مجھے کہنا ہے کچھ اپنی زباں میں
یہاں کون سی ایسی بورژوا جماعتیں ایسی ہیں جہاں واقعی جمہوریت نظر آئے۔
KARACHI:
چونکہ انسان سماجی حیوان ہے اس لیے ابتدا ہی سے جھنڈ بنا کر رہتا تھا، اسے غذا حاصل کرنے اور اپنے دفاع کے لیے خونخوار جانوروں سے بچنے کے لیے اجتماعی طور پر رہنے کی ضرورت تھی۔ یہی وجہ تھی کہ غذا کے حصول اور اپنے بچاؤ کے لیے ایک رائے بنانا ضروری تھا۔ یہ رائے متفقہ ہوسکتی تھی یا پھر اکثریتی۔ یہ رائے تھوپنے کے لیے نہیں بلکہ خودکار طور پر تسلیم کرنے اور عملدرآمد کرنے کے لیے تھی۔
سماجی شعور ارتقائی مراحل سے گزرتے ہوئے جب افلاطون کے وقت (پانچ سو سال قبل از مسیح) جمہوریت کے تحت عدالت قائم کی گئی تو ان میں کل ججوں کی تعداد ایک ہزار تھی اور اتفاق رائے سے فیصلہ ہوتا تھا۔ مگر اس جمہوریت میں غلام شریک نہیں ہوتے تھے۔
یہ جمہوریت غلام رکھنے والے آقاؤں کی جمہوریت تھی۔ ارسطو کے دور میں جمہوریت کو کچھ تقویت ملی یعنی متوسط طبقہ اور پڑھے لکھے شہریوں کو بھی رائے دینے کا حق ملا مگر غلاموں کو نہیں، جمہوریت کی ڈھال کو صاحب جائیداد طبقات اپنے مفادات کے لیے استعمال نہ کرتے تو بغاوت ہوتی، انقلاب آتا۔ اس جمہوریت کو بادشاہت، صدارتی، پارلیمانی اور اشتراکی، ہر جگہ استعمال کیا جاتا ہے۔ تیونس کا آمر زین العابدین، اسپین کا جنرل فرانکو، انڈونیشیا کا جنرل سوہارتو بھی اپنی آمریتوں کو جمہوری قرار دیتے تھے۔ مگر یہ ساری جمہوریتیں عملاً جبر کی علامتیں تھیں۔ اب ذرا پاکستان پر ایک نظر ڈالیں۔
یہاں کون سی ایسی بورژوا جماعتیں ایسی ہیں جہاں واقعی جمہوریت نظر آئے۔ یہ بات جان لینا چاہیے کہ جمہوریت بذات خود کوئی نظام نہیں ہے بلکہ کسی بھی نظام کو چلانے کا ایک ابتدائی طریقہ کار ہے۔ نظام ہے امداد باہمی کا آزاد معاشرہ (قدیم کمیونزم) پھر غلامانہ، جاگیردارانہ، سرمایہ دارانہ اور مستقبل میں پھر وہی امداد باہمی کا آزاد معاشرہ (جدید کمیونزم)۔
بورژوازی کی روایتی ریت ہے، اس لیے کہ ان کا سیاسی مقصد عوام کی بھلائی نہیں بلکہ منافع بٹورنے کا محض ایک ذریعہ ہے۔ اب بات کچھ اپنی ہوجائے یعنی بائیں بازو (کمیونسٹوں) کی۔ یہاں بھی اسی قسم کا سلسلہ ہے۔ پا کستان میں ایک گروپ ہے جو کہ آئی ایم ٹی (انٹرنیشنل مارکسسٹ ٹینڈنسی) کے نام سے کام کرتا ہے، جس کے اہم لیڈر لال خان ہیں۔
کراچی میں ان کا ایک وائسرائے پارس جان ہے۔ اب کراچی میں کوئی کچھ بھی کہتا رہے یا جمہوری رائے رکھے، فیصلہ اور حتمی اختیار کراچی کے سیکریٹری پارس جان کے پاس ہے، اس لیے کہ وہ مرکز کے نمائندے ہیں۔ پھر سوال یہی پیدا ہوتا ہے کہ جمہوریت صرف نعرے یا تقریروں کی حد تک ہے، عملاً مرکزیت ہے۔ اس تنظیم میں جو بھی معروف ہوتا ہے۔
جب ان کے جوہر باہر آنے لگتے ہیں، کارکنان پسند کرنے لگتے ہیں، پھر اسے کسی نہ کسی بہانے اس گروپ سے نکال دیا جاتا ہے، جیسا کہ فاروق طارق، خالد بھٹی، معروف آزاد، علی ناصر، شاہدہ جبین، اکرم گل، زوہیب بٹ، منظور چوہدری، ڈاکٹر ہریش کمار، ڈاکٹر زیار اور سیکڑوں باشعور اور باعمل معروف رہنماؤں کی چھٹی کردی گئی۔ کراچی میں ریاض حسین لنڈ بلوچ ایڈووکیٹ کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ یہ دہائیوں سے کمیونسٹ پارٹی میں کام کرتے رہے۔ ریاض حسین اسٹیل مل ڈیموکریٹک یونین کے رہنما تھے۔
پیپلز لائر فورم کے ڈپٹی جنرل سیکریٹری، پی ٹی یو ڈی سی کے مرکزی صدر اور شہید ذوالفقار علی بھٹو لا کالج مراد میمن ملیر کراچی کے پرنسپل ہیں۔ ریاض حسین لنڈ بلوچ 2008 کے عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی ملیر کے قومی اسمبلی حلقہ نمبر 257 کے نامزد امیدوار تھے، اور کمیونزم کے نعروں پر 47869 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے جب کہ ایم کیو ایم کے نامزد امید وار کو 38 ہزار ووٹ ملے تھے۔
مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ 38 ہزار دوسرے دن اچانک ایک لاکھ 38 ہزار ہوگئے اور ایم کیو ایم کے نمائندے کو کامیاب قرار دے دیا گیا۔ یہ کوئی نئی بات نہیں تھی، اس لیے کہ اس سے قبل 1951 میں لاہور میں کامریڈ مرزا ابراہیم اور بعد ازاں کامریڈ سوبھوگیان چندانی کو بھی ری کاؤنٹنگ کے ذریعے ہروایا گیا۔ ہمارے حکمرانوں کو تو اسمبلی میں ایک کمیونسٹ بھی برداشت نہیں۔ بہرحال اس مقبولیت، قربانیوں اور مالی معاونت کے باوجود کامریڈ ریاض حسین کو اس تنظیم نے انھیں دیوار سے لگادیا ہے۔
اسی انقلابی سیاست کی وجہ سے کامریڈ ریاض کے سینے اور پیٹ میں دہشت گردوں نے چار گولیاں ماریں اور وہ اب بھی زیر علاج ہیں۔ ایک تو انھیں اب بھی جمہوریت، تنظیم اور وفاداری پر بڑا ناز ہے۔ میں نے ان سے ملاقات میں پوچھا، آخر آپ کو کارنر کیوں کیا جارہا ہے، تو وہ پارٹیوں کی جمہوریت پر سادگی اور بے لوثی کی حد تک کچھ زیادہ ہی شنوائی کی توقع لگائے ہوئے ہیں۔ اسی وجہ سے مجھے کوئی بھی بات بتانے سے گریز کیا اور الٹا کہنے لگے کہ کانفرنس کامیاب رہی۔
بیس کروڑ کی آبادی میں دو ہزار آدمی لاہور میں جمع ہوجاتے ہیں، جس میں مشکل سے تین سو کمیونزم کے شعور سے لیس ہوتے ہیں، باقی دوستی یا تفریح کرنے چلے جاتے ہیں۔ کئی سال قبل ایک کانفرنس میں منشیات کے وفاقی وزیر نذر گوندل نے لال خان کے ذریعے ایک پیغام بھیجا تھا اور کانفرنس کے بعد آئی ایم ٹی کی مرکزی کمیٹی کے اجلاس میں لال خان نے فرمایا کہ نذر گوندل نے پیغام بھیجا ہے کہ میرا دل آپ کے ساتھ دھڑکتا ہے۔ اب یہ نہیں معلوم کہ یہ دل کمیونزم کے ساتھ دھڑکتا ہے یا کسی اورچیز کے ساتھ۔ کراچی میں پارس جان کے غیر جمہوری اور آمرانہ رویوں کی وجہ سے سو کارکنان کی جگہ پر اب پچاس بھی نہیں رہ گئے۔
کامریڈ ریاض حسین نے بطور پرنسپل شہید ذوالفقار علی بھٹو لا کالج مراد میمن گوٹھ ملیر کو قائم کیا اور ہزاروں طلبا کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کر رہے ہیں ، ان کی تعلیم کی جانب رغبت اور پسماندہ بستیوں میں اس کے فروغ میں اس حد تک عملی اقدام کرچکے ہیں اور کررہے ہیں جس کی مثال پاکستان کے کسی ادارے میں نہیں ملے گی۔
پاکستان کے سارے لا کالجوں سے یہاں کی فیس سب سے کم ہے۔ کالج کے تمام عملے کا سرکاری ادارے کے ذریعے لائف انشورنس کروایا ہے، اب طلبا کی لائف انشورنس، حادثات اور دیگر کوریج دلوانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ وہ بڑی جواں مردی، حوصلہ اور جرات کے ساتھ پسماندہ لوگوں اور طلبا کو تعلیم دلانے کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں، اور دوسری جانب وہ جس تنظیم میں رہتے ہوئے یہ سب کچھ کر رہے ہیں۔
وہ تنظیم میرے خیال میں انھیںنظر انداز کررہی ہے۔ مگر کامریڈ کے غیر متزلزل ارادے سے فخر محسوس ہوتا ہے، ان کا کہنا ہے کہ کمیونسٹ سماج کی تشکیل کے لیے جدوجہد اور انسانیت کی خدمت کسی کی میراث نہیں۔ یہ کام ساری دنیا کے کروڑوں انسان انجام دے رہے ہیں اور ہم بھی دیتے رہیں گے۔ وال اسٹریٹ قبضہ تحریک اور شکاگو کے شہیدوں نے اسے درست ثابت کیا۔ وہ دن دور نہیں جب جنگیں ختم ہوجائیں گی ، ملکیت ختم ہوجائے گی، سرحدیں ناپید ہوجائیں گی، پھانسیاں ختم ہوجائیں گی، اسلحہ ختم ہوجائے گا، طبقات ختم ہوجائیں گے، لوگ جینے لگیں گے، شاید اسی روز کامریڈ ریاض کا خواب بھی پورا ہوگا۔