فیاض ہاشمی کا قلم گیتوں کی آبشار
آج کئی اور برسوں کے بعد میں اسی غزل کے خالق فیاض ہاشمی کے بارے میں ایک مضمون لکھ رہا تھا۔
لاہور:
یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں فلمی ہفت روزہ 'نگار' کے ادارۂ تحریر میں شامل تھا۔ اس سال فلم ''لاکھوں میں ایک'' کے خوبصورت اور مقبول ترین گیت
چلو اچھا ہوا تم بھول گئے
اک بھول ہی تھا مرا پیار۔۔۔۔او ساجنا
کے شاعر فیاض ہاشمی کو نگار ایوارڈ کا حقدار قرار دیا گیا تھا، اس گیت کو میڈم نور جہاں نے اپنی جادو بھری آواز سے سجایا تھا اور نثار بزمی نے اپنی مدھر موسیقی سے سنوارا تھا۔
آج کئی اور برسوں کے بعد میں اسی غزل کے خالق فیاض ہاشمی کے بارے میں ایک مضمون لکھ رہا تھا۔ فیاض ہاشمی صاحب سے ملنے کی مجھے جو خواہش تھی وہ بھی پوری ہو چکی تھی اور یہ میری خوش قسمتی تھی کہ میں ان سے ایک بار نہیں کئی بار مل چکا تھا اور میں ان کے بارے میں ان کی شاعری کے بارے میں بہت کچھ جان چکا تھا۔ فیاض ہاشمی نے اپنی شاعری کا آغاز ہندوستان سے کیا تھا اور ان کی ابتدا EMI گراموفون کمپنی سے ہوئی تھی۔
جہاں وہ بطور شاعر کافی عرصے تک وابستہ رہے تھے اور 1944ء میں ان کی لکھی ہوئی غزل جو طلعت محمود نے گراموفون کمپنی کے لیے ریکارڈ کرائی تھی، اس غزل کی دھن بنگالی موسیقار کمل داس گپتا نے مرتب کی تھی۔ طلعت محمود کی بھی یہ پہلی غزل تھی جس کی شہرت نے طلعت محمود کو صف اول کے گلوکاروں میں لا کے کھڑا کر دیا تھا اور اسی غزل نے فیاض ہاشمی کو عروج عطا کیا تھا۔ اس غزل کی مقبولیت نے ایک ریکارڈ قائم کر دیا تھا۔
اس غزل کو ریڈیو سیلون سے سب سے زیادہ نشر ہونے والی غزل کا اعزاز بھی ملا تھا جب یہ غزل دہلی ریڈیو اسٹیشن سے پہلی بار نشر ہوئی تو جناب زیڈ اے بخاری دہلی ریڈیو سٹیشن کے سربراہ تھے، جو پھر قیام پاکستان کے بعد ریڈیو پاکستان کے پہلے ڈائریکٹر جنرل بنائے گئے تھے۔
ہندوستان کے ہر ریڈیو سٹیشن سے موسیقی کے پروگراموں میں گیت اور غزلیں نشر ہوتی تھیں مگر کسی بھی گیت اور غزل کے ساتھ ان کے لکھنے والے کا نام نشر نہیں ہوتا تھا لیکن جب فیاض ہاشمی کی لکھی ہوئی غزل ''تصویر تیری دل مرا بہلا نہ سکے گی'' ہندوستان کے تمام ریڈیو سٹیشنوں سے دن میں کئی کئی بار نشر ہونے لگی اور ریڈیو سننے والے ہزاروں لوگوں نے خطوط کے ذریعے اس غزل کے شاعر کے بارے میں دریافت کیا تو اعلیٰ حکام روزانہ بے شمار خطوط دیکھ دیکھ کر پریشان ہو گئے تھے اور آخر ایک دن ریڈیو کے اعلیٰ حکام کو یہ فیصلہ کرنا پڑا کہ اب اس غزل کے شاعر کا نام نشر کرنا ناگزیر ہو گیا ہے تو پہلی بار ریڈیو سے فیاض ہاشمی کا نام ان کی غزل کے ساتھ ہندوستان کے ہر ریڈیو سے نشر کیا جانے لگا اور پھر یہ ریت آگے بڑھتی چلی گئی پھر آہستہ آہستہ سنگر اور موسیقار کے نام بھی ریڈیو سے نشر ہونے لگے اور اس طرح یہ اعزاز بھی فیاض ہاشمی کو جاتا ہے جن کی غزل کی مقبولیت نے دیگر شاعروں کے لیے بھی شہرت کے دروازے کھول دیے تھے اور پھر ایک دن EMI گراموفون کمپنی نے سب سے زیادہ فروخت ہونے والی غزل کے ریکارڈز پر فیاض ہاشمی کو اس ادارے نے سب سے زیادہ رائلٹی بھی دی تھی اور گولڈن ڈسک سے بھی نوازا تھا۔
فیاض ہاشمی نے EMI کے لیے کافی عرصے تک گیت، غزلیں، بھجن اور قوالیاں بھی لکھیں جو سارے ہندوستان میں ان کی شہرت کا باعث بنیں۔EMI ڈھاکہ آفس میں فیاض ہاشمی بطور منیجر بھی رہے اور بطور شاعر بھی۔ پھر جب قیام پاکستان کے بعد یہ پاکستان آ گئے تو ان کی پہلی ملازمت لاہور میں بھی EMI گراموفون کمپنی ہی میں رہی یہاں بھی ان کا قلم رواں رہا اور اس دوران فیاض ہاشمی صاحب نے EMI کے ذریعے بہت سے فنکار روشناس کرائے جن میں سائیں اختر، سائیں مرنا اور گلوکارہ انیقہ بانو کا نام بھی شامل ہے۔ ان دنوں لاہور کی فلم انڈسٹری عروج پر تھی پھر بھلا فیاض ہاشمی فلم انڈسٹری سے دور کس طرح رہ سکتے تھے۔
اس دوران ہدایت کار نجم نقوی نے اپنی فلم ''کنواری بیوہ'' کا آغاز کیا، فیاض ہاشمی کی ان سے پرانی دوستی تھی۔ ہدایت کار نجم نقوی نے ''کنواری بیوہ'' کے گیت فیاض ہاشمی سے لکھوائے مذکورہ فلم اداکارہ شمیم آرا کی بھی پہلی فلم تھی، مگر یہ فلم بری طرح فلاپ ہو گئی اور فلم کے فلاپ ہونے کے بعد بھی فلمی روایت کے برخلاف اداکارہ شمیم آرا کی قسمت نے اتنا ساتھ دیا کہ وہ مشہور ہوتی چلی گئی۔ اور فیاض ہاشمی کے لیے بھی لاہور کی فلم انڈسٹری کی راہیں کھلتی چلی گئیں۔ فیاض ہاشمی کی دوسری فلم ''انوکھی'' کے ایک گیت نے بڑی دھوم مچائی تھی جس کے بول تھے :
گاڑی کو چلانا بابو' ذرا ہلکے ہلکے ہلکے
کہیں دل کا جام نہ چھلکے
یہ گیت گلوکارہ زبیدہ خانم نے گایا تھا اور اس کی موسیقی ثمر برن نے دی تھی۔ جب کہ فلم کے دوسرے موسیقار حسن لطیف بھی تھے اور یہ گیت انڈین آرٹسٹ شیلا رمانی پر فلمایا گیا تھا جو ان دنوں پاکستان آئی ہوئی تھی اور اسے ''انوکھی'' میں ہیروئن کاسٹ کیا گیا تھا۔ یہ فلم 1956ء میں نمائش کے لیے پیش ہوئی تھی اور اپنے ایک اسی گیت کی وجہ سے فلم بینوں میں پسند کی گئی تھی۔ اس گیت کی مقبولیت نے فیاض ہاشمی کے لیے لاہور کی فلم انڈسٹری کے دروازے کھول دیے تھے اور پھر فیاض ہاشمی کچھ عرصے بعد EMI گراموفون کمپنی کی ملازمت کو چھوڑ کر فلمی دنیا کے لیل و نہار سے وابستہ ہو گئے تھے۔
اس دوران ہر فلمساز کی خواہش ہوتی تھی کہ ان کی فلموں کے گیت فیاض ہاشمی ہی لکھیں اس دور میں ان کی چند سپرہٹ فلموں کو فیاض ہاشمی کے گیتوں نے چار چاند لگائے تھے ان فلموں میں شب بخیر، سویرا، سوال، شریک حیات، عید مبارک، توبہ، اولاد، دیور بھابی، لاکھوں میں ایک، انجمن، وعدہ، بادل اور بجلی، آشیانہ، شبنم اور سہیلی جیسی کامیاب ترین فلموں کے نام شامل ہیں۔ فیاض ہاشمی کے کچھ گیت تو ایسے ہیں کہ سماعت کو آج بھی پھولوں کی سی مہک دیتے ہیں جن میں:
ہمیں کوئی غم نہیں تھا غم عاشقی سے پہلے
...
ہم نے جو پھول چنے دل میں چبھے جاتے ہیں
...
ہم بھول گئے ہر بات' مگر ترا پیار نہیں بھولے
...
آج جانے کی ضد نہ کرو
...
یہ کاغذی پھول جیسے چہرے
...
بھابی میری بھابی تم جیو ہزاروں سال
...
مکھڑے پہ سہرا ڈالے' آجا او آنے والے
...
ارے او بے مروت' ارے او بے وفا
...
کہیں دو دل جو مل جاتے، بگڑتا کیا زمانے کا
ان دنوں فیاض ہاشمی کے قلم کو گیتوں کی آبشار کہا جاتا تھا۔ یہاں میں ایک فلم ''بیداری'' کا بھی ضرور ذکر کروں گا جس نے سارے پاکستان میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے تھے۔ یہ فلم اپنی کہانی اور گیتوں کی وجہ سے سپرہٹ ہوئی تھی اور اس فلم کے مندرجہ ذیل دو گیتوں نے ہر دل میں جذبہ حب الوطنی کے دیپ روشن کر دیے تھے:
یوں دی ہمیں آزادی کہ دنیا ہوئی حیران
اے قائد اعظم ترا احسان ہے احسان
...
آؤ بچوں سیرا کرائیں تم کو پاکستان کی
جس کی خاطر ہم نے دی قربانی لاکھوں جان کی
جس طرح فیاض ہاشمی کے لکھے ہوئے قومی گیت لازوال ہیں اسی طرح فیاض ہاشمی کے قلم سے سدا بہار قوالیوں نے بھی جنم لیا تھا جن میں فلمساز و ہدایت کار ایس۔ایم۔یوسف کی فلموں ''توبہ'' اور ''اولاد'' کی قوالیوں نے بڑی شہرت حاصل کی تھی ان قوالیوں میں:
نہ ملتا گر یہ توبہ کا سہارا' ہم کہاں جاتے
...
حق لا الہ الاللہ فرما دیا کملی والے نے
ان قوالیوں کو سن کر ایک وجد سا طاری ہو جاتا اور ایمان تازہ ہو جاتا تھا۔ فیاض ہاشمی جتنے کامیاب نغمہ نگار تھے اتنے ہی اچھے مکالمہ نگار بھی تھے۔ ''انتخاب''، ''انمول'' اور فلم ''پہچان'' کے مکالموں کے علاوہ ایک فلم غریبوں کا بادشاہ بھی لکھی تھی اور ان فلموں کے مکالموں پر فیاض ہاشمی ایوارڈ کے حقدار قرار دیے گئے تھے اور نگار ایوارڈز تو ان کو کئی گیتوں پر دیے گئے تھے۔
میں جو بچپن سے ان کی شاعری کا دیوانہ تھا ایک دن مجھے یہ اعزاز بھی حاصل ہوا کہ ایک فلم ''ایک تھا پرنس'' میں مجھے فیاض ہاشمی کے ساتھ مکالمے لکھنے کا موقع ملا۔ اس فلم کے بارے میں آئندہ کالم میں کچھ تفصیل سے لکھوں گا۔ اور ان کے ساتھ چند آخری ان ملاقاتوں کا بھی تذکرہ کروں گا جب انھوں نے فلمی دنیا کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ دیا تھا۔ ان کی ذات میں ایک درویش چھپا ہوا تھا۔ اور اس درویش سے میری آخری ملاقات کراچی میں ہوئی تھی۔