فرسودہ رسوم و رواج میں جکڑا سماج

پڑھا لکھا ہے خیر میں نے اﷲ کا نام لے کر ہاں کر دی اور ان لوگوں کی اپنی بیٹی کا نصیب سمجھ کر عزت و احترام کی حد کر دی


فاطمہ نقوی April 24, 2015
[email protected]

پچھلے کافی دنوں سے کچھ لکھ پڑھ نہ سکی، گلے کے انفیکشن نے مجبور کر دیا کہ کچھ دنوں تک ہر طرف سے ناتا توڑ لیا جائے۔ الحمدﷲ اب طبیعت بہت بہتر ہے۔ شکریہ ان تمام دوستوں، بزرگوں کا جنھوں نے ای میلز کیں فون کیے اور ہماری کمی محسوس کی۔

ایک خاتون کی ای میل نے ہمیں اداس کر دیا۔ لکھتی ہیں فاطمہ بہن کافی دنوں سے آپ کا کالم نہیں پڑھا تشویش ہے میں اپنا ایک دکھ آپ کو سنانا چاہتی ہوں، میں نے کچھ عرصہ پہلے اپنی بیٹی کی شادی اپنوں میں کی ہے جس وقت میری بیٹی کا رشتہ لینے کے لیے آئے تو اخلاق کی بلندیوں پر تھے مگر میں اپنی سسرال میں اپنی بیٹی کا رشتہ نہیں کرنا چاہتی تھی کیوں کہ میں نے خود ہزارہا دکھ اٹھائے ہوئے تھے حد تو یہ ہو گئی تھی کہ شوہر نے اپنی زندگی سے نکال کر بچوں کو میرے سپرد کر کے اپنی نئی دنیا بسا لی تھی کن مشکلات اور مصائب سے نبرد آزما ہو کر میں نے بچوں کی پرورش کی مگر میں ہی جانتی ہوں یا میرا خدا اب جب کہ بچے کسی قابل ہوئے تو سب سرپرست بن کر آ گئے۔

خیر میں مختلف وجوہات کی بنا پر بچی کا رشتہ نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن مجھے سب نے سمجھایا کہ تم اﷲ کا نام لے کر رشتہ کر دو، رشتے اﷲ بناتا ہے۔ لڑکا اچھا ہے۔ معاشی طور پر مستحکم ہے۔

پڑھا لکھا ہے خیر میں نے اﷲ کا نام لے کر ہاں کر دی اور ان لوگوں کی اپنی بیٹی کا نصیب سمجھ کر عزت و احترام کی حد کر دی ، لینا دینا اپنی بساط سے بڑھ کر کیا رشتہ لینے سے لے کر تاریخ طے ہونے تک یہ لوگ میٹھے اور اچھے رہے مگر شادی کی تاریخ طے ہوتے ہی گرگٹ کی طرح آنکھیں بدل لیں اور اپنے رنگ دکھانے شروع کر دیے، لڑکے اور اس کے گھر والوں نے باتوں باتوں میں فرمائشی پروگرامز نشر کرنے شروع کر دیے۔

میں نے عزت کی خاطر ان کی فرمائش پر آمنا صدقنا کیا اور جہیز میں ہر وہ چیز دی جو انھوں نے کہی اور دھوم دھام سے اپنی بساط سے بڑھ کر شادی کی جس میں میرے دوستوں نے میرا بہت زیادہ ساتھ دیا جس نے شادی میں شرکت کی وہ انگشت بدنداں رہ گیا مگر یہ عزت ان لوگوں کو راس نہ آئی ہر چیز پر سو سو اعتراض کیے خود کچھ نہ لائے مگر میری بیٹی کے ہر سامان پر اعتراض کی بوچھاڑ کر دی ہم نے ہر موقعے پر صبر سے کام لیا۔ اب میرا سوال صرف اس معاشرے سے یہ ہے کہ کیا لڑکی کے والدین ہونا جرم ہے ۔

جس کی سزا بیٹی کی شادی کے ساتھ شروع ہو جاتی ہے اور لڑکے والے ہونا باعث فخر ہے کہ وہ اس جدید دور میں بھی پرانے روایتی ہتھکنڈوں سے کام لیتے ہوئے لڑکی والوں کو اپنا زر خرید سمجھیں۔ یہ ای میل پڑھ کر رنج ہوا کہ کس طرح لڑکیوں کے والدین ایک ناکردہ جرم کی سزا ساری عمر بھگتے ہیں۔ جہیز تو ہمارے نبی کریم صلی اﷲ علیہ و سلم نے بھی اپنی بیٹی کو دیا تھا مگر آج اس معاشرے کے رہنے والوں نے جہیز کی رسم کو اتنا مکروہ، اتنا قبیح بنا دیا ہے کہ آج کتنی لڑکیاں اس جہیز کے نہ ہونے کی وجہ سے گھر بیٹھی ہیں کہ ان کے والدین جہیز نہیں دلا سکتے، لڑکے والوں کی فرمائشی فہرست کو پورا نہیں کر سکتے آج جو لڑکے کو خرید سکتا ہے وہ ہی کامیاب ہے۔

ضروری نہیں کہ ہر لڑکا یا اس کا گھرانہ ایسا ہو ، ہزاروں شریف خاندان ہیں، مگر نچلے، متوسط طبقے میں زیادہ تر ایسا ہی ہے۔ نوجوانوں اور ان کے گھرانوں کا اپنی قوت بازو پر بھروسہ ختم ہو گیا ہے وہ سمجھتے ہیں کہ لڑکے کی قیمت جتنی وصول کر سکتے ہیں کر لیں اگر سمجھدار لڑکے ہوں جو اپنے سسرال والوں اور اپنی عزت کو یکساں سمجھتے ہوئے لڑکی کو اپنی ذمے داری سمجھیں اور والدین اور ایسی خواتین جو کہ اپنے گھرانوں کی واحد کفیل ہوں ان پر بوجھ نہ ڈالیں تو ہر لڑکی اپنے گھر میں خوش ہو اس معاملے میں اکثر خواتین کا دہرا معیار بھی اس معاملے کو مزید گمبھیر بنا دیتا ہے کہ مردوں کو رسم و رواج سے اتنا یارا نہیں ہوتا مگر خواتین مختلف رسم و رواج جیسے پنیاونیاں، پیڑا کھلائی اور کھیر پکائی وغیرہ کی رسمیں کبھی تھا کہ شادی کا حسن سمجھی جاتی تھیں مگر اب جب کہ ہر شخص معاشی عفریت کے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے کھانا پینا مشکل ہو رہا ہے وہاں ایسی رسموں کا جواز ختم ہونا چاہیے۔

معاشرے کے ایک طبقے میں اب بھی ایسی رسموں کا وجود موجود ہے اور ایسی رسموں کو پورا نہ کرنے والے لڑکی کے والدین کی زندگی باتوں کی تیروں سے اس قدر چھلنی کر دی جاتی ہے کہ حد نہیں ایک خاتون جنھوں نے اپنی دو بیٹیوں کی شادی معمولی طریقے سے کی اور نہ جہیز دیا نہ کھانا کھلایا مگر جب یہی قانون اپنے بیٹے کی شادی کرنے نکلیں تو جہیز کی ایک بڑی لسٹ ان کے ہاتھوں میں تھی جو شادی سے 10 دن پہلے لڑکی کے والدین کو پہنچا دی گئی یہ بلیک میلنگ کا ایسا انداز ہے کہ والدین کچھ نہیں کر سکتے۔

سوائے مطلوبہ فہرست کو پورا کرنے کے شادی کا وقت قریب ہو، تیاریاں مکمل ہوں، سب عزیز و اقارب میں خبر ہو چکی ہو اس وقت والدین اس پوزیشن میں نہیں ہوتے کہ سختی سے کام لیں اور مطلوبہ فہرست سے انکار کر دیں کیوں کہ اس صورت میں امکان یہ ہوتا ہے کہ لڑکے والے بات ہی ختم کر دیں اس قسم کی صورت حال میں زیادہ نقصان لڑکی والوں کے حصے میں آتا ہے جگ ہنسائی الگ ہوتی ہے اور بات لڑکی کے کردار پر بھی آ جاتی ہے ۔

جس کی وجہ سے دوسرے رشتے کے حصول میں بھی دشواریاں پیش آ سکتی ہیں اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوانوں میں احساس ذمے داری پیدا ہو اور ایسے معاملات کو عورتوں کے سپرد کرنے کی بجائے سمجھ دار مرد اپنے ہاتھوں میں لیں تا کہ اس لالچ کا خاتمہ کیا جا سکے جس میں لڑکی اور اس کے گھرانے پر مالی بوجھ لاد دیا جاتا ہے اور سالوں شادی میں لیے گئے قرض کی ادائیگی میں نکل جاتے ہیں۔

ہاں خوشی اور استطاعت کے اندر رہتے ہوئے تحفے تحائف والدین کی طرف سے جو وہ با آسانی دے سکتے ہیں دے دیے جائیں اس میں کوئی حرج نہیں۔ مگر جہیز کی چیزوں میں کمی اور سسرالی رشتے داروں کے بیش قیمت جوڑے یا من پسند نہ ہونے کی صورت میں لڑکی اور اس کے گھرانے کو بے عزت کرنا ایک قابل مذمت فعل ہے اور اسلام کی روکے بھی منافی ہے ہمارے ملنے والوں میں ایک لڑکی کو اس کے سسرال والوں نے کم جہیز لانے پر اس قدر طعنے تشنیع سے نوازا کہ اس نے خود کو جلا کر مار ڈالا کیوں کہ اس پر ذہنی دباؤ تھا کہ جہیز کم ہے اب رسم کے مطابق پہلا بچہ سسرال کی بجائے میکے میں ہو گا اور بڑے اسپتال میں اس طرح کے ہزاروں واقعات میں جس پر سب دکھ محسوس کرتے ہیں مگر جب عملی اقدام کا وقت آتا ہے تو مختلف حیلوں بہانوں سے کام لے کر ان کو پروان چڑھا دیا جاتا ہے حکومت سے بھی گزارش ہے کہ اس قسم کے مسائل پر قانون سازی کی جائے تا کہ جو والدین شادی کے بھاری اخراجات نہیں اٹھا سکتے وہ سکھ کا سانس لے کر اپنی بیٹیوں کو باعزت طریقے سے رخصت کر دیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں