سال نو مبارک

سسرال، میکے، عزیز و اقارب، دوست احباب سب ہی سے تعلقات متاثر۔ نہ کسی مہمان کا آنا گوارا، نہ خود کسی کے یہاں جانا پسند۔


رضوانہ قائد April 15, 2015
علم کے’’سوداگروں‘‘ نے تعلیم کو ’’تجارت‘‘ بنا ڈالا۔نتیجتاً ’حصول آرزو‘‘ کی نئی جہتیں متعارف ہوئیں۔ فوٹو: فائل

KARACHI: سالِ نو مبارک ہو!! آپ سوچ رہے ہونگے کہ سال کے بیچ میں مبارک؟ جی ہاں ۔۔۔ تعلیمی سالِ نو مبارک ۔۔۔۔ ننھے و نوعمر طالبعلموں اور ان کی ماوں کو ۔۔۔ اپریل کے آغاز تک ملک کے بیشتر اسکولوں میں ابتدائی جماعتوں سے لیکر جماعت ہشتم (VIII) تک امتحانی نتائج کے اعلان کے بعد نئے تعلیمی سال کا آغاز ہوچکا ہے۔



بہترین مستقبل کی غرض سے اچھے سے اچھے تعلیمی اداروں میں شاندار تعلیم اور فخریہ نتائج۔ آج کے دور میں والدین، خصوصاََ ماوں کی اولین خواہش نظر آتی ہے۔ اس تمنا کی تکمیل اور مسابقت (Competition) نے ماوں اور بچوں دونوں کو ہی ہلکان کررکھا ہے۔ امتحانات ہوں یا اچھے تعلیمی ادارے میں داخلہ ٹیسٹ کی تیاری، گھر میں گویا ایک ''ہنگامی صورتحال'' کااعلان ہوگیا۔

سسرال، میکے، عزیز و اقارب، دوست احباب سب ہی سے تعلقات متاثر۔ نہ کسی مہمان کا آنا گوارا، نہ خود کسی کے یہاں جانا پسند۔ خوشی، غمی، عیادت، تعزیت سب گراں گزرتا ہے۔بہرحال، بچوں اور ماوں کی یہ قابل قدر ''قربانیاں'' رنگ لے آئی ہیں اور اِس کا ثبوت، ہمارے ارد گرد، برساتی موسم کے خود رو پودوں کی مانند وجود میں آنے والے نت نئے اور مہنگے ترین تعلیمی اداروں کی بہتات اور مسابقانہ تعلیمی قابلیت (بلندتر شرح نتائج) ہے۔

ابتدائی تعلیمی اداروں سے لے کر پیشہ ورانہ تعلیمی اداروں تک، طالب علموں کی ایک فوجِ ظفر موج مقابلے کے لئے تیار، پھر سرکاری اداروں کی ''کمی'' کو پورا کرنے کی خاطر، نجی شعبہ بھی اس ''کاروباری میدان'' میں کود پڑا۔ علم کے''سوداگروں'' نے تعلیم کو ''تجارت'' بنا ڈالا۔نتیجتاً، کوچنگ سینٹرز، داخلہ ٹیسٹ کی تیاری کے مراکز، ماہر اساتذہ کی تربیت کے مراکز اور مہنگے داخلہ فارم کی صورت میں ''حصول آرزو'' کی نئی جہتیں متعارف ہوئیں۔

اس ''تعلیمی ترقی'' نے تعلیمی میدان تجارت کے دونوں فریقوں (تعلیم فراہم کرنے اور تعلیم حاصل کرنے والوں کو مسابقت میں مستعد کردیا۔ ملک کے سرکاری و نیم سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں سے، ہر سال ہزاروں کی تعداد میں ڈاکٹرز، انجینئرز، دانشور، وکلاء، محققین، مختلف شعبہ جات کے ماہرین اور اساتذہ، اعلی اعزازات کے ساتھ تعلیمی اسناد وصول کرکے میدان عمل میں آرہے ہیں۔ ''ڈگری ڈگری'' کے اس کھیل نے تعلیم کو ''حقیقی علم'' سے دور کردیا۔ تعلیم کی ترقی کے باوجود، علم کے ''اصل جوہر'' سے ناآشنائی کے باعث، قومی ادارے ان کی صلاحیتوں سے کوئی قابل ذکر فائدہ نہ اٹھا سکے۔ ماضی قریب میں جب ملک میں اس قدر تعلیمی ادارے اور ''اعلیٰ تعلیم یافتہ'' افراد نہ تھے۔ مگر قومی اور معاشرتی ادارے اس تنزلی کا شکار نہ تھے جیسا کہ موجودہ صورتحال ہے۔

بچوں کو جدیدیت کا مقابلہ کرنے والی دانشورانہ و پیشہ ورانہ تعلیم کی یقینا ضرورت ہے، مگر دورِ حال کی عارضی کامیابی و خوشحالی کی خاطر مستقبل کی لازوال راحتوں کو نظر انداز کردینا تو نہایت ''حقیر سودا'' ہے۔ عارضی مستقبل کے لئے، کثیر تعلیمی اخراجات، مہنگے ترین تعلیم ادارے، وقت، محنت، صلاحیت، سب حاضر، مگر دائمی مستقبل کے لئے چند سو روپے کی فیس کے قاری صاحب، 30/25 منٹ میں قرآن کا سبق اور سال دوسال میں مبارکباد و تحائف کی وصولی کے ساتھ ''ختم ِقرآن'' پر قرآن کی تعلیم کا اختتام۔

گزشتہ چند سالوں میں اس تعلیم میں اگر کچھ ترقی ہوئی ہے تو آخرت میں حافظِ قرآن کے والدین کے سونے کے تاج پہننے کے شوق میں بچوں کا حفظِ قرآن ہے۔ اس شوق نے حفاظِ قرآن کی تعداد میں تو اضافہ کردیا مگر معاشرے میں پھیلی ظلم و جہالت کی تاریکی اور مغرب کی مغلوبیت پھر بھی کم نہ ہوسکی۔

مسلمان کی زندگی امامت سے عبارت ہے۔ خدائی وعدے کے مطابق مسلمان قوم دنیا کی تمام اقوام کی امام (قائد) ہے۔ مگر غفلت اور مغلوبیت کے باعث ہر سمت ابتلاو آزمائش سے دوچار ہے۔ اس مغلوبیت و غفلت کے خاتمے اور نشاۃ ثانیہ کے لئے درحقیقت وہ ''علم'' درکار ہے جس کا آغاز سب سے بڑے انسان کی جانب سے ''اقرا'' سے ہوا تھا۔ اِس علم نے قلیل عرصے میں زبردست مسابقت کے ساتھ طالبعلموں کے سیرت و کردار میں عظیم انقلاب برپا کردیا تھا۔ وہ دنیا کے عارضی فوائد اور لذتوں کے پیچھے دوڑنے والے نہ تھے۔ وہ آفاقی علم کی روشنی میں اپنی مسابقت کا درست رخ متعین کرکے صراط مستقیم کے راہ رو تھے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ اس وقت کے مرکز جاہلیت کو ''سپر پاور'' میں تبدیل کرنے پر قادر ہوئے اور عرصہ دراز تک ان کی علمیت اور شان و شوکت سے دنیا مرعوب رہی۔

تاریخ گواہ ہے کہ ''جس وقت بغداد، غرناطہ اور قرطبہ کی جامعات میں علماء کے قلم سے علمی شاہکار پھوٹ رہے تھے، اُس وقت یورپ نے کاغذ کی شکل تک نہ دیکھی تھی۔'' (اسلامی تہذیب کے چند درخشاں پہلواز ڈاکٹر مصطفی سباعی)

ہمارا درخشاں ماضی آج بھی ہمارے لئے مشعل ِراہ ہے۔ علم کا دور رس فائدہ، تعلیم کو ''ہمہ وقت'' جدید اور دائمی علم سے مربوط کرنے میں ہے۔ حکومتی سطح پر اس قدام کے لئے مشکلات اور مسائل درپیش ہوں گے۔ مگر والدین کی اس جانب توجہ کے لئے صرف ایک احساس اور اخلاص درکار ہے۔ قرآنی علم کو صرف پڑھائی سے بڑھ کر اس کے احکامات کو سیکھنا ہوگا اور نظام زندگی کی حیثیت سے ہر سطح پر اختیار کرنا ہوگا۔ پھر بہتر مستقبل کے لئے بہتر تعلیم کی مسابقت ''حقیقتاً'' بار آور ہوگی۔ پھر ہمارے شاندار ماضی کی یہ دستک ہمارے تابناک مستقبل کو بیدار کرے گی۔
نکل کے صحراسے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہوگا

[poll id="357"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں