ہم نے وہ قرض اُتارے جو واجب بھی نہیں تھے

1971 میں جن لوگوں نے پاکستان کا ساتھ دیا وہ لوگ اب اُس محبت کے جرم میں قید و بند کی صعوبتیں جھیل رہے ہیں۔


بنگلہ دیش یعنی سابق مشرقی پاکستان میں پاکستان سے محبت کرنے والوں پر کیا گزرہی ہے یہ موجودہ پاکستان کے بے حس حکمران اندازہ نہیں کرسکتے۔ فوٹو: فائل

مال روڈ پر موسم کی رنگینیوں میں اپنے دوستوں کے ساتھ معمول کی خوش گپیوں اور کراچی الیکشن کی صورت حال پر گفتگو کر رہا تھا کہ اچانک موبائل فون پر پیغام ملا کہ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے اہم رہنما قمرالزمان کو سزائے موت دے دی گئی۔

یک لخت ایک جھٹکا لگا کہ کس جرم کی سزا ملی؟ 63 سالہ بزرگ سے کیا غلطی سرزد ہوئی؟ معلوم ہوا کہ 2010 میں حسینہ واجد کی جانب سے بنایا گیا نام نہاد انٹرنیشنل وار کرائمز ٹربیونل ہی اس کی ساری وجہ ہے۔ جس کو ایمنسٹی انٹرنیشنل اور عالمی ادارے پہلے ہی مسترد کرچکے ہیں کیونکہ اس کا واحد مقصد ہی اپنے سیاسی مخالفین کا صفایا کرنا ہے۔

1971ء میں مشرقی پاکستان ایک سازش کے تحت اور مغربی پاکستان کی غلطیوں کی وجہ سے الگ ہوا تھا جس میں ہمارے پڑوسی ملک کا بہت بڑا کردار تھا۔ مکتی باہنی کے ذریعے بنگالی پاشندوں کو پاکستان سے متنفر کیا گیا۔ پاکستان سے نفرت کا بیج ان کی دلوں میں بویا گیا اس بیج کی بیخ کنی کے لئے اِن لوگوں نے پاکستان آرمی کا ساتھ دیا۔ نوجوانوں نے قربانیاں دیں اور ایک محتاط اندازے کے مطابق دس ہزار سے زائد بنگالی نوجوانوں نے پاکستان بچانے کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔

1971 میں جن لوگوں نے پاکستان کا ساتھ دیا وہ لوگ اب اُس محبت کے جرم میں قید و بند کی صعوبتیں جھیل رہے ہیں اور صرف یہی نہیں بلکہ پھانسی کے پھندے کو بھی بخوشی قبول کررہے ہیں لیکن حکومت پاکستان کی جانب سے مسلسل خاموشی قابل افسوس ہے۔



محمد قمر الزمان کی سزائے موت پر دفتر خارجہ کی جانب سے مبہم بیان کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔ دفترخارجہ سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ بنگلہ دیش میں داخلی صورت حال کا محتاط طور پر جائزہ لے رہے ہیں اس سزا پر عالمی تنقید بھی مد نظر ہے۔

پاکستان اس وقت اسلامی ممالک میں ایک اہم مقام رکھتا ہے۔ دفاعی اور دیگر معاملات میں پاکستان قائدانہ کردار ادا کر رہا ہے۔ مگر حکومت کی جانب سے دفاعی موقف کا اظہار محب وطن پاکستانیوں کے لئے تکلیف کا باعث ہے۔ یہی نہیں ہزاروں پاکستانی ابھی بھی بنگلہ دیش میں محصورین کی طرح زندگی گزار رہے ہیں۔ اس بارے تو زبان خاموش ہے اور دل حکمرانوں کی بے حسی پر خون کے آنسو رو رہا ہے۔

بنگلہ دیش یعنی سابق مشرقی پاکستان میں پاکستان سے محبت کرنے والوں پر کیا گزرہی ہے یہ موجودہ پاکستان کے بے حس حکمران اندازہ نہیں کرسکتے۔۔ ڈھاکہ میں آج بھی ایک چھوٹا سا پاکستان موجود ہے۔ یہاں 50 لاکھ افغانیوں کو تو لایا جا سکتا ہے اور پناہ دی جا سکتی ہے لیکن بنگلہ بننے کے بعد 50 ہزار اصل پاکستانیوں کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا جاتا ہے اور بار بار کے وعدوں کے باوجود نہیں لایا جاتا۔ یہ دُکھ تو اپنی جگہ موجود تھا لیکن اب تو بنگلہ دیش کی متعصب، نا عاقبت اندیش اور ظالم حکومت متنازعہ ٹربیونل کے ذریعے ان پاکستانی لیڈروں کو پھانسی پر لٹکا کر مزید دکھ دے رہی ہے۔



یقینی طور پر ہم بے بس ہیں کہ ہم اپنے پیاروں کو نہیں بچا سکتے، نا ہی سفارتی طور پر کوئی مسئلہ حل کرسکتے ہیں، نا ہی ڈائیلاگ سے کسی کو قائل کرسکتے ہیں اور نا ہی طاقت استعمال کرسکتے ہیں اور نہ نام نہاد اقوام متحدہ کے ذریعے کوئی مسئلہ حل کرسکتے ہیں، یقینی طور پر ہم بے بس ہیں۔ مگر لائق تحسین ہیں وہ لوگ جو آج بھی حسینہ واجد کے ہر ظلم کو پاکستان سے محبت کی خاطر خوشی خوشی برداشت کررہے ہیں۔

پھانسی سے پہلے قمرالزمان کا بیان کہ وہ کسی دنیاوی عدالت میں اپیل نہیں کریں گے وہ اللہ کے ہاں اپنا مقدمہ پیش کریں گے، جو اُن کے سکون، حوصلے اور اطمینان کی علامت ہے۔ ابھی سوشل میڈیا پر قمر الزمان مرحوم کی بیٹی کی تصویر گردش کر رہی تھی جس میں وہ اپنے والد سے آخری ملاقات کے بعد گھر کی جانب روانہ ہو رہی ہیں۔ کیسا اطمینان، کیسا سکون اور انداز فاتحانہ، فتح کا نشان! یہ کوئی فتح کا موقع تو شاید نہیں لیکن ان کے لیے ایک پیغام ضرور ہے اور وہ یہ کہ جو زندگی لے کر یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ نظریے کو شکست دی جاسکتی ہے وہ غلط سمجھتے ہیں۔



اب تو قمرزمان پھانسی پر جھول گئے، لیکن نہ کوئی پشیمانی اور نہ کوئی واویلہ، نہ ہی خاندان کا ماتم، کچھ بھی تو نہیں۔ ایک طمانیت، ایک انداز و وقار اور اپنے رب کی رضا پر راضی۔ یہ ہے وہ نظریاتی پختگی اور اپنے رب کی جنت کے وعدے پر اعتبار کی عملی مثال۔

مجھے تو افتخار عارف کے اشعار بار بار یاد آرہے ہیں جو شاید انہوں نے بنگلہ دیش میں پاکستان کی محبت کی سزا پانے والوں کے نام ہی لکھے ہیں کیوں کہ موجودہ صورت حال کی بھرپورعکاسی کرتے ہیں؎
بیچ آئے سرِ قریہ زر جوہرِ پندار
جو دام ملے ایسے مناسب بھی نہیں تھے
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اْتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے

[poll id="353"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں