آج ہے فیصلے کا دن کراچی میں این اے 246 کا ضمنی الیکشن

عزیزآباد اور گردونواح پر مشتمل اس حلقے میں ہونے والے انتخابات ایم کیوایم کے لیے بہت آسان ثابت ہوتے رہے ہیں۔


Muhammad Usman Jami April 23, 2015
این اے 246 کے اس مقابلے کا چرچا پورے ملک میں ہوتا رہا۔ فوٹو : فائل

KARACHI: آج شام ڈھلنے تک یہ غیرمعمولی معرکہ اپنے انجام کو پہنچے گا اور رات کے کسی پَل ہار جیت کا فیصلہ ہوجائے گا۔

این اے 246 پر آج ہونے والا ضمنی انتخاب اگر عام حالات میں ہوتا تو تمام مراحل دبے پاؤں گزرتے جاتے، اور نتیجہ ٹی وی چینلوں پر چند منٹ اور اخبارات میں دو کالم کی جگہ پاتا، کیوں کہ عام طور پر ضمنی انتخاب میں وہی جماعت کام یاب ہوتی ہے جس نے اس نشست پر عام انتخابات میں میدان مارا ہو۔ لیکن اس بار این اے 246 کے اس مقابلے کا چرچا پورے ملک میں ہوتا رہا۔



اس لیے اسے روایتی معیار پر نہیں جانچا جا سکتا۔ اصل مقابلہ تین جماعتوں کے درمیان ہے، اور تینوں زور و شور سے اپنی کام یابی کے دعوے کر رہی ہیں، اس لیے دیکھنا یہ ہوگا کہ اتنی کشاکش کے بعد ان کے امید واروں کو کتنے ووٹ ملتے ہیں۔

1988کے انتخابات میں جب مہاجر قومی موومنٹ کے نام سے کراچی کے سیاسی افق پر چھاجانے والی قوت نے شہر کی تیرہ میں سے گیارہ نشستیں جیت لی تھیں، تب اس حلقے میں ایم کیو ایم کے امیدوار محمد اسلم نے ملک بھر میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے تھے۔ یوں وہ حلقہ جسے جماعت اسلامی کا دوسرا منصورہ کہا جاتا تھا، ایم کیوایم کا مرکز قرار پایا اور اس کے بعد ہر چناؤ کے دوران تمام تجزیوں اور تبصروں میں اس نشست پر ایم کیو ایم کی کام یابی یقینی مانی گئی۔

صرف 1993کے انتخابات میں ایم کیوایم کے بائیکاٹ کے باعث اس کی فتوحات کا تانتا ٹوٹا، اور اس حلقے میں جماعت اسلامی کے تشکیل کردہ پلیٹ فارم کے نام زد ''پاکستان اسلامک فرنٹ'' کے امیدوار مظفراحمد ہاشمی کام یاب ہوئے۔ اس کے بعد 2013 تک تمام انتخابات میں اس نشست پر متحدہ قومی موومنٹ کے امیدوار کام یابی کے جھنڈے گاڑتے رہے ہیں۔



لیکن حالات عام نہیں رہے ، بہت خاص ہوگئے ہیں، شاید اس لیے کہ ہر طرف اس مقابلے کا ذکر چھڑا ہوا ہے۔ بدلاؤ کا سلسلہ کراچی میں رینجرز کے آپریشن سے شروع ہوا۔ شہر میں موجود مذہب کے نام پر دہشت گردی کرنے والے ٹولوں اور لیاری گینگ وار میں ملوث گروہوں کے کارندوں کی گرفتاریوں کے ساتھ ساتھ ایم کیوایم کے کارکن بھی رینجرز کے شکنجے میں جکڑے جاتے رہے اور پھر نائن زیرو پر رینجرز کے چھاپے کا دھماکا ہوا۔

رینجرز کے مطابق اس چھاپے میں نائن زیرو سے بڑی تعداد میں ٹارگیٹ کلرز پکڑے گئے اور غیرقانونی اسلحہ برآمد ہوا۔ اگلا دھماکا کے ای ایس سی کے ایم ڈی شاہد حامد کے قتل کے جرم میں سزائے موت پانے والے صولت مرزا کا پھانسی کے لیے متعین تاریخ سے چند گھنٹے قبل منظرِعام پر آنے والاوڈیو بیان تھا۔ کراچی میں درپیش مشکلات کے ساتھ لندن سے بھی ایم کیوایم کو بُری خبریں ملنے لگیں، جہاں منی لانڈرنگ کیس میں متحدہ کے قائد سے پانچ گھنٹے تک پوچھ گچھ کی گئی اور ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس کا مرکزی ملزم معظم علی نائن زیرو کے قریب سے گرفتار کرلیا گیا۔

اس سب سے کچھ پہلے، پاکستان پیپلزپارٹی سے برسوں کا ناتا توڑ کر جیالے سے حق پرست ہوجانے اور صلے میں ایم کیوایم کے ''لاڑکانہ''، عزیزآباد کی نشست پانے والے نبیل گبول ہواؤں کا رخ دیکھ کر یا کسی باخبر بہی خواہ کی اطلاع پر این اے 246 کی نشست سے مستعفی اور متحدہ سے کنارہ کش ہوگئے۔ یوں الزامات، بیانات اور گرفتاریوں کا سامنا کرتی جماعت پر ضمنی انتخاب کی ''مشکل'' بھی آن پڑی۔

کراچی کی اکثر نشستوں پر اور خاص طور پر عزیزآباد اور گردونواح پر مشتمل اس حلقے میں ہونے والے انتخابات ایم کیوایم کے لیے بہت آسان ثابت ہوتے رہے ہیں۔ امیدوار کوئی ہو اور کسی بھی پس منظر کا حامل ہو، الطاف حسین کا عطاکردہ ٹکٹ کام یابی کی ضمانت بنتا رہا ہے، مگر اس بار حریف قوتیں، خاص طور پر عمران خان یہ تاثر ابھارنے میں کچھ حد تک کام یاب رہے کہ حالات بدل چکے ہیں۔ روایتی حریف جماعت اسلامی کے ساتھ پاکستان تحریک انصاف بھی ایم کیو ایم کے خلاف میدان میں ہے۔

اس لیے اس بار متحدہ کو پہلے سے زیادہ سرگرم ہونا پڑا ہے۔ متحدہ کی سیاسی سرگرمیوں کے مرکز جناح گراؤنڈ میں روزانہ ہونے اجتماعات، ان سے تقریباً ہر روز الطاف حسین کا خطاب، انتخابی ریلیاں، کارکنوں کے گھر گھر رابطے اسی حقیقت کا اظہار ہیں۔ تجزیہ کار اس نشست پر ایم کیوایم ہی کی کام یابی کا امکان ظاہر کر رہے ہیں، لیکن ان کے نزدیک اصل سوال یہ ہے کہ کیا متحدہ پہلے جتنے ووٹ لے سکے گی؟ اور تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے مقابلے میں اسے کتنے مارجن سے کام یابی حاصل ہوتی ہے؟

اگر جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی میں اتحاد ہوجاتا تو متحدہ کی مشکلات بڑھ سکتی تھیں، لیکن دونوں جماعتوں کی ایک دوسرے کے امیدوار کو دست بردار کرانے کی تمام تر کوششوں اور ایک دوسرے سے رابطوں کے باوجود ایسا نہ ہوسکا۔ جماعت اسلامی کا کہنا ہے کہ اس حلقے میں اس کا مضبوط ووٹ بینک ہے۔



یہاں سے وہ بلدیاتی الیکشن سمیت مختلف انتخابات میں جیتتی رہی ہے، چناں چہ اس کی کام یابی کے روشن امکانات ہیں، جب کہ تحریک انصاف گذشتہ عام انتخابات میں اس حلقے میں لیے جانے والے بتیس ہزار ووٹوں کو بنیاد بنا کر جماعت اسلامی کے امیدوار راشد نسیم کو اپنے امیدوار عمران اسمعٰیل کے حق میں بٹھانے پر مُصر رہی۔ حیرت کی بات ہے کہ خیبرپختون خوا میں مخلوط حکومت بنانے والی یہ دونوں جماعتیں ایک ضمنی الیکشن میں اتحاد سے گریزاں رہیں۔ نیرنگی سیاست کا ایک رخ یہ بھی ہے۔

سیاسی مبصرین الیکشن لڑنے کے لیے جماعت اسلامی کے اصرار کو اُس کے تحریک انصاف سے خوف سے تعبیر کرتے ہیں۔ ان کے مطابق جماعت اسلامی کی جانب سے 2013 کے انتخابات کا کراچی میں بائیکاٹ اسی خوف کا نتیجہ تھا۔ اب تک ووٹ بینک کے بڑے فرق کے ساتھ سہی، کراچی میں جماعت اسلامی کو دوسری پوزیشن حاصل رہی ہے۔

تاہم، 1993کے انتخابات میں ''پاکستان اسلامک فرنٹ'' کے نام سے الیکشن لڑنے والی جماعت اسلامی ایم کیوایم کے بائیکاٹ کے باوجود کراچی سے صرف ایک نشست جیت پائی تھی اور وہ یہی حلقہ تھا جہاں آج معرکہ ہو رہا ہے۔ البتہ پرویزمشرف کے دور میں نئے نظام کے تحت ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی فتح یاب ہوئی تھی۔

2013 کے الیکشن سے پہلے ہی صاف نظر آرہا تھا کہ ملک بھر کی طرح کراچی میں بھی تحریک انصاف نئی قوت بن کر ابھر رہی ہے۔ کراچی میں ہونے والا عمران خان کا جلسہ بدلتی صورت حال کا مظہر تھا۔ الیکشن کے دن جس طرح لوگ ووٹ دینے کے لیے گھروں سے نکلے اس کی ملک کی انتخابی تاریخ میں مشکل ہی سے مثال مل سکتی ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق اس چناؤ میں خاموش اکثریت کی بھاری تعداد نے رائے کا اظہار کیا جو ووٹ دینے سے کتراتی ہے اور یہ لوگ عمران خان کے تبدیلی کے نعرے پر گھروں سے نکلے تھے۔ اس صورت حال میں جماعت اسلامی کو اپنی دوسری پوزیشن چھنتی نظر آئی، چناں چہ دھاندلی کو جواز بناتے ہوئے بائیکاٹ کردیا گیا، ورنہ کیا جماعت اسلامی اس سے پہلے کراچی میں ہونے والے انتخابات کو صاف شفاف سمجھتی ہے؟ بہرحال، جماعت اسلامی بھرپور انتخابی مہم چلانے کے بعد متحدہ اور پی ٹی آئی کے مدمقابل ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان تحریک انصاف نے کراچی میں یک طرفہ فضا کا جمود توڑا ہے۔ گذشتہ عام انتخابات میں پی ٹی آئی نے کراچی میں حیران کُن نتائج دیے تھے اور قومی اسمبلی کا حلقہ 250 اور سندھ اسمبلی کی 2 نشستیں ایم کیوایم سے چھین لی تھیں۔ اگر گذشتہ عام انتخابات میں کراچی کے حوالے سے تحریک انصاف کے الزامات کو خاطر میں نہ لایا جائے تو بھی اس نے جس بھاری تعداد میں ووٹ حاصل کیے وہ سیاسی تجزیہ کاروں کو حیران اور اس کے مخالفین کو خوف زدہ کرگیا۔ پرچیوں کی یہ بھاری تعداد اس کے باوجود تحریک انصاف کی جھولی میں گری کہ اس نے سنجیدگی سے انتخابی مہم بھی نہیں چلائی تھی۔

لیکن یہ 2013 نہیں۔ جہاں ایم کیوایم کے لیے حالات مختلف ہیں، وہیں تحریکِ انصاف اور جماعت اسلامی کے لیے بھی صورت حال پہلے جیسی نہیں رہی ہے۔ تحریک انصاف ملک کی تاریخ کے طویل ترین دھرنے کے بعد ''گو نواز گو'' کے محاذ سے عملاً پسپا ہوچکی ہے۔ قومی اسمبلی سے استعفے دے کر اسی ایوان میں واپسی نے عمران خان کے سیاسی ویژن پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ بہ ہر حال، اس کے باوجود عمران خان پہلے سے زیادہ متحرک ہیں اور اپنے مداحین میں انہیں اسی طرح مقبولیت حاصل ہے۔

جہاں تک جماعت اسلامی کا تعلق ہے تو سابق امیر سید منور حسن کے بیانات اور جماعت کی طرف سے طالبان کی بابت نرم گوشے نے عوام کے ایک بڑے حلقے میں اس کے لیے منفی احساسات پیدا کردیے تھے، تاہم نئے امیر سراج الحق کے انداز اور الفاظ بتاتے ہیں کہ جماعت اسلامی دوبارہ قاضی حسین احمد کے دور کی طرح خود کو عوامی امنگوں سے قریب کر رہی ہے، لیکن ابھی طالبان کے حوالے سے اس کی پالیسی اور بیانات سے پیدا ہونے والا تاثر زائل نہیں ہوا ہے۔



این اے 246پر طالبان مخالف بعض تنظیموں اور جماعتوں کی جانب سے ایم کیو ایم کی حمایت کا ایک سبب یہ بھی ہے۔ یوں اس ضمنی انتخاب میں حصہ لینے والی تینوں جماعتیں کم یا زیادہ پہلے سے مختلف حالات میں انتخابی دنگل میں اُتری ہیں۔ انتخابی نتائج ان تینوں کو بتادیں گے کہ عوام ان کی پالیسیوں اور اقدامات پر کیا رائے رکھتے ہیں۔

اس حلقے میں ایم کیو ایم کی کام یابی اسے یہ کہنے کا موقع دے گی کہ اگر اس پر لگائے گئے الزامات درست ہیں تو اسے عوام کی تائید کیوں حاصل ہے؟ لیکن ایم کیوایم کو ملنے والے ووٹوں کی تعداد اور مخالفین سے ان کا فرق بہت سے حقائق بیان کرسکتا ہے۔ جماعت اسلامی کی کام یابی اس میں نئی روح پھونک دے گی اور کراچی کی حد تک اس کی برسوں پہلے کھوجانے والی پوزیشن بحال ہوجائے گی، لیکن اگر فتح تحریک انصاف کا مقدر بنتی ہے تو اس کے اثرات کراچی سے پھیلتے ہوئے پورے سندھ پر مرتب ہوں گے، بل کہ پورے ملک کے عوام پر اثرانداز ہوں گے۔

اس ضمنی الیکشن کا روشن ترین پہلو یہ ہے کہ کراچی میں خوف کا حبس کم ہوا ہے، تازہ ہوائیں چلی ہیں، نشستوں، علاقوں کو وراثت سمجھنے کے رجحان کو دھچکا لگا ہے۔ ہارنے کا اندیشہ اور انتخابات کے دھاندلی سے پاک ہونے پر یقین ہی سیاسی جماعتوں کو مائل کرتا ہے کہ وہ عوام کے مسائل حل کریں اور اپنے اندر موجود خرابیاں دور کریں۔

ساتھ ہی عوام کا یہ شعور سیاست دانوں کی اصلاح کرتا ہے کہ وہ کسی کی ''رعایا'' نہیں ریاست کے شہری ہیں، جو اپنے ووٹ کے ذریعے کسی کو رد اور قبول کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ شفاف انتخابات کے ساتھ عوام کا یہ شعور ہی ملک میں تبدیلی اور حالات میں بہتری لاسکتا ہے، تبدیلی کا اور کوئی راستہ نہیں۔


 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں