ہمارا ادبی منظر نامہ جریدہ اور دوسری کتب پہلاحصہ
علم و ادب کے حوالے سے موجودہ دورکی نابغہ روزگار شخصیات میں سے ایک قد آور شخصیت جناب حیدر قریشی کی بھی ہے
علم و ادب کے حوالے سے موجودہ دورکی نابغہ روزگار شخصیات میں سے ایک قد آور شخصیت جناب حیدر قریشی کی بھی ہے تھوڑا ہی عرصہ ہوا ہے جب ان کی 992 صفحات پر مشتمل کتاب بعنوان ''ہمارا ادبی منظر نامہ'' موصول ہوئی۔ مذکورہ کتاب تحقیق و تنقیدی تحریروں سے آراستہ ہے، نامور ادیبوں کی نثری اور شعری تخلیقات پر روشنی ڈالی گئی ہے اور بڑی سچائی ، خوبصورتی اور مہارت کے ساتھ قلم کاروں کی نگارشات پر خامہ فرسائی کی ہے ۔
حیدر قریشی نے اپنی محنت، لگن اور اپنی تخلیقی و تعمیری صلاحیتوں کی بدولت شعر و ادب کے گلشن میں منفرد اور صدا بہار پودے لگائے اور پھر ان کی نشوونما میں زندگی کے بہت سے سال اور بہت سا وقت دان کیا تب کہیں جاکر گوہر مراد ہاتھ آیا ہے۔
محترم ایک طویل عرصے سے جرمنی میں مقیم ہیں اور (ادب کی بستیاں بسانے میں انھوں نے نمایاں کردار ادا کیا ہے یہی وجہ ہے کہ ادبی دنیا سے تعلق رکھنے والا ہر شخص حیدر قریشی کے کام اور نام سے واقف ہے، حیدر قریشی کی ادب سے جنون کی حد تک محبت کرنے کے نتیجے میں 27 کتابیں (اوریجنل ورک) شائع ہوچکی ہیں یہ کتابیں شاعری، افسانے، خاکے ، یاد نگاری، سفر نامہ، انشائیہ نگاری اور ماہیا کی تحقیق و تنقید سے سجائی اور سنواری گئی ہیں۔
مصنف نے کالم بھی لکھے ہیں حالات حاضرہ پر لکھے گئے کالموں کے مجموعے اور متفرق تنقیدی مضامین کے 6 مجموعے اشاعت کے مرحلے سے گزرچکے ہیں، محققین و ناقدین نے مصنف کی صلاحیتوں کا اعتراف برملا کیا ہے اور ان کی فن و شخصیت، فکر وفن،ادبی خدمات اور انٹرویوز پر 8 کتابیں گوشے اور یونیورسٹی کی سطح پر ایم فل کے 5مقالات ہند وپاک میں اور پی ایچ ڈی کا مقالہ، سال 2013، گلبرگہ یونیورسٹی،کرناٹک انڈیا میں شائع ہوا شاید ایسے ہی لوگوں کے لیے علامہ اقبالؒ نے کہا ہے کہ ''بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا''
اگر میں زیر مطالعہ اور تحریر کے قالب میں ڈھالنے والی کتاب کو ادب کا انسائیکلو پیڈیا کہہ دوں تو میرے خیال کے مطابق غلط نہیں ہوگا، ہاں اعتراض ضرور ہوسکتا ہے کہ پوری دنیا میں بے شمار قلمکاروتخلیق کار موجود ہیں اور آسمان ادب پر ایسے ایسے درخشندہ ستارے روشن ہیں جن کی آب و تاب آنکھوں کو چندھیادیتی ہے۔
لیکن بات پھر وہ ہی اقربا پروری اور مفاد پرستی کی آجاتی ہے کہ اہل دانش اور اہل قلم محض اپنی جھوٹی انا اور اپنی بڑائی کے احساس کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کی روشنی کو اپنے آپ سے اس طرح بچاتے ہیں جس طرح چھوت کی بیماری سے ایک صحت مند انسان اپنے آپ کو دور رکھنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن سب ایسے نہیں ہیں اچھے اور وسیع النظر حضرات بھی موجود ہیں اور دیے سے دیا جلانے پر یقین رکھتے ہیں۔
''ہمارا ادبی منظر نامہ'' کا انتساب ڈاکٹر وزیر آغا اور ڈاکٹر انور سدید کے نام ہے گویا ابتدا بھی ڈاکٹر وزیر آغا سے ہوئی ہے اور میرے خیال کے مطابق اختتامیہ بھی ڈاکٹر وزیر آغا عہد ساز شخصیت کے عنوان سے ہوا ہے جب کہ حیدر قریشی نے اختتامیہ ''ہمارا ادبی منظر نامہ'' میں اپنے افکار وخیالات کی وضاحت کی ہے۔
حیدر قریشی نے ڈاکٹر وزیر آغا کو ایک عہد ساز شخصیت کہا تو بالکل درست کہا کہ سارا زمانہ ان کے علم وکمال کا معترف ہے، ایسا عزت و مرتبہ کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے یقینا وہ اپنی ذات میں اکیڈمی کا درجہ رکھتے تھے، جہاں ادب کے طالب علم ان کی علمیت و آگہی سے استفادہ کرتے، حیدرقریشی کا یہ شعر وزیر آغا کی زندگی اور علمیت وقابلیت کے اعتبار سے بالکل موزوں ہے۔
جو اپنی ذات میں سمٹا ہوا تھا
سمندرکی طرح پھیلا ہوا تھا
حیدر قریشی علمی لحاظ سے ڈاکٹر وزیر آغا کو اپنا استاد اور رہنما سمجھتے ہیں، وہ لکھتے ہیں کہ ان کی تنقید اور فکر سے میں نے ادبی رہنمائی حاصل کی، میں افسانے لکھے تو انھوں نے قدم قدم پر مجھے شاباش دی، حوصلہ افزائی کی اور مفید مشورے بھی دیے، یہ ان دنوں کی بات ہے جب 1978 کے آخر میں ''جدید ادب'' کتابی سلسلے کے اجرا کا پروگرام بنا تو حیدر قریشی اپنے آبائی شہر خانپور سے لاہور آئے جہاں دوستوں کی محبت اور ادبی تعاون نے انھیں حوصلہ بخشا ،مزید کام آسان ڈاکٹر انور سدید کے ذریعے ہوگیا اور انھوں نے ہی ڈاکٹر وزیر آغا سے ملنے اور علمی و فکری تعلق رکھنے کی راہ ہموار کی۔
انھوں نے کوائف اور ان کی شعری و ادبی کارگزاری پر مکمل اور بھرپور طریقے سے مضمون لکھا ہے جسے پڑھ کر قاری کے علم و فکر میں اضافہ ہوتا ہے، ببانگ دہل حیدر قریشی نے بہت سے جعلی قلمکاروں کو بھی بے نقاب کیا ہے یہ یقینا حوصلے کی بات ہے، سچ وہ ہی شخص بول سکتا ہے جو صرف اور صرف اﷲ سے ڈرتا ہے چونکہ ہر کام اﷲ کے حکم سے ہی ہوتا ہے یقینا ایسا شخص صاحب ایمان کہلاتا ہے۔ بہر حال ایک جعلی شاعرہ کا بھی ذکر ہے جو حال ہی میں پاکستان آئی تھیں۔
''ڈاکٹرگوپی چند نارنگ اور مابعد جدیدیت اس مضمون میں ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کے سرقوں کی جھلک کے حوالے سے شکاگو سے محمد عمر میمن نے بذریعہ ای میلز کے ڈاکٹر حیدر قریشی کی جرأت کو اس طرح داد دی ہے کہ آپ کی متعدد تحریریں پڑھ ڈالیں اور آپ کی ہمت کو داد و تحسین کہ آپ ڈٹے ہوئے ہیں جب آدمی کی اپنی غرض وابستہ نہ ہو اور حق گوئی کا عزم بھی ہو تو پھر کام اسی بے باکی سے ہوتا ہے، شمس الرحمن فاروقی ، شمیم حنفی، احمد ہمیش مرحوم نے بھی حیدر قریشی کی سچ کی روشنی میں چمکتی ہوئی تحریروں کو سراہا ہے۔
احمد حسین مجاہد لکھتے ہیں کہ ادھر نارنگ کی دھومیں مچی ہوئی ہیں یہ شرمناک حرکتیں نارنگ صاحب ہی نہیں کرتے بلکہ اور بھی کئی صاحبان انگریزی ادب سے بہت کچھ ترجمہ کرکے اپنے نام سے پیش کررہے ہیں، نارنگ صاحب تو اپنے عظیم سرقے پر ایوارڈ بھی وصول کرچکے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی کچھ مضامین اور کتابوں پر تبصرہ اصل صورت حال سے آگاہ کرتا ہے یعنی جو جیسا نظر آتا ہے وہ ویسا ہرگز نہیں ہے مجھے حیرت ہوتی ہے کہ آخر جھوٹی شہرت حاصل کرکے دلی خوشی کیوں کر ممکن ہے اور ضمیر کی آواز کا گلا گھوٹنا بھی اتنا آسان نہیں، لیکن اگر حقیقت کی نگاہ سے دیکھا جائے تو اس دنیا میں سب کچھ ممکن ہے ہر شخص اپنی سوچ کے مطابق اپنا کام کر ڈالتا ہے۔
ادبی منظر نامے میں پڑھنے کو بہت کچھ ہے، معلومات، فہم و ادراک کے خزانے کی شکل میں موجود ہیں۔ سوچتی رہی کہاں سے پڑھو اورکہاں ختم کروں؟لیکن کوئی بھی تحریر چھوڑنا ناممکن تھا کہ پوری کتاب ہی قابل مطالعہ ہے۔ ''آج کی جدید اردو نظم'' کے حوالے سے بڑی اچھی نظمیں پڑھنے کو ملیں، ادا جعفری کی نظم پڑھی:
''مرے بچے جب، جب مجھے دیکھنا چاہو،تو بس اپنی طرف دیکھو، تمہارے لب پر حرف صداقت ہے، یہی میں ہوں، تمہارے دل میں جو ناز جسارت ہے، یہی میں ہوں، نگاہوں میں جو ایک طرز عبارت ہے یہی میں ہوں، محبت کی طرح میں بھی ہوں، بے پایاں، کبھی ظاہر کبھی پنہاں، جہاں تم ہو وہاں تک میری خوشبو ہے، وہاں میں ہوں مرے بچے،،
(جاری ہے)