خود فراموشی کا عجب عالم ہے

زندگی اگر مشکل نہ ہوتی تو شاید ہی خوبصورت منزلوں کا حصول ممکن ہو پاتا۔


Shabnam Gul April 16, 2015
[email protected]

زندگی اگر مشکل نہ ہوتی تو شاید ہی خوبصورت منزلوں کا حصول ممکن ہو پاتا۔ ہر مشکل ہر تکلیف اپنے اندر احساس کی وسیع دنیا سمیٹے ہوئے ہوتی ہے۔ دکھ، تکلیف اور پریشانیاں انسانی زندگی کے لیے ناگزیر ہیں۔ یہ روز مرہ زندگی کا حصہ ہیں۔ یہ انسان کو سوجھ بوجھ اور خود شناسی کا جوہر عطا کرتی ہیں۔

کیونکہ انسان ان مشکلات سے نکلنے کے لیے راستہ تلاش کرتا ہے اور کھوج کے سفر پر نکل کھڑا ہوتا ہے، لیکن انسان چونکہ سہل پسند واقع ہوا ہے۔ لہٰذا وہ کٹھن اور پرخطر راستوں پر چلنے سے گھبراتا ہے، اور ذہنی دباؤ کا شکار ہو جاتا ہے۔ تفکر، پریشانی یا تشویش اپنے اندر عدم تحفظ، بے سکونی اور شک کا عنصر لیے ہوتی ہے۔ انسان بیرونی عوامل کی وجہ سے اتنا پریشان نہیں ہوتا جتنا اسے اپنا ذہن یا سوچ ستاتی ہے۔

مسائل کی ہر طرف بھرمار ہے۔ کچھ مسئلے خود ساختہ ہیں۔ اور کچھ حالات کی سنگینی کا پیش خیمہ بن جاتے ہیں۔ دونوں ہی صورتیں حل طلب ہیں۔ مسائل پیچیدہ ہوں یا معتدل اپنی بھول بھلیوں میں راستہ رکھتے ہیں۔ یہ انسان کی پرکھنے کی صلاحیت پر منحصر ہے کہ وہ منزل کی طرف جانے والا راستہ کیسے ڈھونڈ نکالتا ہے۔ غیر حقیقی طرز عمل اور سوچ مسائل کی سوجھ بوجھ سے عاری کر دیتے ہیں۔

ذہنی دباؤ جسم کے پورے نظام پر اثرانداز ہوتا ہے۔ یہ کیفیت مزاج کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ مزاج کے اتار چڑھاؤ کے بہت سے رخ سامنے آتے ہیں۔ غصہ، ڈپریشن اور اینگزائٹی جنھیں عام طور پر فکرمندی، تشویش اور غمگینی کہا جاتا ہے۔ اس وقت لاحق ہوتے ہیں جب دشواری، خطرہ اور سنگین حالات جن سے انسان گزرتا ہے۔

ایسی صورتحال میں فکر، تشویش اور بے زاری و غمگینی فطری عمل ہے۔ لیکن اس وقت کے گزر جانے کے بعد انسان کو سوچ سمجھ اور سوجھ بوجھ سے ماضی سے نکل جانا چاہیے۔ اس کیفیت میں الجھے رہنے سے متعدد ذہنی و جسمانی بیماریاں آگے چل کر ان لوگوں پر حملہ آور ہو جاتی ہیں اور یہ افراد اہل خانہ پر ہر طرح سے بوجھ بن جاتے ہیں۔ لیکن جب ہم بہتر حالات میں ہوتے ہیں، اس وقت خوف، ڈر، پریشانی، تشویش اور غمگینی خود ساختہ مسئلے بن جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک شخص ایک کھلی جگہ اندھیرے اور خوفناک جانوروں کے حملے سے خوفزدہ ہے تو اس کا خوف ایک حقیقت ہے۔

اس کی تمام تر کیفیات سچائی پر مبنی ہوتی ہیں۔ ان لمحوں میں اس کا ڈر کسی صورت واہمہ نہیں ہوتا۔ خوف کے مقابل کھڑا شخص ان لمحوں کو جھیلنے کا حوصلہ رکھتا ہے۔ اس کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوتا۔ لیکن ایک شخص آرام دے کمرے اور ایک محفوظ و روشن گھر میں اندھیروں اور اندیشوں سے خوفزدہ ہے تو میری نظر میں یہ خوف ایک لگژری (آسائش) ہے۔ خوف یا ڈر کا حقیقی تجربہ اتنا خطرناک نہیں ہوتا جتنا اس کی سوچ تباہ کن ہوتی ہے۔ جو انسانی خلیوں کی صحت اور کارکردگی کو براہ راست متاثر کرتی ہے۔ انسان کو بے بنیاد خوف، واہمے، منفی سوچ اور ذہنی دباؤ کی مستقل کیفیت شدید نقصان پہنچاتی ہے۔

کام کی زیادتی بھی بعض اوقات ذہنی دباؤ کا سبب بن جاتی ہے۔ یہ انسان کو خود طے کرنا ہے کہ اسے کتنا کام کرنا چاہیے۔ دراصل مادیت پرستی کے اس دور میں پیسہ ہی وہ واحد مقصد ہے، جس کی تکمیل کے لیے انسان ازحد پریشان ہے۔ آمدنی کے غلط ذرایع اور پیسہ کمانے کے غیر منصفانہ راستے انسان کے لیے بے اطمینانی کا سبب بنتے ہیں۔ جھوٹ، بے ایمانی اور دھوکا جو انسانی احساس میں نقب لگاتے ہیں، جن کی وجہ سے رابطوں میں دراڑیں پڑ جاتی ہیں۔ یہ رویے شک، عدم تحفظ اور قیاس آرائیوں کو جنم دیتے ہیں۔ یہ منفی رویے آج جان لیوا بیماریوں کی وجہ بن چکے ہیں۔

پر آسائش زندگی، سہل پسندی اور مختصر راستوں سے کامیابی حاصل کرنے کے طریقے ذہنی دباؤ کا سبب بنتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سچ اور سادگی کا راستہ اچھی صحت اور طویل عمر کی ضمانت بن جاتا ہے۔ جب کہ جھوٹ، بناوٹ، دنیاداری اور بے ایمانی ذہنی و جسمانی امراض کو دعوت دیتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ہم منفی رویوں پر مصلحت پسند بن جاتے ہیں اور وقت پر ظلم، ناانصافی اور حق تلفیوں کے خلاف آواز نہیں اٹھاتے جس کی وجہ سے ایک دن برائی کا بیج تناور درخت بن جاتا ہے۔ لیکن فطرت یا قانون قدرت ان تمام تر حق تلفیوں، ظلم، تشدد اور بے ایمانی کے خلاف متحرک رہتا ہے۔ یہ ردعمل غیر محسوس ہوتا ہے۔

ایک سچا واقعہ گوش گزار ہے۔ ایک خاتون نے بتایا کہ ان کے شوہر کا انتقال ہوگیا۔ کافی عرصے تک دیور وغیرہ خاموش رہے اور یتیم بھتیجوں کے سر پر ہاتھ نہ رکھا۔ لیکن ایک دن انھیں خیال آیا اور یتیموں کی دیکھ بھال کرنے لگے۔ تھوڑے ہی عرصے میں ان کی غیرآباد زمین جو ہر ممکن کوشش کے باوجود سرسبز نہیں ہوسکی تھی یکایک لہلہانے لگی اور دیکھتے ہی دیکھتے گھر خوشی اور خوشحالی سے مہک اٹھا۔ انسان حق تلفی چاہے رشتوں کی کرتا ہو یا اس کی غیر منصفانہ سوچ یا رویے انسانیت کا دامن تار تار کرتے ہوں کبھی بھی سکون کی نیند نہیں سو سکتا۔ اگر ترقی یافتہ ملکوں نے چند اچھے اصول اپنا رکھے ہیں تو اس کی وجہ پس پردہ یہ سوچ ہے کہ جھوٹ یا بے ایمانی خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔

جیسے کہا جاتا ہے کہ غصہ وہ انگارہ ہے، جو سب سے پہلے پھینکنے والے کے اپنے ہاتھ جلاتا ہے۔ انسان کو غلط کرتے وقت احساس ہونا چاہیے کہ وہ بہت غلط کر رہا ہے۔ لیکن اگر ضمیر وقت پر خاموش ہے تو وہ بے اطمینانی اور غلط کام کی خلش لاشعوری طور پر انسان کو بے چین کیے رکھتی ہے۔ قانون قدرت خوبصورتی، توازن، اعتدال، حقیقت پسندی اور سچائی پر مبنی ہے۔ لیکن انسان کی لالچ، حرص وہوس ان قوانین کو تہس نہس کرکے رکھ دیتی ہے۔

فقط جسم کی خواہشات کی تکمیل کے لیے سوچا جائے اور روح کی ضروریات مستقل نظرانداز ہوتی رہیں تو معاشرے اخلاقی بدنظمی و افراتفری کا شکار ہوجاتے ہیں۔ امریکا میں رہائش پذیر میری دوست ہفتے میں ایک دن اپنے تنہا اپاہج پڑوسی کی اچھی دیکھ بھال کرتی ہے۔

اس دن وہ اسے اسپتال لے جاتی ہے۔ اسے وہ عمل ہفتے کے تمام دنوں میں خوش و مطمئن رکھتا ہے۔ ہماری حالت یہ ہے کہ ہم اپنے گھر کے افراد کے ذہنی و جسمانی مسائل سے بے خبر رکھتے ہیں۔ ایک دوسرے کے قریب بیٹھنا اور دل کا احوال بانٹنا قصہ پارینہ ہوچکے۔ پڑوسیوں کی تکلیف سے غافل ہوئے ہمیں سالوں بیت گئے۔ بوڑھے تنہا اور لاغر لوگوں سے ملنے کوئی نہیں جاتا۔ مصروف دنوں میں جن کے اردگرد لوگوں کا جم غفیر رہا کرتا تھا۔ رکی، ٹھہری اور خستہ حال زندگی سے ہمیں کوئی رغبت نہیں رہی۔ چڑھتے سورج کے پجاری ہیں، جو خواہشوں کی تقلید میں اندھا دھند دوڑ رہے ہیں۔

انسانیت کا سرنگوں ہو تو ہوتا رہے۔

ہم احساس کی زرخیزی کھو چکے ہیں۔ کام کو بوجھ سمجھتے ہیں۔ اپنی ذات کو بھی فراموش کر چکے ہیں۔ فقط ترغیبات کی چکا چوند ہمیں یاد رہتی ہے۔ لہٰذا یہ ذہنی دباؤ بھی اجنبیت، لاتعلقی، حقائق سے پہلو تہی اور سچائی سے منہ موڑ لینے کی سزا ہے۔ ہمارے باغ ویران پڑے ہیں مگر اسپتال پر رونق نظارہ پیش کر رہے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔