یہ کیا ہو رہا ہے
سعودی عرب نےسات اتحادیوں کےساتھ یمن پر فضائی حملےکیےتو امریکا اوربرطانیہ سمیت کئی سامراجی ملکوں نےاس حملےکی حمایت کی۔
عالمی سرمایہ داری انتہائی انحطاط پذیری کا شکار ہے، جرمنی، روس، امریکا، چین اور برطانیہ سمیت پوری سرمایہ دار دنیا بے روزگاری اور افراط زر کی شکار ہے، جرمنی کی سب سے اچھی معیشت کہلاتی ہے ، اس جرمنی میں 60 لاکھ افراد بے روزگار اور شرح نمود(Growth Rate) 2 فی صد ہے۔ اس کے علاوہ تیز تر ترقی کرتی ہوئی چین کی معیشت کی صورت حال یہ ہے کہ 25 کروڑ افراد بے روزگار ہیں اور شرح نمود 11 فی صد سے گھٹ کر 6.8 فی صد پر آگئی ہے۔
اس بے روزگاری کے خلاف جرمنی میں لاکھوں افراد احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے اور چین میں گزشتہ برس سوا لاکھ بار مزدوروں اورکسانوں نے مظاہرے کیے، پہلی اور دوسری عالمی جنگوں میں امریکا کا نقصان نہیں ہوا، بلکہ زیادہ نقصان یورپ کو اٹھانا پڑا۔
سعودی عرب نے سات اتحادیوں کے ساتھ یمن پر فضائی حملے کیے تو امریکا اور برطانیہ سمیت کئی سامراجی ملکوں نے اس حملے کی حمایت کی۔ مگر سیکیورٹی کونسل میں جب روس نے یمن پر حملے روکنے کی قرارداد پیش کی ۔ ترکی، ایران اور پاکستان نے جب سعودی عرب اور یمن کے درمیان مصالحت کرانے کا موقف اختیارکیا اور دنیا بھرکی رائے عامہ جنگ کے خلاف ہوگئی تو یمن پر سعودی حملے کی امریکا اور برطانیہ کو دوبارہ حمایت میں بیان دینے کی جرأت نہ ہوئی۔
وینزویلا وہ واحد ملک ہے جس نے یمن پر سعودی حملے کے خلاف اپنا سفیر ریاض سے واپس بلالیا۔ اس نے پہلے بھی جب اسرائیل نے فلسطین پر بمباری کی تو اسرائیل سے اپنا سفیر واپس بلالیا تھا۔
ان ہی عالمی حالات کے اثرات پاکستان پرجا پڑے ہیں یہاں کی ساری پارٹیاں نان ایشوز پرکھڑی ہیں، عوام کے مسائل سے بہت دور بلکہ کوسوں دور۔ پاکستان پیپلزپارٹی جوکہ سوشلزم کا نعرہ دے کر اقتدار میں آنے کے بعد ذوالفقارعلی بھٹو نے بیان دیا تھاکہ امریکا کمیونزم کو روکنے کے لیے برسوں تک جو کچھ کر نہیں پایا میں نے چند دنوں میں کر دکھایا (حوالہ فارایسٹرن اکانومسٹ) عالمی طور پر سامراج مخالف ابھار اور تحریک کی وجہ سے تقریباً بیشتر ملکوں میں نیشنلائزیشن کا عمل شروع ہوچکا تھا۔
اس لیے بھٹو نے بھی کرنل جمال عبدالناصر، سوئیکارنو، شیخ مجیب کی طرح پاکستان میں ہی نیشنلائزیشن (قومیانے) کا عمل شروع کیا۔ مگر بعد ازاں بے نظیر بھٹو، نواز شریف اور پرویز مشرف نے نجکاری شروع کردی۔ اب پی پی پی کے کارکنان بلاول بھٹو سے توقع لگائے بیٹھے ہیں جب کہ بلاول بھٹو آئی ایم ایف، ورلڈ بینک کے قرضہ جات کو بحق سرکار ضبطگی اور دفاعی اخراجات کی کمی پر دم بخود ہیں۔
یہی صورت حال تحریک انصاف کے عمران خان اور ایم کیو ایم کے الطاف حسین کی ہے، یہ بھی ان دونوں نکات پر خاموش ہیں۔ مسلم لیگ ن، جے یو آئی، ق لیگ اور جماعت اسلامی بھی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قرضوں کی ضبطگی کی بات نہیں کرتیں اور نہ دفاعی بجٹ میں کمی کی بات کرتی ہیں جس طرح عالمی حالات کروٹ بدل رہے ہیں اسی طرح پاکستان کی ساری پارٹیاں اپنا موقف اور اتحادی بدلتی رہتی ہیں۔
اقتدار میں آنے سے پہلے مسلم لیگ ن نجکاری کے خلاف بات کرتی تھی اور اب ان کی حکومت نے فیصلہ کرلیا ہے کہ توانائی کے شعبوں اور اسٹیل مل کی 2015 تک نجکاری کردی جائے گی اس میں حیران ہونے کی کوئی بات نہیں، پہلے بھی یکم مئی کی چھٹی منسوخ کردی گئی تھی اور ابھی تک منسوخ ہی چل رہی ہے، قادر پور آئل اینڈ گیس کی نجکاری کے خلاف الطاف حسین نے سخت بیان دیا تھا اور اسے نجکاری کرنے سے روکنے کی بات کی تھی مگر اب واپڈا، اسٹیل مل اور توانائی کے شعبوں کی نجکاری کے خلاف بولنے سے خاموش ہیں۔
کل تک پی پی پی، ایم کیو ایم کی اتحادی تھی مگر آج پی پی پی تحریک انصاف کے قریب نظر آتی ہے اور نواز لیگ کا ایم کیو ایم کی جانب جھکاؤ نظر آتا ہے۔ کل تک پی ٹی آئی کے عمران اسماعیل کی گاڑی پر ڈنڈے برسائے گئے تو دوسرے دن ایم کیو ایم کے کارکنان ان پر پھول نچھاور کرتے ہیں۔ پختونخوا میں جماعت اسلامی کا تحریک انصاف سے اتحاد ہے جب کہ عزیز آباد کراچی میں انتخابی مفاد پر اختلاف ہے۔ اے این پی قوم پرست جماعتوں کی اتحادی تھی مگر اقتدار کی دوڑ میں کبھی ن لیگ اور کبھی پی پی پی کی اتحادی بنتی ہے۔
اے این پی جو باچا خان کے حوالے سے سامراج مخالف کے طور پر جانی جاتی تھی مگر آج کل صرف طالبان کے خلاف بولتی ہے، امریکی سامراج کی عالمی دہشت گردی پر خاموش رہتی ہے، ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں جب بلوچستان میں عطا اﷲ مینگل کی حکومت کو ختم کیا گیا تھا تو احتجاجاً مولانا فضل الرحمن کے والد مفتی محمودؒ نے پختونخوا کی وزارت اعلیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا جب کہ آج کل جمعیت علما اسلام کے رہنما مولانا فضل الرحمن ہر جگہ، ہر موقعے پر اقتدار کی دوڑ میں شامل نظر ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ سیاسی جماعتیں سخت اندرونی تضادات کی شکار ہیں، جو اب عوام کے سامنے بے نقاب بھی ہوتا جارہاہے۔
ذوالفقار علی بھٹو کی برسی پر بلاول بھٹو کا نہ آنا، غنویٰ بھٹوکا برسی پر یہ بیان کہ ''ہم ریاست کے ساتھ ہیں اور نہ دہشت گردی کے ساتھ ہیں ہم سوشلزم کے ساتھ ہیں اور بھٹو کے اصلی وارث ہیں'' مسلم لیگ ن میں اختلافات بھی عوام تک آن پہنچے ہیں ایک جانب اسحاق ڈار، تحریک انصاف سے سمجھوتے کے حامی ہیں اور دوسری جانب مشترکہ اسمبلی کے اجلاس میں خواجہ آصف کا عمران خان پر برس پڑنا اور مسلم لیگ ن کے ہی ایک رہنما ظفر صاحب نے عدالت سے رجوع کیا ہے کہ تحریک انصاف کے مستعفی اراکین آئینی طور پر اسمبلی کے اب اراکین نہیں رہے۔ ادھر ایم کیو ایم میں بار بار اندرونی اختلافات ابھرتے رہے۔
الطاف حسین نے کئی بار قیادت چھوڑنے کی دھمکی دی۔ رابطہ کمیٹی کے اراکین کو گزشتہ دو برسوں میں تین بار تبدیل کیا گیا، فیصل سبزواری، بابر غوری اور فاروق ستار کے اجلاس میں بروقت نہ آنے پر الطاف حسین نے شدید ناراضگی کا اظہار کیا اور ٹیلیفونک خطاب میں بھی ان کے نام لیے۔ بعد ازاں معذرت کے بعد مسئلہ رفع دفع ہوگیا، پی پی پی کے فیصل رضا عابدی کی طرح اب مصطفی کمال بھی عوام کے نظروں سے اوجھل ہیں۔ تحریک انصاف کے اندرونی تضادات نے سب کو ماند کردیا۔
ان کے اسمبلی ممبران نے اپنی جماعت سے استعفے دے دیے۔ کچھ ارکان نے تحریک انصاف کا ہی الگ دھڑا بنالیا، فوزیہ قصوری اور شیریں مزاری تحریک انصاف چھوڑ گئی تھیں بعد میں گلے شکوے کے بعد پارٹی میں واپس لے لیا گیا، بعض لوگ ان عوامل کو جمہوریت کا حسن کہتے ہیں جب کہ یہ سرمایہ دارانہ نظام کا ناگزیر نتیجہ ہے اور بد صورتی کا برملا اظہار ہے، سرمایہ داری اب سڑ گل چکی ہے۔
اس لیے اب اسے اکھاڑ پھینکنے کی ضرورت ہے اور اس کی جگہ یہ ایک ایسا سماج تشکیل دینے کی ضرورت ہے جہاں ریاست کا متبادل ایسا نظام ہو جو خود کار اور خود انحصاریت پر مبنی ہو۔ اس نظام میں طبقات ناپید ہوں گے، ہر شعبہ جات زندگی کی عبوری عوامی کمیٹیاں اپنا کام انجام دیں گی، جنگوں اور اسلحوں کا خاتمہ ہوگا۔ سب مل کر پیداوار کریں گے اور مل کر کھائیں گے ہر ایک سب کا اور سب ہر ایک کا ہوگا، کوئی ارب پتی ہوگا اور نہ کوئی گداگر۔ بھوک، لاعلاجی، بے گھری، بے روزگاری، جہالت اور ملکیت ختم ہوجائے گی ایک آسمان تلے ایک ہی خاندان ہوگا، چہار طرف محبتوں اور خوشحالی کے پھول کھلیں گے۔