پاکستانیوں کو پاکستانی ماننے میں قباحتیں
ہر شہری کو شناختی کارڈ جاری کرنا حکومت کا فرض اور شہری کا بنیادی حق ہے
قومی شناختی کارڈ کسی شخص کے پاکستانی ہونے کا ثبوت ہے ہر شہری کو شناختی کارڈ جاری کرنا حکومت کا فرض اور شہری کا بنیادی حق ہے پاکستانی ہونے کے ناتے ہر شہری کو بہت سے حقوق حاصل ہوجاتے ہیں جن کی فراہمی اور تحفظ کی ذمے داری آئین فراہم کرتا ہے۔ پاکستان میں قومی شناختی کارڈ کے اجرا کے عمل کو شروع ہوئے تقریباً نصف صدی بیتنے کو ہے مگر آج تک تمام پاکستانیوں کو رجسٹرڈ نہیں کیا جاسکا یہ امر حکومتی اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔
آج بھی لاکھوں کی تعداد میں پاکستانی شہری شناختی کارڈ کے حصول کے لیے اس کی تجدید اور بچوں کے ب فارم وغیرہ کے لیے دفاتر میں دھکے کھاتے اور قطاروں میں لگے نظر آتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے ایجنٹوں کی خدمات حاصل کرنے اور سفارش تلاش کرتے پھرتے ہیں۔ شناختی کارڈ ایسی دستاویز ہے جس کی ضرورت و اہمیت ایک شہری کی پیدائش سے لے کر موت تک مسلم ہوچکی ہے۔
بچے کا پیدائشی سرٹیفکیٹ، اسکول کالج میں داخلہ، ملازمت بیرون ملک سفر، شادی بیاہ، طلاق، بینک اکاؤنٹ، اشیا اور جائیداد کی خرید و فروخت، وراثت کی تقسیم جیسے لاتعداد معاملات میں بلالحاظ عمر، جنس، مذہب و قومیت ہر ہر سطح پر اس کی ضرورت پیش آتی ہے۔ شہریوں کی یہ شکایت عام ہے کہ انھیں صحیح طرح گائیڈ نہیں کیا جاتا ہے غیر ضروری اعتراضات لگا کر شناختی کارڈ کے اجرا میں تاخیر کی جاتی ہے رشوت و سفارش بھی چلتی ہے۔
غیر ملکیوں کے شناختی کارڈ تو بن جاتے ہیں مگر پاکستانیوں کو تنگ کیا جاتا ہے کچھ عرصہ پیشتر شربت بی بی نامی خاتون اور اس کے دو بیٹوں کو قومی شناختی کارڈ جاری کردینے کا واقعہ بھی سامنے آیا تھا۔ یہ عورت 1984 میں پاکستان آئی تھی اس کے شوہر کے جعلی شناختی کارڈ اور جعلی تصدیق پر ایک دن میں اس خاتون اور اس کے دو بیٹوں کو شناختی کارڈ جاری کر دیے گئے جس میں رشوت یا سفارش کے علاوہ کوئی تیسرا عنصر بھی نہیں ہوسکتا۔ 56 سال سے زائد عمر کے حامل افراد کو تو تاحیات مدت تک کے لیے شناختی کارڈ جاری کیا جاتا ہے لیکن دیگر عمر کے افراد کو مختلف مدت کے لیے کارڈ جاری کیا جاتا ہے۔
لہٰذا مدت ختم ہونے پر لاکھوں کی تعداد میں شناختی کارڈ غیر موثر ہوتے رہتے ہیں جن کی تجدید کے لیے شہریوں کو ہر مرتبہ دفاتر کے چکر کاٹنا پڑتے ہیں۔ شناختی کارڈ کی تجدید کے سلسلے میں ATM کارڈ کی طرح خود کار طریقے سے یا متعلقہ شہری کے انگوٹھے کے نشان سے تصدیق کے ذریعے کہ وہ زندہ بھی ہے یا نہیں اس کے شناختی کارڈ کی تجدید کردینے کے طریقہ کار پر بھی غور کیا جانا چاہیے اس سے شہریوں کو بڑی سہولت میسر آسکتی ہے۔
شناختی کارڈ کے اجرا میں عموماً افغان مہاجرین اور بنگلہ دیشی تارکین وطن کو جواز بناکر غیر ضروری اعتراضات لگائے جاتے ہیں اور اس سلسلے میں پیچیدہ اور مبہم طریقہ کار حقیقی پاکستانیوں میں خوف و ہراس اور اذیت کا سبب بنتا ہے۔
اس صورتحال کا سب سے زیادہ سامنا کراچی کے شہریوں کوکرنا پڑتا ہے۔ جہاں دہرا تصدیقی عمل اختیار کرنے کی وجہ سے طویل عرصے سے بڑی تعداد میں شہریوں کے شناختی کارڈ زیر التوا پڑے ہیں، ہزاروں کی تعداد میں بلاک کیے جاچکے ہیں جب کہ ڈائریکٹر جنرل نادرا نے ایسی دہری تصدیق سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کراچی کے لوگوں کے لیے کوئی خاص قوانین یا طریقہ کار اختیار نہیں کیا گیا ہے ۔
ان کا کہنا ہے کہ اس شہر میں بڑے پیمانے پر جعلی شناختی کارڈ جاری کیے گئے ہیں جنھیں بلاک کیا گیا ہے اور اسی وجہ سے یہاں نیا شناختی کارڈ بنانے والوں کے بارے میں احتیاط برتی جاتی ہے خاص طور پر ایسے لوگوں کے لیے جنھوں نے خود یا ان کے والدین نے کبھی شناختی کارڈ نہیں بنوایا ہو۔
جب کہ اس کے برعکس عملاً دیکھنے میں آرہا ہے کہ خاص طور پر بنگالی زبان بولنے والے کمتر تعلیمی، معاشی اور سماجی حیثیت کے حامل باشندے جو بنگلہ دیش بننے کے بعد سے پاکستان کو اپنا مسکن بنائے ہوئے ہیں جن کے والدین کے شناختی کارڈ بھی موجود ہیں وہ اپنے شناختی کارڈ کی تجدید یا بچوں کے شناختی کارڈ یا ب فارم کے اجرا کے سلسلے میں غیر ضروری تحقیقات اور اعتراضات کا سامنا کرنے اور تفتیشی اداروں کے سامنے پیش ہونے پر مجبور کردیے جاتے ہیں۔
شناختی کارڈ کے اجرا میں ''احتیاط'' کے نام پر دہرے تصدیقی و تفتیشی عمل سے گزارنے ان کے شناختی کارڈ بلاک کردینے اور کئی کئی مہینے نادرا کے چکر کٹوانے کی وجہ سے ایجنٹوں کا کاروبار عروج پر ہے جو شہریوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں اور ان کے لیے مسائل بھی پیدا کر رہے ہیں پولیس بھی ڈرا دھمکا کر ایسے شہریوں سے رشوتیں وصول کرتی ہے۔
یہ دھندا بند ہونا چاہیے۔ راقم کو ایک سینما مالک نے رات کا شو ختم کرنے کی وجہ یہ بتائی کہ پولیس سینما کے اطراف میں بنگالی اور ریاستی(سرائیکی) فلم بینوں کو بلاوجہ تنگ کرتی ہے اور 500روپے رشوت لے کر چھوڑ دیتی ہے اس لیے مزدوروں کو یہ فلم 50 روپے کے بجائے 550 روپے میں پڑتی اور سینما کا کاروبار بھی متاثر ہوتا ہے۔
نادرا حکام یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ شناختی کارڈ کے حصول کے لیے کوئی بھی پاکستانی شہری کسی بھی شہر سے شناختی کارڈ کے لیے رجوع کرسکتا ہے مگر عملاً کراچی میں تو ایسا نہیں ہے اگر ایک ضلع یا ٹاؤن کا رہائشی کسی دوسرے ضلع یا ٹاؤن میں درخواست دیتا ہے اسے یہ کہہ کر انکار کردیا جاتا ہے کہ اپنے علاقے کے دفتر سے رجوع کرے۔
یہ اطلاعات بھی ہیں کہ وفاق کی جانب سے کراچی میں شناختی کارڈ بنوانے والوں کے لیے خصوصی ہدایات ہیں کہ یہاں کوئی بھی شناختی کارڈ اسسٹنٹ ڈائریکٹر کی تصدیق کے بغیر نہ بنایا جائے اس کے لیے پانچوں اضلاع میں خصوصی طور پر اسسٹنٹ ڈائریکٹر تعینات کیے گئے ہیں جس کی وجہ سے شناختی کارڈوں کے اجرا کا عمل سست روی کا شکار ہے۔
یہ شکایات بھی ہیں کہ این آر سی کا عملہ درخواست گزار کے کوائف، دستخط اور فوٹو لیتے وقت مناسب وقت دیے بغیر فوری طور پر پرنٹ نکال کر درخواست گزار سے تصدیق کروا لیتا ہے بعض پڑھے لکھے بھی بے سوچے سمجھے اس کی تصدیق کردیتے ہیں اور بعد میں اس کی تصحیح کے لیے دھکے کھاتے رہتے ہیں جب کہ بلاک کیے گئے شناختی کارڈ کے حامل شہری بھی عموماً اس بات سے لاعلم ہوتے ہیں کہ ان کا کارڈ کیوں بلاک کیا گیا ہے اس کو کس طرح کارآمد (Active)بنایا جاسکتا ہے اور اس کے حصول کا طریقہ کار کیا ہے نہ کوئی ان کی مناسب رہنمائی کرنے کو تیار ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نادرا مراکز پر موجود ہزاروں افراد اپنی آواز اعلیٰ حکام تک پہنچانے کے لیے ٹی وی چینلز اور اخبارات کی طرف لپکتے ہیں کہ شاید ان کے ذریعے ارباب اختیار ان کے مسائل کی طرف توجہ دیں۔
میڈیا اور این جی اوز کو اس انسانی مسئلے پر توجہ دینی چاہیے کیونکہ اپنے قانونی حق سے محروم بہت سے حقیقی پاکستانی شہری متعلقہ محکموں کے دھکے کھانے کے بعد مایوسی بددلی اور خوف کی وجہ سے شناختی کارڈ کے حصول کی کوششیں ترک کرکے گم نامی اور خوف کے سایے میں زندگی بسر کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔
ان کی اولاد کے کوائف بھی حکومتی اداروں کے پاس نہیں ہیں جو نہ صرف ان شہریوں اور ان کی اولاد اور آنے والی نسلوں کے لیے وراثتی، عائلی و دیگر بہت سے قانون، سماجی اور معاشی مسائل پیدا کرکے عذاب جان بن جائے گا بلکہ حکومت کے لیے بھی نامکمل ہوجائے گا کہ وہ اصل پاکستانیوں کی شناخت کرسکے اور مستقبل میں کسی کو لچک دینے کی صورت میں غیر قانونی و غیر ملکی افراد کے لیے پاکستانی شہریت حاصل کرنے کا دروازہ کھل جائے گا۔
پاکستان ایک اسلامی جمہوری و فلاحی ریاست ہے جس کے تحت حکومت کی آئینی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کے بنیادی انسانی و قانونی حقوق کا تحفظ و دفاع کرے ان کا اطلاق و نفاذ یقینی بنائے مگر افسوس کا پہلو یہ ہے کہ حکومتوں کی ترجیحات و توجہ کا مرکز ان کے اپنے ذاتی و سیاسی مفادات و معاملات ہی رہتے ہیں البتہ بالا عدالتیں گاہے بہ گاہے شہریوں کے حقوق کی پامالی اور ان سے کی جانے والی ناانصافیوں پر ازخود کارروائی کرکے حکومتوں اور حکومتی اداروں کو ہدایات و احکامات جاری کرتی رہتی ہیں جس سے شہریوں کی کچھ اشک شوئی ہوجاتی ہے۔
عدلیہ شناختی کارڈوں کے اجرا کے پیچیدہ اور مبہم و دہرے طریقہ کار اور بدانتظامی و کرپشن سے پیش آنے والی دشواریوں پر ازخود کارروائی کرکے لاکھوں نہیں کروڑوں شہریوں کو درپیش دشواریوں اور خصوصاً مستقبل میں پیش آنے والی پریشانیوں سے نجات دلاسکتی ہے۔