حوا کی بیٹیاں
جہالت، ناخواندگی اور پسماندگی معاشرے کے ایسے ناسور ہیں جنھوں نے معاشرتی بنیادوں کو بہت زیادہ دھچکا پہنچایا ہے
ISLAMABAD:
جہالت، ناخواندگی اور پسماندگی معاشرے کے ایسے ناسور ہیں جنھوں نے معاشرتی بنیادوں کو بہت زیادہ دھچکا پہنچایا ہے، دنیا میں وہ کون سی قوم ہے جو کہ پڑھے لکھے مہذب اور سلجھے ہوئے افراد پر مشتمل معاشرے کا خواب نہیں رکھتی۔
اس خواب کی تعبیر کے لیے وہ اپنے افراد کو بہتر تعلیم و تربیت دے کر انھیں اچھی زندگی گزارنے کے لیے تیار کرتی ہے تا کہ معاشرے میں تہذیبی و اخلاقی انتشار پیدا نہ ہو سکے، کوئی فرد کسی دوسرے پر کوئی ظلم، زیادتی و تشدد نہ کرے، معاشرے میں تمام لوگ مل جل کر پیار و محبت، عزت و احترام اور برابری کی سطح پر زندگی بسر کریں جس میں مرد عورت کے درمیان کوئی امتیازی سلوک روا نہ رکھا جائے لیکن تمام معاشروں کی ان کوششوں کے باوجود بد قسمتی سے تمام کے تمام معاشرے خواہ ان کا تعلق ترقی پذیر ممالک سے ہو یا ترقی یافتہ ممالک سے سب کے سب اخلاقی ابتری کی منہ بولتی تصویر بن کر رہ گئے ہیں۔
ظلم و زیادتی تشدد ان کی رسم بن گئی ہے، عورتوں پر تشدد تو ان کے لیے معمول سی بات ہے، ترقی یافتہ ممالک میں امریکا ہی کو دیکھ لیں۔ اس معاشرے کے اکثر افراد کے نزدیک بھی عورتوں پر تشدد ناپسندیدہ فعل نہیں ہے۔ ایک سروے رپورٹ کے مطابق امریکا میں ہر سال ہزاروں خواتین شوہر اور دوستوں کے ہاتھوں موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔
گزشتہ 10 برس کے دوران اسپتالوں کے ایمرجنسی وارڈز میں آنے والی عورتوں کی بڑی تعداد وہ تھی جو گھریلو تشدد کا شکار ہوئیں، عورتوں پر تشدد کرنے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے جب ہم یورپی ممالک سے جنوبی ایشیائی ممالک کی جانب آتے ہیں تو جنوب ایشیائی ممالک میں بھارت وہ ملک ہے جس میں عورتوں پر تشدد کی انتہا کر دی جاتی ہے، بھارت کا ہندو معاشرہ وہ معاشرہ ہے جہاں بیوی کو شوہر کی چتا کے ساتھ زندہ جلا دیا جاتا تھا اس غیر انسانی رسم کو ''ستی'' کی رسم کہا جاتا تھا اور آج بھی ہندوستان میں ستی کی رسم کو اچھا سمجھنے والے موجود ہیں، ہندو معاشرے میں بیوہ عورت کی تو کوئی عزت نہیں ہوتی اور اس بیچاری کو منحوس تصور کیا جاتا ہے۔
جنوبی ایشیائی ممالک میں پاکستان جو کہ اسلام کے نام پر حاصل کیا جانے والا اسلامی ملک ہے افسوس کہ یہاں پر شروع دن سے ہی اسلامی احکامات و قوانین سے انحراف کیا جاتا رہا ہے اور کیا جا رہا ہے اور تشدد کرنے میں پاکستان کسی دوسرے ملک سے پیچھے نہیں ہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے تحت 1999ء میں ایک رپورٹ سامنے آئی جس کے مطابق صرف ایک سال میں غیرت کے نام پر قتل مجموعی طور پر پنجاب میں 888 تھے جس میں نوے فی صد خواتین تھیں۔
ان کو سیاہ کاری کے نام پر بھینٹ چڑھایا گیا اور سندھ میں ''کاری'' کے نام پر قتل ہونے والی 364 تھیں جب کہ 188 خواتین شدید زخمی ہوئیں، افسوسناک بات یہ ہے کہ نام نہاد غیرت پر قتل کی گئی عورتوں میں بڑی تعداد بے قصور اور بے گناہ خواتین کی ہے۔ ایک انگریزی جریدے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے کئی علاقوں میں کم سن لڑکیوں کو عمر رسیدہ مردوں کے ہاتھ رسم و رواج کا سہارا دے کر شادی کے نام پر بیچ دیا جاتا ہے اور اس کو برادری کے رواج کے مطابق درست کہا جاتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق دیہاتوں میں لڑکیوں کی اس طرح سے شادیوں کی تین بڑی وجوہات ہیں ان میں غربت، جہالت اور ناہموار معاشرتی نظام شامل ہیں۔ باپ اکیلے یا دوسرے رشتے داروں سے مل کر لڑکی کی شادی کے اخراجات جہیز یا اپنے قرض اتارنے کے لیے ایک مخصوص رقم مقرر کرتا ہے اور ان تمام فیصلوں میں نہ صرف لڑکی کو فریق نہیں سمجھا جاتا بلکہ خاندان کی کسی بھی عورت کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا حتیٰ کہ لڑکی کی ماں بھی خاموش تماشائی بنی ہوتی ہے۔
عورت کی حالت زار کو بہتر بنانے کے لیے آج سے چودہ سو سال قبل محسن انسانیت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم نے خصوصی اقدامات کیے، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم پر وحی نازل ہونے سے پہلے عورت مرد کے ظلم و ستم کی چکی میں پستی تھی، روز مرتی تھی اور روز جیتی تھی، مرد و عورت کو حق وراثت سے محروم کر سکتا تھا۔ عورت خود اپنی کمائی اپنے اوپر آزادانہ خرچ کرنے کا حق نہیں رکھتی تھی حضورؐ نے خواتین کو جس طرح تحفظ عطا فرمایا اور عورتوں اور مردوں کو برابر حقوق عطا فرمائے خواتین کو جس طرح تحفظ دیا دنیا کی پوری تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم نے فرمایا ''عورتیں مردوں کے دل پسند پھول ہیں، اس پھول کر مسل کر برباد نہ کرو'' اسلامی تعلیمات کے برعکس ہمارے معاشرے میں مرد عورتوں پر تشدد کا رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں گھریلو زندگیوں میں مرد عورتوں پر جسمانی تشدد تو کرتے ہی ہیں ساتھ ساتھ وہ عورتوں کو زبانی اور نفسیاتی تشدد کا نشانہ بھی بناتے ہیں۔
لمحہ لمحہ ذہنی طور پر پریشان رہنے سے وہ نفسیاتی عوارض میں مبتلا ہو جاتی ہیں، ایسے میں مرد معاشرے میں عورتوں پر ہونے والی زیادتیوں اور ان پر ہونے والے تشدد کو دیکھ کر خود اپنے آپ سے پوچھ سکتے ہیں، اپنے اندر جھانک کر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم کی تعلیمات اور معاشرے میں اس کے برعکس طرز عمل کا اچھی طرح سے مشاہدہ کر سکتے ہیں۔