نام کی تختی
ٹم برنرزنے اپنی اس ایجادکاکوئی معاوضہ نہیں لیا۔کسی کمپنی کویہ نہیں کہاکہ اس کے کام کوکمرشل بنیادوں پر خریدلے
ٹم برنرزلی نے ہماری دنیاکومکمل طورپرتبدیل کرڈالا۔ ہماری زندگی اس شخص کے کام سے پہلے کچھ اورتھی اوراس کے بعد کتنی تبدیل ہوئی یامسلسل ہورہی ہے، اس کا اندازہ ابھی تک نہیں کیاجاسکتا۔ٹم برنرزنے انٹرنیٹ ایجادکیا۔
اپنے کمپیوٹر سے اس عظیم کام کی بنیاد رکھی۔اپنے کمپیوٹرکوسرور (Server) سے جوڑدیا۔ یوں ایک مخصوص سرورسے کمپیوٹرکومنسلک کرنے کاکام شروع ہوگیا۔اسی شخص نے دنیاکا پہلاویب براؤذر (Web Browser)بنایا۔ان دوغیرمعمولی کاموں نے دنیاکی کایا پلٹ دی۔آج ہم میںسے ہرشخص بلاتمیزعمر، جنس، مذہب، عقیدہ یاقوم،انٹرنیٹ سے نہ صرف مستفیدہورہا ہے بلکہ اس کے بغیرزندگی گزارنے کاتصوربھی نہیں کیاجاسکتا۔
ٹم برنرزنے اپنی اس ایجادکاکوئی معاوضہ نہیں لیا۔کسی کمپنی کویہ نہیں کہاکہ اس کے کام کوکمرشل بنیادوں پر خریدلے۔اُس شخص کے کردارکااندازہ کیجیے کہ کئی امریکی کمپنیوں نے رابطہ کیاکہ وہ اپنی ایجاد انھیں فروخت کر دے۔ مگراس کاجواب تھا" یہ کرہِ ارض کے لوگوں کے لیے اس کی جانب سے ایک تحفہ ہے اورتحفہ کی کوئی قیمت نہیں ہوتی"۔
جن لوگوں نے اس کے کام سے بھرپورمالی فائدہ اٹھایا۔اس میں بِل گیٹس، اسٹیوجوبز اور بارک ضوکربرگ شامل ہیں۔ان کے پاس دنیاکی ساری دولت کا5سے6فیصدحصہ موجودہے مگرٹم برنرزنے اپنی ایجاد سے ایک پیسہ کافائدہ اٹھانے سے انکارکردیا۔درویش اورکیسا ہوگا اورکیاہوگا۔
جے سی بوس ریڈیوکااصل موجدتھا۔انتہائی ذہین اورکمال کادماغ۔سائنس کے دقیق میدان کے علاوہ انتہائی اعلیٰ مصنف۔جب اس نے دنیاکا پہلا ریڈیو بنایا تو 1901 کا زمانہ تھا۔جے سی بوس کابنیادی فلسفہ تھاکہ"علم بذات خود اتناقیمتی اورنایاب ہے کہ اس کی کوئی قیمت مقررنہیں کی جاسکتی "اپنی ایجادکو رجسٹرڈکرانے سے انکارکردیا۔جب 17مئی 1901کو رائل سوسائٹی میں ایجادکی جزئیات بتانے جارہا تھا توایک امیر تاجرنے اسے دس منٹ کے لیے روک لیا۔ تاجر کے ہاتھ میں چندکاغذ تھے۔
اس میں ہرطرح کی شرائط درج تھیں،صرف بوس کے دستخط ہونے تھے۔کاغذات کے مطابق بوس نے ریڈیوکی ایجادکومحض اپنے نام پر رجسٹرڈ کرانا تھا۔ تاجر نے بوس کے سامنے ہاتھ جوڑدیے اورکہاکہ آپ کوپتہ نہیں ہے کہ آپ صرف ایک دستخط کرنے سے دنیاکے امیرترین شخص بن جائیں گے۔شرط صرف ایک ہے کہ تمام منافع میں آدھے پیسے میرے ہوں گے۔
بوس نے اس تاجرکوغورسے سنا، پھر جواب دیا،"آپ بہت امیر اور کاروباری انسان ہیں۔مگرمیں نے آج تک آپ سے زیادہ غریب آدمی اپنی زندگی میں نہیں دیکھا۔یہ ایجادعام لوگوں کے فائدہ کے لیے ہے اورمجھے اس سے کسی قسم کاکوئی منافع نہیں کمانا۔علم بذات خودکسی بھی طرح کی مالی منفعت سے بڑی چیزہے اوراس کوپیسے کے ترازومیں تولا نہیں جاسکتا"۔بوس نے چندمنٹ بعدتقریرمیں اپنی ایجاد کی تمام جزئیات کوعام لوگوں کے سامنے بیان کردیا۔
ڈوبری ڈوبریوبلغاریہ کے شہرصوفیہ کے نزدیک رہتا ہے۔دوسری جنگ عظیم میں اس کی ہرچیزبرباد ہوگئی۔گھرتباہ ہوگیا،خاندان قتل کردیاگیا۔ڈوبری اس وقت صوفیہ شہرسے بیس کلومیٹردوررہتاتھا۔اس کے پاس کسی قسم کوکوئی سرمایہ نہیں تھا۔اس نے ایک عجیب وغریب فیصلہ کیا۔ وہ روزانہ اپنے گاؤںسے پیدل صوفیہ جاتااوروہاں سڑکوںپربھیک مانگتا تھا۔لمبے لمبے بال،الجھی ہوئی داڑھی اورپھٹے ہوئے کپڑوں کو دیکھ کراکثرلوگ اس پرترس کھاکر چند سکے خیرات کردیتے تھے۔
ڈوبری نے پوراحساب رکھاہواتھا۔اس کے پورے مہینے کاذاتی خرچ صرف80یوروتھا۔بھیک سے کمائے ہوئے پیسوں سے 80یورو اپنے ذاتی خرچہ کے لیے نکال لیتا تھا۔ ہر ماہ جتنے پیسے ملتے تھے،وہ تمام رقم ایک یتیم خانے کوعطیہ کر دیتا تھا۔ان یتیم بچوں میں ڈوبری کاکوئی رشتہ دارنہیں تھااورنہ ہے۔
اس کی عمرآج99برس ہے۔وہ آج بھی یتیم اوربے سہارا بچوں کیلیے جھولی پھیلائے خیرات مانگتاہے۔اسے اس عظیم کام کے اعتراف میں حکومت نے کئی بارانعام دینے کی کوشش کی مگراس نے ہمیشہ یہ کہہ کر انعام لینے سے انکار کردیا، کہ یتیم بچوں کی پرورش کرنااس کافرض ہے اوروہ اس کام کے عوض کوئی ستائش یارتبہ حاصل نہیں کرناچاہتا۔آپ آج بھی صوفیہ جیسے گنجان آبادشہرمیں ڈوبری کانام لیجیے۔آپ کوہرشہری اس تک پہنچادے گا۔وہ اپنے شہرکا سب سے قابل عزت اورمحترم شخص ہے۔دوسروں کے لیے اپنی ہرآسائش قربان کرنے والا۔
اسٹانسلوپیٹرو(Stanislav Petrov)روسی فوج کا ایک عام ساافسرتھا۔1983میں امریکا اورروس کے حالات انتہائی کشیدہ ہوگئے۔معاملات یہاں تک بگڑگئے کہ امریکا نے پرشنگ میزائل یورپ میں نصب کردیے۔ان تمام میں ایٹم بم موجودتھے اوریہ روس کے ہرحصے کوتباہ کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔
روس نے بھی جواباًاپنے ایٹمی میزائل یورپ اورامریکا کی جانب رخ کرکے حساس مقامات پر نصب کرڈالے۔ماہرین کے مطابق اگرامریکا روس پر پر شنگ میزائل سے حملہ کرتاہے توروس کے پاس اپنے دفاع کے لیے محض چھ منٹ ہوں گے۔یہ لڑائی اس قدرمہیب اورخطرناک ہوسکتی تھی کہ دنیاکابیشترحصہ مکمل طورپرنیست ونابود ہوسکتا تھا۔
اسکوMutual Assured Destruction کانام دیاگیا تھا۔تباہی ناگاساکی اورہیروشیماسے کئی گنازیادہ ہوسکتی تھی۔ بڑے وثوق سے یہ کہاگیا کہ دس منٹ کی جنگ کے بعددنیا میں زندگی نام کی کسی چیزکاامکان بہت کم رہ جاناتھا۔ 26ستمبر 1983کوپیٹرواپنے دفترکے ریڈارروم میں موجود تھا۔اس نے اپنے سسٹم پردیکھاکہ امریکا نے روس کے خلاف ایک ایٹمی میزائل داغ دیاہے۔
تیس سیکنڈکے مختصروقت میں ریڈارپرمزیدچارمیزائل نظرآنے لگے۔ان پانچ ایٹمی میزائلوں کامطلب یہ تھاکہ روس کافی حدتک دنیاکے نقشہ سے غائب ہوجاناتھا۔وہ اپنے دفترمیں اکیلا تھا۔ اس کے پاس صرف چھ منٹ تھے۔اس مختصرمدت میں روسی ہائی کمان کواطلاع کرنی تھی کہ ہم پرحملہ ہوچکاہے۔ نتیجہ میں روسی ایٹمی میزائل فائرہونے تھے۔ پیٹروکواب محض ایک فون کرناتھا۔اس نے فون اٹھا کر واپس رکھ دیا۔ذہن میں صرف ایک یقین تھاکہ یہ تمام ایک مشینی غلطی کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا۔
ہائی کمان کودس منٹ تک کچھ نہیں بتایا۔اس کاگمان یایقین مکمل طورپر ٹھیک تھا۔ انکوائری میںثابت ہوگیاکہ مکینیکل غلطی کی وجہ سے غلط سگنل تھا۔روس پرامریکا نے حملہ نہیں کیاتھا۔پیٹرو کے محض تیس سیکنڈ کے بروقت فیصلے نے دنیاکو عظیم تباہی سے بچالیا۔ ذرا سوچیے،اگرپیٹروغلطی سے فون کردیتاتواس کاانجام کیا ہونا تھا؟ سوچتے ہوئے بھی دل لرزتاہے۔پیٹرونے اپنے اس عظیم فیصلے کے عوض کوئی ایوارڈیاتمغہ لینے سے انکارکردیا۔
جوناس سالک(Jonas Salk)عظیم سائنسدان تھا۔برسوں کی ریاضت کے نتیجہ میں وہ پولیوویکسین بنانے میں کامیاب ہوگیا۔اس کی دوائی کی بدولت چند بدقسمت ملکوں کے سواپوری دنیاسے پولیوجیساموذی مرض ختم ہوچکا ہے۔جوناس سالک نے اربوں لوگوں کوجسمانی معذوری سے بچالیا۔
سالک نے دوائی کے اجزاء رسالوں میں چھپوادیے تاکہ ہرلیبارٹری اس کوبذات خودتیارکرسکے۔اس نے لامحدود دولت کوٹھوکرماردی۔پولیوکی دوائی پوری زندگی اپنے نام رجسٹرڈنہیں کروائی۔ایک انٹرویومیں اس نے کہا" یہ دوائی عام لوگوں کی ملکیت ہے۔ہرشخص اس کامالک ہے۔بالکل اسی طرح جیسے سورج کی روشنی ہرانسان کی ملکیت ہوتی ہے"۔
کلیرابارٹن(Clara Barton) عجیب خاتون تھی۔ امریکا کی خانہ جنگی نے اسے تبدیل کرڈالا۔کلیرا نے ہزاروں لوگوں کو مرتے دیکھا۔اب اس کی زندگی کا صرف ایک مقصدتھا کہ زخمیوں کی مددکیسے کرنی ہے' انھیں موت کے منہ سے کیسے بچاناہے۔ جنگ کے علاوہ دیگر حادثات میں انسانی زندگی کوکیسے محفوظ رکھنا ہے۔1873میں اس نے امریکی صدر کو قائل کیاکہ ایک تنظیم کی اَشدضرورت ہے جوبغیرکسی معاوضہ کے فلاحی کام کرے۔ مقصدصرف انسانیت کی خدمت ہو۔ مذہب،رنگ اورنسل کی کوئی تفریق نہ ہو۔ بارٹن نے "ریڈکراس"نام کی تنظیم بنائی۔ یہ تنظیم آج دنیا کے ہرملک میں موجودہے۔بارٹن نے اپنے کام کاکوئی معاوضہ طلب نہیں کیا۔
اب پاکستان کاجائزہ لیجیے۔ آپ کسی بھی شہر، قصبہ یا گاؤں میں چلے جائیے۔کسی سرکاری عمارت،پُل،اسپتال یاچوک پرکھڑے ہوجائیے۔ ہرجگہ ایک نمایاں مقام پر سنگِ مرمرکی بے جان تختی یا کتبہ نظرآئیگا۔اس پردرج ہوگاکہ فلاںموصوف نے فلاں دن، اپنے دستِ مبارک سے اس کام کی بنیادرکھنے کاعظیم کارنامہ انجام دیا۔آپ اوپرسے لے کرنیچے تک کے سیاسی نظام کو دیکھیے۔ادنیٰ سے ادنیٰ اسکیم کے افتتاح پربڑے بڑے اخباری اشتہارات چھپوائے جائینگے۔
ان تمام بے صفت اوربے ہنراشتہاروں میںملک کے کسی بڑے سیاستدان کی بے جان تصویر ہوگی۔جھوٹی خوشامد پر مشتمل تحریروں میں آسمان اور زمین کے قلابے ملادیے جائینگے۔ظلم یہ،کہ تمام کام سرکاری پیسوں سے سرانجام دیاہوگا۔ مقصد صرف اورصرف پست درجے کی ذاتی تشہیر۔آپ گلیوں میں چلے جائیں۔نالیوں کے نزدیک بھی دیواروں پراسی طرح کے افتتاحی کتبے نصب نظرآئینگے۔
درج ہوگا،کہ فلاں سیوریج سکیم کاافتتاح،فلاں مقامی سیاستدان یاافسرنے فرمایا۔بنیادی طورپرہم چھوٹے لوگ ہیں۔ صرف اورصرف ذاتی تشہیر اور چند پیسوں کے عوض بکنے والے غلام۔ اس میں حکمران یا رعایا کی کوئی تمیزنہیں، مگرجن لوگوں نے دنیا کو تبدیل کیا، انسانیت کو عظیم فائدہ پہنچایا،ایٹمی جنگ کواپنی ذہانت سے روک ڈالا،ان میں سے کسی کی تختی،کسی بھی عمارت کے باہر نصب نہیں کیونکہ وہ درحقیقت عظیم لوگ تھے۔
اس لیے کسی کو باور کرانے کی ضرورت پیش نہیں آئی مگرہمارے جیسے بونوں کے دیس میں ہر رہنما کو سنگِ مرمرکے ایک افتتاحی کتبے کی اَشد ضرورت ہے جسے پڑھ کران کے ذہنی قدکے چھوٹاہونے کا اور ثبوت سامنے آجاتا ہے۔ انھیں اندازہ نہیں کہ پتھرکی تختیوں پر سرکاری پیسے سے نام لکھوانے سے ان کاقد مزید چھوٹا ہوجاتا ہے۔ انھیں چندلمحے کے بعدکوئی یاد نہیں رکھتا، نئی حکومت آنے پرپرانی تختی کوتوڑدیاجاتاہے!