اداکارہ سنگیتا کامیاب ہدایتکارہ کیسے بنی
میری امی اورابا کوبھی یہ کہانی اچھی لگی ہےاوراس کہانی میں میرےساتھ میری چھوٹی بہن کویتا بھی اچھی طرح ایڈجسٹ ہوسکتی ہے۔
لاہور میں انارکلی کا علاقہ بہت ہی بارونق ہے جہاں شاپنگ بازار کے علاوہ کھانے پینے کی چیزیں بھی افراط سے ملتی ہیں انارکلی ہی کے اطراف میں ایک جگہ ایسی بھی ہے جہاں فٹ پاتھ کے علاوہ زمین پر بھی کتابوں کے ڈھیر لگے ہوتے ہیں۔
ایک دن میں یہاں کتابیں کھنگال رہا تھا کہ مجھے پرانی کتابوں کے ڈھیر میں راجندر سنگھ بیدی کا ناول ''اک چادر میلی سی'' اور ڈی ایچ لارنس کا شہرہ آفاق Lady Chatterley's Lover (لیڈی چیٹرلیز لَور) مل گئیں۔
میں نے اسی رات دونوں ناول پڑھ ڈالے مجھے ''لیڈی چیٹرلیز لَور'' اتنی پسند آئی کہ میں نے اس کی تھیم سے انسپائر ہو کر ایک فلمی کہانی کا تانا بانا بھی بن لیا اور دو صفحات پر لکھ کر اس کہانی کا ایک نام بھی منتخب کر لیا ''میں چپ رہوں گی'' پھر ایک دن اداکارہ سنگیتا کو میں نے وہ دونوں ناول پڑھنے کے لیے دیے اور ساتھ ہی میں نے دو صفحات پر مشتمل 'میں چپ رہوں گی' کا پلاٹ بھی یہ کہہ کر اسے تھما دیا کہ اگر چاہیں تو ابھی پڑھ کر بتائیں کہ کیسی کہانی ہے۔
سنگیتا نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ وہ کہانی پڑھی اور پھر میری طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ کہانی کا پلاٹ بہت خوبصورت ہے اور تم نے یہ نام بھی بہت اچھا تجویز کیا ہے۔ اس کہانی کے ساتھ ایک بہترین فلم بن سکتی ہے۔ دو تین دن کے بعد سنگیتا سے دوبارہ ملاقات اس کے آفس میں ہوئی تو سنگیتا کے ساتھ اس کی امی مہتاب بیگم نے بھی کہانی اور ''میں چپ رہوں گی'' کے نام کو بھی بہت پسند کیا۔ پھر سنگیتا نے بتایا کہ اس نے راجندر سنگھ بیدی کا ناول ''اک چادر میلی سی'' مصنف و ہدایت کار اقبال رضوی کو دے دیا ہے کہ وہ اسے فلم کے اسکرپٹ کی شکل دے دیں۔
پھر سنگیتا نے بڑی رازداری کے ساتھ مجھے بتایا کہ یونس ہمدم! اب میں نے پکا ارادہ کر لیا ہے کہ میں اپنی ذاتی فلم ''تیرے میرے سپنے'' کے بعد بطور ہدایت کارہ اپنے نئے کیریئر کا آغاز کروں گی۔ اپنے فیصلے کا میں نے اپنے والدین سے تذکرہ کر دیا ہے اور انھیں رضامند بھی کر لیا ہے۔ اور ہاں میں آیندہ ہفتے فلم ''تیرے میرے سپنے'' کی آخری شوٹنگ کی غرض سے مری جا رہی ہوں، یہ آخری شوٹنگ اور تمہارا لکھا ہوا گیت میں تجرباتی طور پر خود ڈائریکٹ کروں گی میں نے ہدایت کار اقبال رضوی کو بھی اپنے فیصلے سے آگاہ کر دیا ہے اور وہ اس آخری اسپیل کی شوٹنگ میں میری سپرویژن کریں گے اور میرا حوصلہ بڑھائیں گے۔
پھر سنگیتا نے کہا۔ کیوں نا تم بھی ہمارے فلم یونٹ کے ساتھ دس بارہ دن کے لیے مری چلو۔ تم نے جو کہانی کا پلاٹ سنایا ہے تم دس بارہ دن وہاں توجہ کے ساتھ ''میں چپ رہوں گی'' کا پورا اسکرپٹ مکمل کر لینا اور ہو سکے تو مکالمے بھی لکھ لینا کیونکہ ''تیرے میرے سپنے'' کے بعد میرے پاس تین مکمل اسکرپٹ ہو جائیں گے ایک تمہارا لکھا ہوا، ایک اقبال رضوی مکمل کر دیں گے اور ایک پہلے ہی میرے پاس ''سوسائٹی گرل'' کے نام سے خوبصورت اسکرپٹ موجود ہے جو ایک سال سے میرے پاس ہے اور جسے رائٹر آغا حسن امتثال کے معاون سید نور نے لکھا ہے۔ ''سوسائٹی گرل'' کی کہانی دو بہنوں کے گرد گھومتی ہے۔
میری امی اور ابا کو بھی یہ کہانی اچھی لگی ہے اور اس کہانی میں میرے ساتھ میری چھوٹی بہن کویتا بھی اچھی طرح ایڈجسٹ ہو سکتی ہے۔ سید نور کی بھی یہ انڈی پینڈنٹ پہلی فلمی کہانی ہو گی جو اس نے میرے ادارے پی۔ این۔ آر (پروین۔ نسرین، رضا) پروڈکشن کے لیے خاص طور پر لکھ کر دی ہے۔ سید نور کئی بار استفسار کر چکا ہے کہ میری کہانی کا کیا ہوا۔ میں نے اسے بتا دیا ہے کہ تم بے فکر ہو جاؤ ''تیرے میرے سپنے'' کی نمائش کے بعد میں سب سے پہلے اسی کی کہانی کو سیٹ پر لاؤں گی پھر پائپ لائن میں کئی اور بھی کہانیاں ہیں۔
اقبال رضوی بھی لکھ رہے ہیں اور اب تم جو کہانی ''میں چپ رہوں گی'' لکھو گے وہ بھی میں ہی بناؤں گی، اب میں اپنی مرضی کے مطابق کہانیاں لکھواؤں گی، اپنی مرضی سے کردار ادا کروں گی، اب تک میرے ساتھ کئی ہدایت کاروں نے بے انصافی کی ہے فلم شروع ہونے سے پہلے میرا کردار مجھے کچھ سناتے ہیں اور پھر فلم کی شوٹنگ ہونے کے بعد میرے کردار میں رد و بدل کردیتے ہیں جس سے میری بڑی دل شکنی ہوتی تھی مگر ہدایت کار کے ہاتھوں مجبور ہو جاتی تھی یہی وجہ ہے کہ اب میں نے خود ہدایت کار بننے کا پختہ فیصلہ کر لیا ہے۔ اب میں اپنی ساری کشتیاں جلا کر اپنے نئے سفر کا آغاز کروں گی۔
پھر سنگیتا نے میری طرف دیکھتے ہوئے فیصلہ کن انداز میں کہا۔ یونس ہمدم! ''تیرے میرے سپنے'' کی شوٹنگ کے دوران تم بھی ہمارے ساتھ مری میں رہو گے۔
یہ دس بارہ دن کا اسپیل ہو گا۔ آخری دن لوکیشن پر تمہارا لکھا ہوا گانا میں خود ڈائریکٹ کروں گی، اور لوکیشن پر تم بھی ہمارے ساتھ رہنا اور پھر ایک ہفتے کے بعد میں بھی مری میں موجود تھا۔ فلم ''تیرے میرے سپنے'' کی شوٹنگ روزانہ نتھیا گلی اور مری کے دیگر خوبصورت علاقوں میں ہوتی رہی فلم کا یونٹ صبح سویرے ہی لوکیشن پر پہنچ جاتا تھا۔ آخری دن میرا لکھا ہوا گیت ''میں ہو گئی دلدار کی'' سنگیتا پر فلمایا جا رہا تھا اور اس گانے کے شاٹ بھی سنگیتا خود بنا رہی تھی۔ پھر کیمرے کی آنکھ سے دیکھتے ہوئے مطمئن ہو کر ہدایت کاری کے فرائض بھی خود انجام دے رہی تھی۔
یہ سنگیتا کی ہدایت کاری کا آغاز تھا۔ فلم کے مصنف و ہدایت کار اقبال رضوی لوکیشن پر سنگیتا کے حوصلے کی داد بھی دے رہے تھے اور معاونت بھی کر رہے تھے میں بھی اقبال رضوی کے ساتھ لوکیشن پر موجود اپنے گیت کی فلم بندی سے محظوظ ہو رہا تھا۔ گانے کی شوٹنگ کے دوران کئی بار ہلکی ہلکی پھوار بھی برستی رہی، اس دوران شوٹنگ روک دی جاتی تھی پھر جب پانی سے بھرے بادل آگے چلے جاتے تھے اور ہلکی ہلکی بارش رک جاتی تھی تو شوٹنگ دوبارہ شروع کر دی جاتی تھی۔
لوکیشن پر چھوٹی بڑی چھتریوں کا بھی بڑا اچھا انتظام تھا شوٹنگ کے دوران آسمان پر قوس قزح کے رنگ بھی نمودار ہو گئے تھے اور یہ اس گیت کی خوش قسمتی تھی کہ یہ رنگ اس گیت کا حصہ بنتے چلے گئے اور اس گیت کی فلم بندی اور خوبصورتی میں مزید اضافہ ہو گیا تھا۔ فلم کا یونٹ بارہ دن کے بعد شوٹنگ مکمل کر کے لاہور واپس آ گیا تھا۔ سنگیتا نے بڑی تیز رفتاری کے ساتھ فلم کی فائنل ایڈیٹنگ مکمل کرائی کیونکہ فلم کی ریلیز ڈیٹ کا اعلان ہو گیا تھا اور ڈسٹری بیوٹر نے فلم کے لیے مین سینما بھی بک کر لیا تھا۔
مذکورہ فلم کی دن رات ایڈیٹنگ کر کے جب اسٹوڈیو میں فلم کا پہلا افتتاحی شو چلایا گیا تو دستور کے مطابق اسٹوڈیو کی چیدہ چیدہ فلمی شخصیتوں نے شرکت کی اور سب نے فلم دیکھ کر اپنی پسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے فلم کے ہٹ ہونے کی پیش گوئی بھی کی۔ پھر جب فلم ''تیرے میرے سپنے'' نمائش کے لیے پیش ہوئی تو پہلے ہی ہفتے میں اس نے میدان مار لیا۔ فلم مجموعی طور پر کامیابی سے اس حد تک ہمکنار ہوئی کہ فلم ''تیرے میرے سپنے'' نے نہ صرف گولڈن جوبلی بلکہ پلاٹینم جوبلی بھی کی اور اس طرح سنگیتا نے اپنے ذاتی فلمساز ادارے کی دھاک بٹھاتے ہوئے دوسری فلم ''سوسائٹی گرل'' کا اعلان کر دیا۔
سنگیتا نے اس فلم میں اداکار محمد علی کو اپنے مد مقابل کاسٹ کر لیا اور سائننگ اماؤنٹ بھی دے دیا مگر جب محمد علی کو یہ پتہ چلا کہ ''سوسائٹی گرل'' کی ڈائریکشن بھی اداکارہ سنگیتا خود دے گی تو اداکار محمد علی نے سائننگ اماؤنٹ کی رقم یہ کہہ کر واپس بھجوا دی کہ سنگیتا کو اپناڈائریکٹر بننے کا فیصلہ واپس لے لینا چاہیے مگر سنگیتا پختہ ارادہ کر چکی تھی اس نے اپنا فیصلہ تبدیل نہیں کیا بلکہ محمد علی کی جگہ کراچی سے آئے ہوئے نئے اداکار غلام محی الدین کو ''سوسائٹی گرل'' میں ہیرو کاسٹ کر لیا۔
غلام محی الدین نیا نیا آیا تھا اسے فلمی دنیا میں اپنے قدم جمانے کے لیے اچھی فلموں کی ضرورت تھی اور سنگیتا کے ادارے کی پہلی فلم سپرہٹ ہو چکی تھی۔ ''سوسائٹی گرل'' کی کہانی سید نور کی لکھی ہوئی تھی اور فل فلیش رائٹر کی حیثیت سے سید نور کی بھی یہ پہلی فلم تھی جس کی ہدایت کارہ ایک خاتون تھی۔
سنگیتا سے پہلے میڈم نور جہاں، میڈم زینت اور نامور اداکارہ شمیم آرا بھی ہدایت کارہ بن چکی تھیں، ہدایت کارہ بنتے ہی سنگیتا کو سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ اسے کئی فلمسازوں اور خاص طور پر کئی بڑے ہدایت کاروں نے اپنی فلموں میں کاسٹ کرنے سے عدم دلچسپی ظاہر کر دی اور فلمی حلقوں میں یہ بات گردش کرنے لگی کہ سنگیتا نے ہدایت کارہ بن کر اپنے پیروں پر خود کلہاڑی ماری ہے مگر وقت نے یہ ثابت کر دیا کہ سنگیتا کا فیصلہ درست تھا پھر سنگیتا ایک کامیاب ترین ہدایت کار بن گئی تھی۔