ہے۔ ایک کو اپنے مفادات کا تحفظ درکار ہے، تو دوسرا اپنے مذہبی نظریات بزور دوسروں پر ٹھونسنا چاہتا ہے۔

ان رہنماؤں کی باہمی جنگ میں بے کس و مجبور عوام مارے گئے اور یمن کا انفراسٹرکچر بھی تباہ ہوگیا... وہ یمن جسے دو ہزار سال قبل رومیوں نے ''عربیہ سعیدہ'' یا خوش باش عرب کا نام دیا تھا۔ قدیم رومی جب یمن پہنچے تو وہاں پھیلا سبزہ اور گل وگلاب سے آراستہ پہاڑ دیکھ کر حیران رہ گئے تھے۔

اس ملک میں آباد دو کروڑ اڑتیس لاکھ مسلمانوں میں 65 فیصد سنی اور 45 فیصد زیدی شیعہ ہیں۔ سنّی جنوبی، وسطی اور شمالی یمن کے زیریں علاقوں میں بستے ہیں۔ زیدی اور دیگر شیعہ فرقے شمالی یمن کے بالائی پہاڑی علاقوں میں آباد ہیں۔



یمن کے جدید سیاسی دور کا آغاز 1978ء سے ہوا جب ایک فوجی افسر، علی عبداللہ صالح شمالی یمن کا صدر بنا۔ علی عبداللہ غیر ہاشمی زیدی ہے۔ یہ چرب زبان رہنما مختلف حیلوں اور مراعات سے مخالفین کو رام کرنے کا گُر جانتا ہے۔ حامیوں کو خوب تحفے تحائف اور انعامات دیتا اور یوں انہیں اپنی چھتری تلے جمع رکھتا۔

علی عبداللہ صالح نے سب سے پہلے شمالی یمن میں شیعہ و سنی قبائل کے لیڈروں کو مراعات و انعامات دے کر اپنے ساتھ ملایا۔ پھر جنوبی یمن کے قبائلی رہنماؤں پر بھی خوب نوازشیں کیں اور انہیں اپنا طرف دار بنالیا۔ قبائلی لیڈروں کی حمایت پاکر علی عبداللہ اس قابل ہوا کہ 1990ء میں منقسم یمن کے دونوں حصوں کے ادغام سے جمہوریہ یمن کی بنیاد رکھ سکے۔ وہی اس نئی مملکت کا پہلا صدر منتخب ہوا۔

صدر علی عبداللہ نے اپنے اقتدار کو مستحکم و طویل رکھنے کی یہ تدبیر ڈھونڈی کہ سنّی و شیعہ قبائلی سرداروں کو ''خوش'' رکھنے لگا۔ چناں چہ اس نے انہیں کئی سرکاری عہدے دیئے۔ پارلیمان میں بھی قبائلی سردار ہی منتخب ہوکر آتے رہے۔



ان تین چار سو قبائلی لیڈروں کو ہر قسم کی آسائشیں و مراعات میسر تھیں۔ ادھر صدر علی عبداللہ بھی سرکاری خزانے سے مال بٹورتا رہا۔ یوں یمن کے وسائل محض ایک دو فیصد امیر و بااثر یمنیوں پر خرچ ہونے لگے۔ بقیہ بیشتر یمنی زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم رہ کر ہی جیسے تیسے اپنا وقت کاٹتے رہے۔

پہلا سیاسی بحران
جمہوریہ یمن کا پہلا سیاسی بحران 1994ء میں سامنے آیا۔ 1990ء میں جنوبی یمن کا سربراہ، علی سالم البیض نائب صدر بنا تھا۔ اگست 1993ء میں وہ حکومت چھوڑ کر عدن چلا گیا۔ اس نے صدر علی عبداللہ پر الزام لگایا کہ وہ شمالی یمن کے بالائی علاقوں میں سرکاری خرچ سے ترقیاتی کام کرارہا ہے۔ جبکہ جنوبی یمن کے علاقوں کو لاوارث چھوڑ دیا گیا ۔

ایک وجہ یہ بھی تھی کہ صدر علی عبداللہ نے اپنے چیلے چانٹوں کو جنوبی یمن میں وسیع زمینیں الاٹ کردیں۔ وہاں وہ آمروں کی طرح رہنے لگے اور مقامی آبادی کو حقیر سمجھتے۔ ان وجوہ کی بنیاد پر جنوبی یمن کے قبائلی لیڈروں اور سیاست دانوں نے علیحدہ ہونے کا فیصلہ کرلیا۔

مئی 1994ء میں جنوبی اور شمالی یمن کی افواج کے مابین جنگ چھڑگئی۔ جنگ میں علی عبداللہ حکومت کا پلّہ بھاری رہا کیونکہ امریکہ اس کی حمایت کررہا تھا۔

وجہ یہ کہ جنوبی یمن میں برسرپیکار بیشتر سیاست داں سوشلسٹ پارٹی سے تعلق رکھتے تھے۔ چناں چہ امریکیوں کی حمایت سے صدر علی عبداللہ نے جنوبی یمن کا دوبارہ کنٹرول سنبھال لیا۔ پھر جلد ہی اپنے روایتی حیلے، ترغیبات اور انعام و اکرام کے ذریعے مخالفین کو مطیع کرلیا۔ تاہم عوامی سطح پر علی عبداللہ حکومت کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا رہا۔

اسی دوران القاعدہ نے امریکا کے خلاف عالمی جنگ چھیڑ دی۔ جلد ہی یمن بھی القاعدہ کا اہم اڈہ بن گیا۔ وہاں افغان جہاد میں حصہ لینے والے سیکڑوں مجاہدین موجود تھے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ 1989ء میں یہی مجاہدین علی عبداللہ صالح کے ساتھ مل کر جنوبی یمن میں مارکسٹوں و سوشلسٹوں کے خلاف لڑے تھے اور انھیں شکست دی۔

کچھ ہی عرصے میں جنوبی اور وسطی یمن کے زیریں علاقوں سے القاعدہ کو ہزارہا حمایتی مل گئے۔ چناں چہ اکتوبر 2002ء میں القاعدہ کے خودکش حملہ آوروں نے بندرگاہ عدن پر کھڑے امریکی طیارہ بردار جہاز، کول پر دھاوا بول دیا۔ اسی حملے میں 17 امریکی مارے گئے۔

القاعدہ کے خلاف مہم
اسی دوران واقعہ 9/11 پیش آگیا۔ اب امریکی صدر بش یمنی حکومت پر زور دینے لگا کہ وہ القاعدہ پر حملہ کردے۔ چناں چہ صدر علی عبداللہ کے حکم پر یمنی فوج نے القاعدہ کے مراکز پر دھاوا بول دیا ۔القاعدہ نے جواباً سرکاری تنصیبات اور فوج پہ حملے کیے، یوں امریکی اشارے پر یمن میں نئی خانہ جنگی کا آغاز ہوگیا۔امریکا نے اپنی سپیشل فورسز اور سی آئی اے کے ایجنٹ یمن بھجوائے تاکہ وہ القاعدہ کو ختم کرنے میں یمنی حکومت کا ساتھ دے سکیں۔



2002ء میں امریکی ڈرون بھی القاعدہ رہنماؤں پر حملہ آور ہوگئے۔ ایسے پہلے حملے میں نومبر 2002ء میں کول خودکش حملے میں ملوث القاعدہ رہنما، ابو علی حارثی کو ڈرون سے میزائل مار کر ہلاک کیا گیا۔ اس خانہ جنگی نے یمن کے معاشی حالات مزید ابتر کردیئے۔ یمن کی آبادی تیزی سے بڑھی ہے، جبکہ خوراک و پانی کے وسائل اتنے ہی رہے۔

اسی لیے یمن میں بتدریج غذا اور پانی نایاب ہوتا جارہا ہے۔ اس صورت حال کے باعث یمنی عوام آئے دن علی عبداللہ حکومت کے خلاف مظاہرے کرنے لگے۔ یمنی حکومت کے وزیروں مشیروں کو عوام کے مسائل کی کوئی پروا نہیں تھی، وہ اپنے اللّے تللّوں میں مگن رہتے۔

صدر علی عبداللہ کا اقتدار خطرے میں آیا، تو اس نے بچاؤ کا انوکھا طریقہ اختیار کیا۔ وہ جیلوں میں قید القاعدہ رہنما و جنگجو رہا کرنے لگا۔ گو یہ خبر ہی مشتہر کی جاتی کہ القاعدہ رہنما فلاں جیل توڑ کر بھاگ گئے۔ مدعا یہ تھا کہ یمن میں خانہ جنگی جاری رہے۔یوں امریکی حکومت مجبور ہوجاتی کہ صدر کو مالی امداد فراہم کرتی رہے اور سیاسی طور پہ بھی حمایت کرے۔

القاعدہ اور یمنی حکومت کی جنگ جاری تھی کہ شمالی یمن میں زیدیوں کی ایک سماجی تنظیم ،الحوثیون نے بغاوت کردی۔ گو جلد ہی حوثیوں کا لیڈر، حسین بدر الدین یمنی فوج سے مقابلہ کرتے ہوئے مارا گیا۔ مگر حوثی تحریک رفتہ رفتہ بالائی شمالی یمن میں جڑ پکڑنے لگی۔ چناں چہ اس کا القاعدہ سے بھی تصادم ہوا۔

آنے والے برسوں میں یمنی حکومت، القاعدہ اور حوثی آپس میں برسرپیکار رہے۔ خانہ جنگی کی شدت کبھی بڑھتی، کبھی ماند پڑجاتی، لیکن یمنی عوام کو مکمل آرام و سکون کے لمحے کم ہی میسر آسکے۔

القاعدہ والے سرکاری یمنی تنصیبات پر حملہ کرتے، تو شہری بھی مارے جاتے۔ یمنی فوج القاعدہ کے ٹھکانوں پر بمباری کرتی، تو تب بھی کئی بے گناہ شہری اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے۔ سچ ہے، طاقتوروں کی لڑائی میں اصل نقصان کمزوروں ہی کا ہوتا ہے۔ ایک طرف مہنگائی،بیروزگاری ،اشیائے ضرورت کی نایابی نے عوام کو پریشان کیے رکھا، دوسری طرف خانہ جنگی نے معاشرتی و معاشی زندگی مزید ابتر کر ڈالی۔

جنوبی یمن میں بغاوت
اپریل 2008ء میں جنوبی یمن میں دوبارہ بغاوت پھوٹ پڑی۔ ان یمنیوں کا کہنا تھا کہ علی عبداللہ حکومت صرف شمالی یمن کے باسیوں اور اپنے چمچوں کو سرکاری ملازمتیں دیتی ہے۔ جبکہ جنوبی یمن کے باشندوں کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔

اس بغاوت نے جلد علیحدگی پسند تحریک کی شکل اختیار کرلی۔ اس کو جنوبی یا ساؤتھرن موومنٹ کا نام دیا گیا۔ جب جنوبی یمن کے بعض بڑے سنی قبائل تحریک حرک جنوبی میں شامل ہوئے تو وہ یمنی حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد کرنے لگے۔ یوں یمنی خانہ جنگی میں نیا عنصر داخل ہوگیا۔تحریک حرک جنوبی کے لیڈر اب بھی متحرک ہیں۔



ایک طرف یمن خانہ جنگی، مہنگائی اور کرپٹ و نااہل حکومت کے چنگل میں پھنسا ہوا تھا، دوسری طرف بوڑھا ہوتا صدر علی عبداللہ آئین میں من پسند تبدیلیاں کرانے کی تیاری کرنے لگا تاکہ اس کا بیٹا، جنرل احمد صالح نیا ڈکٹیٹر بن سکے۔ لیکن تیونس کا ایک معمولی پھیری والا، محمد بو عزیزی اس کے عزائم کی راہ میں رکاوٹ بن گیا۔

علی عبداللّٰہ کی رخصتی
یمنی عوام کی طرح تیونسی بوعزیزی بھی اپنے حکمرانوں کی بے حسی و مظالم کا شکار تھا۔ اس نے جنوری 2011ء میں خود سوزی کرکے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔ بو عزیزی کے جلتے جسم سے ایسی چنگاریاں نکلیں کہ انہوں نے یمن سمیت بیشتر عرب ممالک میں خاموش و بے بس عوام کے تن بدن میں آگ لگادی۔ وہ بھی اپنی اپنی حکومت کی کوتاہیوں اور کرپشن کے خلاف مظاہرے کرنے لگے۔

یمن میں عوام پچھلے بیس برس سے صدر علی عبداللہ کی آمریت برداشت کررہے تھے، مگر اب ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔ عوامی غم و غصّہ دیکھ کر ان قبائلی سرداروں نے بھی آنکھیں پھیر لیں جنہیں علی عبداللہ نے انعام و اکرام دے کر خاموش رکھا ہوا تھا۔ قبائلی سرداروں کی بغاوت ہی اس کے اقتدار کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوئی۔

فروری 2011ء سے یمنی شہروں میں علی عبداللہ کے خلاف زبردست عوامی جلوس نکلنے لگے۔ جب حکومت نے بزور انہیں روکا، تو تصادم ہوگیا۔ ماہ مئی تک عوام و حکومت کی لڑائی میں سیکڑوں افراد مارے گئے۔ مگر جاہ و منصب کا بھوکا یمنی صدر اقتدار سے چمٹا رہا۔ آخر جب عوام نے صدارتی محل پر حملہ کر کے اسے زخمی کیا، تو وہ دم دبا کر سعودی عرب فرار ہوگیا۔



اب کوئی راہ نہ پاکر مجبوراً علی عبداللہ نے اوائل 2012ء میں حکومت اپنے نائب، عبدربہ منصور ہادی کے حوالے کردی۔ منصور ہادی 1994ء سے نائب صدر چلے آرہے تھے۔وہ صدر بن کر کوشش کرنے لگے کہ یمنی قبائل و متحارب گروہوں میں یک جہتی پیدا کی جائے۔

اسی لیے انہوں نے حزب اختلاف کے ایک رہنما کو اپنا وزیراعظم بنایا۔ قومی اتحاد کے پیش نظر ہی فروری 2012ء میں صدارتی انتخابات ہوئے، تو حزب اقتدار اور اپوزیشن، دونوں نے منصور ہادی کو اپنا امیدوار مقرر کیا۔ وہ تنہا ہونے کے باعث باآسانی الیکشن جیت گئے۔نئے صدر کو امریکا اور سعودی عرب کی حمایت بھی حاصل تھی۔وجہ یہی کہ انھوں نے دونوں قوتوں کی دشمن تنظیم،القاعدہ کے خلاف یمنی فوج کی مہم جاری رکھی۔

سازش کا آغاز
لیکن صدارتی انتخابات کے فوراً بعد ایک عجیب و غریب عمل ظہور پذیر ہوا۔ وہ یہ کہ علی عبداللہ صالح بڑے طمطراق سے یمن لوٹ آیا۔ یمنی پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ اس پر کسی قسم کا مقدمہ نہ چلے۔درج بالا پارلیمانی فیصلے کے خلاف ہزارہا یمنیوں نے احتجاج کیا، مگر نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے؟

شاطر و عیار علی عبداللہ محض سزا ہی سے نہیں بچا، بلکہ وہ اپنے اثر و رسوخ اور دوست قبائلی سرداروں کی مدد سے یمن کی سب سے بڑی سیاسی جماعت، جنرل پیپلزکانگریس کا سربراہ بن گیا۔ اہم ترین بات یہ ہوئی کہ سابق صدر کے بیٹے جنرل احمد ہی کو ریپبلکن گارڈ کا سربراہ برقرار رکھا گیا۔ ریپبلکن گارڈ یمنی فوج کا ایلیٹ ترین دستہ ہے۔

درحقیقت جنرل احمد کی وجہ سے ہی علی عبداللہ اور صدر منصور ہادی کے مابین اختلافات کا آغاز ہوا۔ ریپبلکن گارڈ کا کمانڈر ہونے کی وجہ سے جنرل احمد صالح یمنی فوج میں بہت اثرو رسوخ رکھتا ہے۔ رفتہ رفتہ صدر منصور کو احساس ہوا کہ جنرل احمد ان کے اقتدار کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔وہ تو علی الاعلان صدر بننے کا عزائم رکھتا تھا۔ چناں چہ انھوں نے جنرل احمد کی طاقت کم کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

دسمبر 2012ء میں صدر منصور ہادی نے یمنی افواج کی تنظیم نو کرنے کا اعلان کیا۔ ساتھ ہی یہ صدارتی حکم بھی جاری ہوا کہ تنظیم نو کے تحت ریپبلکن گارڈ براہ راست صدر کے کنٹرول میں آجائے گا۔ دستے کا نیا نام پریزیڈنٹ نیشنل ڈیفنس فورسز تجویز ہوا۔ تنظیم نو کے باعث اپریل 2013ء میں جنرل احمد صالح کا تبادلہ یمنی فوج کے کسی اور ڈویژن میں کردیا گیا۔

علی عبداللہ اور احمد صالح نے اس وقت تو صدر منصور کی سرگرمیاں خاموشی سے ہضم کر لیں لیکن وہ پوشیدہ طور پر حکومت کا تختہ الٹنے کے خفیہ منصوبے بنانے لگے۔سازش کو عملی جامہ پہنانے کے لیے علی عبداللہ نے روایتی مکاری سے کام لیتے ہوئے حوثیوں کو ساتھ ملالیا۔

طرفہ تماشہ یہ کہ 2004ء تا 2011ء تک علی عبداللہ حکومت حوثیوں سے نبردآزما رہی اور ان کے کئی لیڈر و گوریلے ہلاک کر ڈالے۔ لیکن اقتدار کی ہوس نے علی عبداللہ کو دشمنوں سے جاملایا۔

ایک طرف علی عبداللہ پیپلزکانگریس کا سربراہ ہونے کے باعث پارلیمنٹ و سیاست دانوں میں اثرو رسوخ رکھتا تھا، دوسری طرف ہزارہا یمنی فوجی جنرل احمد صالح کی طرفدار تھے۔ چناں چہ باپ بیٹے نے اپنی ساری سیاسی و عسکری قوت حوثیوں کو طاقتور بنانے پر لگا دی۔ حوثیوں نے بلیک مارکیٹ سے اسلحہ خریدا اور بعض عالمی دانش وروں کا دعویٰ ہے، ان کو ایران نے بھی اسلحہ و پیسا فراہم کیا۔

غرض سابق صدر اور حاضر جرنیل کی حمایت رفتہ رفتہ حوثیوں کو طاقتور بنانے لگی۔ اوائل 2013ء میں وہ یمن کے صرف دو صوبوں تک محدود تھے لیکن ریپبلکن گارڈ کی مدد سے رفتہ رفتہ شمالی یمن کے دیگر صوبوں پر قابض ہوتے چلے گئے۔

حوثیوں کا دعویٰ ہے کہ وہ امن ومحبت کے سفیر ہیں۔ یمنی معاشرے سے امیر و غریب کی تفریق ختم کرنا چاہتے ہیں۔ نیز وہ سلفیوں کے بھی مخالف ہیں جو بقول حوثی مذہبی انتہا پسندی پھیلاتے ہیں۔ ان کے نعرے میں امریکا، اسرائیل و یہود کو موت کا پیغام دیا گیا ہے۔ تاہم وہ یمن میں ہم مذہب مسلمانوں ہی سے نبرد آزما ہوئے۔

صدر منصور یمن کو چھ وفاقی علاقوں میں تقسیم کرنا چاہتے تھے۔حوثیوں نے اس منصوبے کی مخالفت کرتے ہوئے اسے دانستہ تنازع بنا دیا۔وسط 2014ء تک صدر منصور ہادی کا اقتدار عدن اور جنوبی یمن کے بعض مقامات تک محدود ہوگیا۔ ستمبر 2014ء میں آخر کار حوثیوں نے اپنے لیڈر،عبدالملک حوثی کی زیر قیادت دارلحکومت صنعاء پر قبضہ کرلیا۔

صدر ہادی پہلے عدن فرار ہوئے اور پھر سعودی عرب چلے گئے۔ صنعاء پر قبضہ کرنے کے بعد حوثی عدن اور جنوبی یمن کی طرف بڑھے، تو اواخر مارچ 2015ء سعودیہ اور دیگر عرب ممالک کے طیارے ان پر بم باری کرنے لگے۔جنوبی یمن میں صدر ہادی کی حمایتی فوج و مقامی قبائل سے حوثیوں کی جنگ چھڑ گئی۔اس خانہ جنگی میں ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے۔

یوں اپنی طاقت و اثر و رسوخ برقرار رکھنے کی خاطر علی عبداللہ صالح نے اپنے دشمن،حوثیوں کو شمالی یمن کے سیاہ و سفید کا مالک بنا دیا۔ اب ممکن ہے کہ وہ اپنے بیٹے، جنرل احمد صالح کو صدارتی امیدوار بنانے کی خاطر چالیں چلنے لگے۔ آخر سابق یمنی صدر کا دیرینہ خواب تو یہی ہے کہ اس کا بیٹا یمن کی حکومت سنبھالے۔

یمن کا نظامِ حکومت
یمن بظاہر جمہوری مملکت ہے، مگر سابق آمر، علی عبداللہ نے اپنے 40سالہ دورِ اقتدار کے دوران بیشتر طاقت عہدہِ صدر میں جمع کرلی۔ وہ ہی تمام قوانین منظور اور احکامات جاری کرتا۔ اس کے سامنے پارلیمنٹ، کابینہ اور عدلیہ گویا ربڑ اسٹیمپ بن گئے۔

آخرکار جب وہ رخصت ہوا تو 301 ارکان پر مشتمل پارلیمنٹ کو کچھ طاقت میسر آئی۔نئے صدر،منصور ہادی نے ملک کا نیا آئین بنانے کے لیے مقتدر قوتوں کے مابین بحث و مباحثہ شروع کرایا تاکہ یمن میں قومی یک جہتی جنم لے۔یہ مباحثہ جاری تھا کہ حوثی درمیان میں ٹپک پڑے اور حکومت پہ قبضہ کر لیا۔ وہ مختلف عبوری کونسلیں بناکر شمالی یمن پر حکمرانی کرنے لگے ۔

ری پبلکن گارڈ کی اہمیت
یمن کی افواج کا ایلیٹ دستہ ری پبلکن گارڈ کہلاتا ہے۔ یہی دستہ جدید ترین ہتھیار رکھتا ہے۔ نیز اس میں انتہائی تجربے کار فوجی شامل کیے جاتے ہیں۔ دستے میں اسّی ہزار سے ایک لاکھ کے درمیان فوجی شامل ہیں۔

طویل عرصہ علی عبداللہ کا بیٹا، جنرل احمد اس خصوصی دستے کا انچارج رہا۔ 2013 ء میں اسے برطرف کردیا گیا۔ لیکن ریپلکن گارڈ میں اس کا اثرورسوخ برقرار رہا۔اسی لیے حوثیوں کی مدد میں ری پبلکن گارڈ کے فوجی پیش پیش رہے۔ انہی کی عسکری حمایت نے حوثیوں کو اس قابل بنایا کہ وہ صنعاء پر باآسانی قبضہ کر لیں۔ حوثیوں کو علی عبداللہ کی حمایتی یمنی فوج کی مدد بھی حاصل رہی۔

اصل قوت قبائل ہیں
20 مارچ 2015 ء کو یمنی دارالحکومت، صنعاء کی ایک مسجد میں زوردار دھماکہ ہوا۔ یہ زیدی شیعوں کی مسجد تھی۔ اس خودکش حملے میں 137 زیدی مارے گئے۔ بعدازاں القاعدہ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرلی۔ یہ حملہ عیاں کرتا ہے کہ شام، عراق اور لیبیا کی طرح یمن میں شیعوں اور سنیوں کے مابین جنگ چھڑچکی ہے۔

تاہم یمنی معاشرے میں اختلافات فرقہ ورانہ سے زیادہ قبائلی اور معاشی نوعیت رکھتے ہیں۔ یمن میں آج بھی ''75 فیصد آبادی'' کسی نہ کسی قبیلے سے وابستہ ہے۔ یہ قبائلی وابستگی لوگوں کو حفاظت عطا کرتی اور ذریعہ معاش ڈھونڈنے میں مدد دیتی ہے۔ تاہم زیدی حوثیوں کا عروج القاعدہ ،داعش اور دیگر شدت پسند تنظیموں کو یمن میں مقبول بنا رہا ہے۔ فرقہ ورانہ فساد کا ماحول ان تنظیموں کو پھلنے پھولنے کے لیے ایندھن فراہم کرتا ہے۔

سعودی عرب صدر منصور ہادی کی حکومت کا حمایتی تھا۔ وہ یمنی حکومت کو مضبوط و استحکام بخشنے کی خاطر ماہانہ کروڑوں ڈالر اسے دے رہا تھا۔ مدعا یہ تھا کہ یمنی حکومت القاعدہ کے خلاف ٹھوس کارروائیاں کرسکے۔ القاعدہ کے سب سے بڑے دشمن، امریکا کی حمایت بھی یمنی حکومت کو حاصل تھی۔

لیکن جب منصور حکومت ختم ہوئی، تو سعودیہ اور امریکا نے یمن کی مالی امداد روک لی۔ یہ وہ مقام ہے جب ایران یمنی منظر نامے میں داخل ہوا اور حوثیوں کو ہر قسم کی امداد دینے لگا۔ ایرانی امداد نے حوثیوں کو اس قابل بنا دیا کہ وہ یمن کے دیگر علاقوں کی سمت پیش قدمی کرسکیں۔



اُدھر مرکزی حکومت ختم ہوئی، تو ہر یمنی علاقے میں قبائلی سردار نیم خود مختار ہوگیا۔ جلد ہی قبائلی سرداروں کو احساس ہوا کہ ان کی سرداری و طاقت کو حوثیوں سے خطرہ ہے۔ اس امر نے انہیں چوکنا کردیا۔ ایک عرب دانشور خالد جاوید کا کہنا ہے:

''یمن میں حقیقی جنگ شیعہ اور سنی کے درمیان نہیں، بلکہ قبائلی سرداروں کی اکثریت حوثیوں کو غاصب سمجھتی ہے۔ اس لیے وہ ان کی حکومت تسلیم کرنے کو تیار نہیں اور حوثیوں سے نبرد آزما ہوگئے۔''

مزید برآں یمن کے جن علاقوں میں قبائل کی کثرت ہے، وہیں تیل کے ذخائر بھی واقع ہیں۔ مثال کے طور پر صوبہ مارب! یمن میں بیشتر تیل و گیس اسی صوبے سے نکلتے ہیں اور وہاں زمینیں قبائل کی ملکیت ہیں۔چناں چہ اوائل مارچ میں حوثی صوبہ مارب پر حملہ آور ہوئے، تو تمام قبائل نے متحد ہوکر ان کا مقابلہ کیا۔ قبائلیوںنے حوثیوں کو غیر ملکی حملہ آور قراردیا کیونکہ وہ مرکزی یا وفاقی حکومت سے متعلق نہیں تھے۔ حوثی مارب میں متحدہ قبائلی قوت سے مقابلہ نہ کرسکے اور صلح کرلی۔

عرصہ دراز سے یمن میں مضبوط وفاقی حکومت نہ ہونے کے باعث کئی صوبوں میں بڑے قبائلی سردار نیم خودمختار ہوچکے ہیں۔ اب وہ اپنے علاقوں میں حکمران کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ قبائلی سردار یا ''شیخ'' اپنے لوگوں کے مسائل حل کرتے، ان کے جھگڑے نمٹاتے اور قبائلی مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ یمنی قبائل کے معین اصول و قوانین ہیں اور عموماً وہ القاعدہ جیسی شدت پسند تنظیموں کی حمایت نہیں کرتے۔عدن اور جنوبی یمن میں یہی قبائلی حوثیوں کے مقابلے پہ آئے اور صدر ہادی کی فوج کا ساتھ دیا۔



تاہم حوثیوں نے عروج پایا تو خصوصاً وسطی و جنوبی یمن میں بعض سنی قبائل نے القاعدہ کی حمایت کا اعلان کردیا۔ وجہ یہی کہ دونوں حوثیوں کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ القاعدہ ان قبائل کو وہ وسائل اور تحفظ دسے سکتی ہے جو انہیں منصور ہادی حکومت سے نہ مل سکے۔ قبائل کی حمایت کرکے القاعدہ کو قوت ملی اور اس نے بعض یمنی شہروں پہ قبضہ کر لیا۔ناصر الوحیشی القاعدہ یمن کے سربراہ ہیں۔

اُدھر حوثی بھی ایران کے علاوہ روس اور چین سے گفت و شنید کرنے لگے تاکہ اپنا اقتدار مستحکم کرسکیں۔ لیکن جو ملک بھی حوثیوں کا حمایتی بنا، اسے یمن پر خاصی رقم خرچ کرنا پڑے گی۔یمن کا شمار غریب ممالک میں ہوتا ہے۔ اس کی آدھی سے زیادہ آبادی خطِ غربت کے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ 50 فیصد سے زائد یمنی بنیادی سہولیات مثلاً صاف پانی ،بجلی وغیرہ نہیں رکھتے۔ غرض یمنیوں کو زندگی کی بنیادی ضروریات دینے کے لیے بھی کھربوں روپے درکار ہیں۔

ڈکٹیٹروں میں یکتا آمر
یمن کی حالیہ خانہ جنگی کا ذمہ دار کسی ایک شخصیت کو قراردیا جائے، تو خود بخود 73 سالہ علی عبداللہ صالح ذہن میں آجاتا ہے۔ یہ چالاک یمنی لیڈر 21 مارچ 1942ء کو صنعاء کے قریب واقع ایک قصبے، بیت الاحمار میں پیدا ہوا۔ آٹھویں جماعت میں تھا کہ شمالی یمن کی فوج میں بھرتی ہوا۔ اپنی عیاری اور افسروں کی چاپلوسی کے باعث ترقی کی منازل تیزی سے طے کیں۔

چرب زبانی اور اقربا پروری کے ذریعے فوجی افسروںاور قبائلی سرداروں کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔ چناں چہ 1977ء میں صوبہ تغر کا گورنر بن گیا۔ 1978ء میں علی عبداللہ کے سرپرستوں نے اسے شمالی یمن کا صدر بنا دیا۔ تب اسے اقتدار کے مزے اٹھانے کا چسکا ایسا لگا کہ وہ نیکی و بدی کی تمیز کھو بیٹھا۔



علی عبداللہ ''ڈبل گیم'' کھیلنے میں طاق ہے۔ دوست اسے اپنا ساتھی سمجھتے اور مطمئن رہتے ہیں ،جبکہ وہ خفیہ طور پر دشمنوں کی مدد کرنے میں مصروف ہوتا ہے۔ علی عبداللہ کی یہ چالاکی کئی بار عیاں ہوچکی۔ اسی لیے اسے ''یمن کی لومڑی'' کہا جاتا ہے۔

اقتدار سنبھالتے ہی علی عبداللہ نے اہم سرکاری عہدوں پر اپنے عزیز و اقارب اور دوستوں کو تعینات کردیا۔ نیز یمن کے اہم قبائلی سرداروں کو انعام و اکرام سے نوازنے لگا۔ یوں اس کی حکومت مضبوط ہوتی چلی گئی اور چالیس برس تک اسے کوئی نہ ہلاسکا۔ وہ بادشاہ کے مانند یمن پہ حکمرانی کرتا رہا۔

اس دوران علی عبداللہ نے اپنے ملک کا خزانہ جی بھر کر لوٹا۔ ہر سرکاری منصوبے کا مخصوص کمیشن اسی کی جیب میں جاتا۔ تیل و گیس اور دیگر شعبوں کی کمپنیوں کا ''فرض'' تھا کہ وہ کوئی سرکاری منصوبہ لینے سے قبل یمنی صدر کو رشوت دیں۔جب 2012ء میں علی عبداللہ نے اقتدار کو خیر باد کہا، تو موصوف کی لوٹ مار کا جائزہ لینے کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایک کمیٹی تشکیل دی۔ ارکانِ کمیٹی نے حال ہی میں سلامتی کونسل کو اپنی رپورٹ پیش کی ہے۔

رپورٹ کے مطابق ہر سرکاری سودے یا منصوبے میں صدر علی عبداللہ کا کمیشن مقرر تھا۔ چناں چہ وہ اپنے دور اقتدار میں ہر سال ''1 تا 2 ارب ڈالر'' (1 تا 2 کھرب روپے) بطور رشوت حاصل کرتا رہا۔ آج موصوف کے 32 تا 60 ارب ڈالر بیس ممالک کے بینکوں میں پڑے ہیں۔ حقیقتاً یہ کھربوں روپے غریب و مسکین یمنی عوام کے ہیں جن کی حالت ِزار سنوارنے کے لیے صدر علی عبداللہ اور اس کے چیلے چانٹوں نے کوئی سعی نہ کی۔

صدر علی عبداللہ دور اقتدار میں مسلسل علاقائی و عالمی طاقتوں کے ساتھ وفاداری تبدیل کرتا رہا۔ کبھی وہ روس کا حمایتی بنتا، کبھی امریکا کی حمایت کرنے لگتا۔ 1978ء سے 2001ء تک سعودی عرب کا مخالف رہا۔ پھر واقعہ 9/11 کے بعد آل ِسعود کا دوست بن گیا۔ چناں چہ طویل عرصہ سعودیوں کے مخالفین،حوثیوں سے نبرد آزما رہا۔ اس دوران اپنی ڈبل گیم بھی جاری رکھی۔ امریکیوں کو القاعدہ پر ڈرون حملے کرنے کی اجازت دی، دوسری طرف ایک پورا صوبہ شدت پسندوں کو دے دیا۔

2012ء میں صدر علی عبداللہ نے بادل نخواستہ استعفیٰ دیا لیکن اس کی سیاسی و عسکری قوت برقرار رہی۔ حکومت اور فوج میں اہم عہدوں پر اسی کے مقرر کردہ ایجنٹ فائز تھے۔ چناں چہ سرکاری خزانہ لوٹنے اوردیگر جرائم کے باوجود وہ معافی نامہ حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔

جب صدر منصور ہادی نے فوج اور حکومت سے علی عبداللہ کے حواریوں کو ہٹانا چاہا، تو دونوں کے مابین اقتدار کی خفیہ جنگ چھڑگئی۔ علی عبداللہ بظاہر منصور حکومت کا حامی بنارہا لیکن پوشیدہ طور پر اس نے حوثیوں کو بغاوت کرنے پر ابھارا اور اپنی ساری عسکری و سیاسی طاقت انہیں تفویض کردی۔ یوں جلد ہی حوثی شمالی یمن پر قابض ہونے میں کامیاب رہے۔گویا صدر ہادی کمزور رہنما ثابت ہوئے اور علی عبداللہ کی سازشوں کا مقابلہ نہیں کر سکے۔

لیکن اس بار بھی علی عبداللہ نے ''ڈبل گیمر'' ہونے کا ثبوت دیا۔ اس نے 23 مارچ 2015ء کو بیٹا، جنرل علی احمد سعودی عرب بھجوایا اور شاہ سلیمان کو پیغام دیا: ''اگر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (بینکوں میں موجود) میرے منجمند اثاثے بحال کر دے اور میرے سفر پر سے پابندیاں اٹھالے، تو میں حوثیوں کی حمایت سے دست بردار ہوجاؤں گا۔ مجھے پھر منصور ہادی بہ حیثیت صدر قبول ہوگا۔''

یوں صدر علی عبداللہ نے ثابت کردیا کہ وہ حقیقتاً زر و جاہ کا پجاری ہے اور ذاتی مفادات کے علاوہ اسے حلال حرام کی کوئی پروا نہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ درج بالا انکشاف کے بعد بھی یمنی عوام اسے یا اس کے جرنیل بیٹے کو بطور صدر قبول کرلیں گے؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں