آبدیدہ ہوگئے صلح نہیں کی
معاشرے میں عدم برداشت، بڑھتی مہنگائی اور مایوسی کے باعث طلاق کی شرح بڑھ رہی ہے
لاہور ہائی کورٹ میں ماں اور باپ کے درمیان بچوں کی حوالگی کیس کی سماعت ہوئی تو اس موقع پر چاروں بچے بھی عدالت میں پیش کیے گئے، اس موقع پر عدالت نے میاں بیوی کے صلح نامے کے بارے میں پوچھا تو بچوں کی ماں ناہید نے صلح نامہ کرنے سے صاف انکار کردیا، بچوں کے والد شہزاد نے عدالت کو بتایاکہ چاروں بچے ماں کے پاس نہیں رہنا چاہتے۔
وہ میرے ساتھ گھر جانے کو تیار ہیں، لہٰذا بچوں کو میرے ساتھ جانے کا حکم دیاجائے، عدالت نے 2 بچے ماں اور 2 بچے والد کی تحویل میں دینے کا حکم دے دیا، فیصلے سے قبل کمرہ عدالت کے باہر اس وقت انتہائی دلخراش مناظر دیکھنے میں آیا جب معصوم بچے کبھی اپنے والد سے لپٹ کر روتے اور کبھی اپنی والدہ سے، والدین اپنے معصوم بچوں کو روتا دیکھ کر خود بھی آبدیدہ ہوگئے تاہم انھوں نے پھر بھی آپس میں صلح نہیں کی۔
معاشرے میں عدم برداشت، بڑھتی مہنگائی اور مایوسی کے باعث طلاق کی شرح بڑھ رہی ہے جس سے بچوں کی زندگی پر بھی منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں، نئے شادی شدہ جوڑے ابتدا میں خوشگوار زندگی بسر کرتے ہیں لیکن چند سال بعد میاں بیوی کے اختلافات شدت اختیار کرجاتے ہیں اور میاں بیوی کا مضبوط رشتہ کمزور ہونے لگتا ہے، جب شوہر اور بیوی ذہنی طور پر رشتوں سے مایوس ہوجائیں، برداشت کرنے کا مادہ ختم ہوجائے اور خوشحال زندگی گزارنے کے تمام راستے بند ہوجائیں تو نوبت طلاق تک پہنچتی ہے۔ معاشرے میں بیشتر لوگ غربت و ناہمواری کو برداشت کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔
معاشی دباؤ کا شکار ہونے کی وجہ سے طلاق و خلع کے رجحان میں اضافہ ہورہاہے، شوہر اور بیوی کے مابین ذہنی ہم آہنگی کے فقدان بھی رشتوں میں دراڑ لارہا ہے، محبت کی شادی میں لڑکا اور لڑکی ایک دوسرے سے بے جا توقعات وابستہ کرلیتے ہیں اور جب شادی کے بعد توقعات پوری نہیں ہوتی تو اختلاف سامنے آنے لگتا ہے۔معاشرے میں طلاق کی بڑھتی شرح کی وجوہات میں بڑھتے اخراجات اور مہنگائی بھی ہے۔
جس پر شوہر اور بیوی میں ہونے والے جھگڑو ں کی نوبت طلاق تک پہنچ جاتی ہے، میاں بیوی کے مابین اعتماد نہ ہونے سے ازدواجی رشتے میں رنجش پیدا ہوتی ہے، جدید دور میں مرد و خواتین کے موبائل اور انٹرنیٹ میں مصروف رہنے سے غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں، والدین بچوں کی زبردستی شادی کراتے ہیں۔
نئے رشتوں میں ذہنی ہم آہنگی نہ ہونے سے بیشتر شادیاں ناکام ہورہی ہیں، والدین سے بغاوت کرکے گھر سے فرار ہوکر شادی رچانے والے جوڑے بھی کامیاب ازدواجی زندگی بسر کرنے سے قاصر رہتے ہیں، شادی کے بعد بیوی شوہر کی جانب سے لاپرواہی برداشت نہیں کرپاتی، شوہر سمجھتا ہے کہ بیوی ناراض ہوکر میکے نہیں جائے گی جس کا وہ ناجائز فائدہ اٹھاتا ہے۔
بیوی شوہر سے خفا ہوکر میکے یا شیلٹر ہوم جاکر خلع لیتی ہے، رشتے ٹوٹنے کی دیگر وجوہات میں بے اولادی، مرد کی دوسری شادی، والدین اور سسرال کی ہٹ دھرمی بھی ہے، ذرائع ابلاغ اور سول سوسائٹی نے خواتین میں حقوق سے متعلق شعور بیدار کیا ہے جس سے خواتین کو علم ہے کہ خلع برداشت نہ کریں۔
معاشرے میں عورت کا طلاق یافتہ ہونا معاشرے میں اچھی نگاہ سے نہیں دیکھاجاتا، طلاق یافتہ خواتین کی دوسری شادی انتہائی مشکل ہوجاتی ہے، طلاق یافتہ خاتون کی دوسری شادی کے بعد مسائل زیادہ پریشان کن ہوتے ہیں، اکثر دوسرا شوہر پہلے شوہر کے بچے قبول نہیں کرتا، طلاق سے قبل گھریلو جھگڑوں اور پھر میاں بیوی کی علیحدگی سے سب سے زیادہ منفی اثرات بچوں پر مرتب ہوتے ہیں، سوتیلے باپ یا ماں کے ناروا سلوک سے بچے احساس کمتری میں مبتلا ہوکر منفی سرگرمیوں میں ملوث ہوجاتے ہیں۔ میاں بیوی گاڑی کے دو پہیے ہیں، بچے کے بہتر مستقبل کی خاطر انھیں برداشت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
والدین کو بچوں کے سامنے لڑائی جھگڑوں سے گریز کرنا چاہیے، والدین اپنی بیٹیوں کو بوجھ نہ سمجھیں، شادی سے پہلے آنے والے رشتوں کو خوب جانچا جائے، والدین بچوں کی تربیت میں امتیاز روا نہ رکھیں، لڑکیوں کو تعلیم کے ساتھ ان کی پر اعتماد شخصیت پر بھی کام کیا جائے۔معاشرے میں طلاق کے بڑھتے ہوئے رجحان کو روکنے کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل نے تین طلاقوں کی شرعی حیثیت کا تعین کرتے ہوئے قرار دے رکھا ہے کہ ایک ہی وقت میں اور ایک ہی مرتبہ تین طلاقیں دینا خلاف شریعت اور قابل سزا جرم ہے، ایسا کرنیوالے کو سزا دی جاسکتی ہے جس کا تعین جج کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا ہے۔
جو اسٹامپ پیپر فروش تین طلاقیں اکٹھی تحریر کرے گا وہ بھی سزا کا مستوجب ہوگا۔ میاں بیوی کے درمیان اختلافات اور جھگڑے اتنے بڑھ جائیںگے کہ علیحدگی کے سوا کوئی چارہ کار نہ رہے تو اسلام طلاق کی اجازت دیتا ہے مگر اﷲ تعالیٰ کے نزدیک جائز امور میں سے یہ ناپسندیدہ ترین فعل ہے اور سنت رسولؐ کے بھی منافی ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی طلاق دینے کا مسنون طریقہ بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ''ایک وقت میں ایک ہی طلاق دی جاسکتی ہے، تینوں طلاقیں اکٹھی دینا خلاف سنت اور گناہ ہے، اس سے طلاق تو ہوجائے گی مگر چونکہ یہ گناہ ہے۔
اس لیے اکٹھی تین طلاقیں دینے اور لکھنے والے دونوں کو تعزیری سزا بھگتنا ہوگی''۔ ہمارے معاشرے میں ازدواجی زندگی سے متعلق شرعی مسائل سے ناواقف زود رنج لوگ اس گناہ کے مرتکب ہوتے رہتے ہیں۔ حکومت نے ایسی صورت حال کے تدارک اور خاندانوں کو اجڑنے سے بچانے کے لیے عائلی قوانین بھی نافذ کر رکھے ہیں جن کے تحت ہر طلاق کے درمیان ایک ماہ کا وقفہ رکھا گیا ہے تاکہ میاں بیوی کو مفاہمت کا موقع مل جائے یا ان کے بزرگ مصالحت کرادیں، یہ عمل تیسرے مہینے میں مکمل ہوتا ہے، طلاق ناگزیر ہو تو بھی اس کی درخواست مجاز اتھارٹی کو دینا ہوتی ہے۔
مگر دیکھا گیا ہے کہ ان قوانین پر کم ہی عمل ہوتا ہے، عموماً ایک ہی وقت میں تین مرتبہ طلاق کے الفاظ دہرا کر ایک آباد گھر کو اجاڑ دیا جاتا ہے، اس سے سب سے زیادہ نقصان طلاق یافتہ جوڑے کے بچوں کو ہوتا ہے، اسلامی نظریاتی کونسل نے اس ناپسندیدہ عمل کے مرتکب افراد کو سزا دینے کی سفارش کر کے مستحسن شرعی قدم اٹھایا ہے۔ حکومت کو اس پر عمل درآمد کرانا چاہیے۔