تخلیقِ پاکستان

یہ کہنادرست نہیں کہ مسلم لیگ نے تحریک پاکستان کے دوران ایک بھی دن اسلامی نظام کے نفاذ کا دعویٰ کیا ہو


Muqtida Mansoor October 11, 2012
[email protected]

KARACHI: حمزہ علوی مرحوم برصغیر کے ان معدودے چند دانشوروں میں سے ایک تھے، جنہوں نے اس خطے کے سیاسی، سماجی،معاشی اور ثقافتی مسائل اور تقسیم کے اسباب کے ہر پہلو پر سائنسی انداز میں تحقیق کی۔

یہی وجہ ہے کہ ان کی تحاریر سطحی اورجذباتی جائزوں کی بجائے ٹھوس حقائق پر مبنی ہوتی ہیں۔وہ تاریخ، عمرانیات اور سیاسیات کے علاوہ معاشیات پر بھی گہری نظر رکھتے تھے اور تحقیق کے لیے عملی مطالعے کو اہمیت دیتے تھے۔چنانچہ پنجاب کے کسانوں کی حالت زار کو سمجھنے کے لیے انھوں نے کئی ماہ ساہیوال کے ایک دیہات میں گزارے اور زرعی معاشرت میں ہونے والے استحصال کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا۔ یہی سبب ہے کہ ان کی تحاریر غور وفکر کے نئے دریچے کھولتی ہیں۔لیکن پاکستانی عوام کی اکثریت حمزہ علوی مرحوم اور ان کے تحقیقی کام کے بارے میں بہت کم آگہی رکھتی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان کی تحاریرانگریزی میں ہیں اور پاکستان کے عوام کی اکثریت انگریزی سے نابلد ہے۔

چند اہم دانشوروں اور قلمکاروں نے ان کی تحاریر کو اردو کے قالب میں ڈھال کر ان کے خیالات کو عام قاری تک پہنچانے کی کوشش کی۔ڈاکٹر ریاض احمد شیخ بھی دانشوروں کے اسی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں، جوحمزہ علوی مرحوم کے افکار کو عوام تک پہنچانے کے خواہش مند ہیں۔ ڈاکٹر ریاض خود ایک محقق اور سماجی دانشور ہیں اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ اس وقت وہ کراچی کی ایک معتبر درسگاہ شہید ذوالفقار علی بھٹو انسٹیٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی(SZABIST)میں ڈین فیکلٹی آف سوشل سائنسز ہیں۔عمرانیات ان کا خاص مضمون ہے، لیکن برصغیر کی تاریخ ،سیاست اور سماج کا مطالعہ اور ان پر تحقیق ان کا محبوب مشغلہ ہے۔

ان کا تعلق جیکب آباد سے ہے اور سندھی ان کی مادری زبان ہے۔لیکن انھیں اردو پر خاصا عبور حاصل ہے،جس کا ثبوت ان کی اردو میں لکھی گئی کتب ہیں۔ زیر مطالعہ کتاب'' تخلیقِ پاکستان'' میںڈاکٹر ریاض نے حمزہ علوی کے چھ مضامین کا انتخاب کیا ہے۔ان میں سے ابتدائی دومضامین پاکستان کی تخلیق اور تقسیم کے مضمرات پر ہیں۔ دو مضامین پاکستان،افغانستان اور بھارت کے درمیان تعلقات اور پاکستان اور امریکا کے فوجی اتحاد پر ان کا تجزیاتی جائزہ ہیں۔باقی دو مضامین خلافت تحریک کے تضادات اور بدلتے سماج میں پاکستانی عورت کے کردارکے بارے میں ہیں۔

بظاہر آخری دوابواب اضافی محسوس ہوتے ہیں،لیکن جولوگ برٹش انڈیا میں مسلمانوں کی سیاسی تاریخ ،تقسیم کے سیاسی محرکات اور قیام پاکستان کے بعد نئے ملک کی ترجیحات کوسمجھناچاہتے ہیں،ان کے لیے خلافت تحریک کا پس منظراور اس کے دوران پیدا ہونے والے تضادات اور پھر ناکامی کے بارے میں آگہی بھی بہت زیادہ اہم ہے۔جہاں تک بدلتے سماج میں عورت کا کردار ہے، تو یہ مضمون بھی تخلیق پاکستان کے حوالے سے اہم ہے، کیونکہ 1980ء کا عشرہ جہاں ایک طرف خواتین کی سماجی حیثیت کی تنزلی کی دہائی تھی، وہیں خواتین کے حقوق کے لیے جدوجہد کو مہمیز لگانے کے حوالے سے بھی اہم رہی ہے۔

جنرل ضیاء کے دور میں مذہب کے نام پر پورے معاشرے کوحبس زدہ بنانے کی کوشش کی گئی،اس میں تمام شہری متاثرہوئے،لیکن اس کے اثرات سب سے زیادہ خواتین پر مرتب ہوئے،جنھیں سیاسی، سماجی اور معاشی طور پر محدود کرنے اور ان کی آزادی اور بااختیاریت کا راستہ روکنے کی مذموم کوشش کی گئی۔

کتاب کا پہلا مضمون تقسیم کے نشانات کی غلط تفہیم ہے،جو حمزہ علوی کے مضمونMisreading Partition Road Signsکا ترجمہ ہے۔اس مضمون میںحمزہ علوی نے برٹش انڈیا میں مسلمانوں اور ہندوئوں کی سیاسی، سماجی اور معاشی صورتحال کا تقابلی جائزہ پیش کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی اجتماعی نفسیات کے مختلف پہلوئوںکا بھی جائزہ لیا ہے۔اس تناظر میںانھوں نے بھارت کے قومی ترانے بندے ماترم کے خالق بینکم چندر چٹرجی کے نظریات کا سرسید احمد خان کے افکار سے بھی تقابل کرنے کی کوشش کی ہے۔ان کا دعویٰ ہے کہ سرسید روشن خیال ہونے کی وجہ سے ہندوئوں سے تعصب نہیںرکھتے تھے، بلکہ وہ ہندوئوں اور مسلمانوں کو برصغیرکی حسین دلہن کی دو آنکھیں قراردیتے ہیں۔

حمزہ علوی سرسید کے ہندوئوں کے بارے میں غیر متعصبانہ رویے کا ایک سبب ان کی راجہ رام موہن رائے کی حقیقت پسندی سے متاثر ہونا قرار دیتے ہیں۔ جہاں وہ سرسید کی مسلمانوں کی تعلیم کے حوالے سے خدمات اور عقائد کے حوالے سے وسیع النظر ی کی تعریف کرتے ہیں، وہیں وہ سرسید کے خواتین اور اجلاف(نچلی جاتیوں) کے بارے میں رویوں کے ناقد بھی ہیں۔اس مضمون میں وہ ابتدائی سیاسی وسماجی صورتحال کاجائزہ پیش کرنے کے بعد مسلم لیگ کے قیام اور مسلم حقوق کی تحریک کا تفصیلی تجزیہ کرتے ہیں۔

دوسرے مضمون تخلیقِ پاکستان کے سماجی محرکات اور نظریہ میں حمزہ علوی قائداعظم کے نظریات پر بحث کرتے ہیں۔ اس مقالے کا آغاز قائد کی11اگست 1947 کی دستور ساز اسمبلی میں کی گئی تقریر سے کرتے ہیں اور مختلف حوالوں سے ثابت کرتے ہیں کہ قائد کے جانشینوں نے اپنی گرتی ہوئی سیاسی ساکھ کو بحال کرنے کے لیے ان کے سیکولر نصب العین سے منہ موڑ لیا۔ان کا کہنا ہے کہ قرارداد مقاصد کی منظوری اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی،حالانکہ بنیادی اصول طے کرنے والی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں اسلامی نظام کے بارے میں کچھ نہیں کہا ۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ '' مولوی صاحبان کے دعوئوں کے برعکس مسلم لیگ نے تحریک خلافت کے درمیانی وقفے کو چھوڑ کر،اپنے سارے سیاسی سفر میں تواتر کے ساتھ سیکولر موقف برقرار رکھا۔اسلامی نظریے کو مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر لانے کی کئی مرتبہ کوششیںہوئیں ،مگر ہمیشہ ناکام رہیں۔'' دوسری اہم بات یہ ہے کہ کانگریس اور گاندھی جی نے تو خلافت تحریک کی حمایت کی لیکن قائد اعظم محمد عملی جناح نے خود کو اس سے الگ رکھا ۔ حمزہ علوی کہتے ہیں کہ آل انڈیا مسلم لیگ کا یہ سیکولر کردار تھا، جس کی وجہ سے مذہبی جماعتیں تحریک پاکستان کی شدید مخالف تھیں۔ لہٰذا یہ کہنادرست نہیں کہ مسلم لیگ نے تحریک پاکستان کے دوران ایک بھی دن اسلامی نظام کے نفاذ کا دعویٰ کیا ہو۔

تیسرا مضمون،پاکستان، افغانستان اور بھارت کے درمیان تعلق کے بارے میں ہے، جب کہ چوتھا مضمون پاکستان اورامریکا کے فوجی اتحادکی ابتداء اور اہمیت ہے۔ موضوع کے اعتبار سے دونوں مضامین ایک دوسرے سے خاصی حد تک جڑے ہوئے ہیں۔کیونکہ سرد جنگ کے زمانے میں پاکستان جس طرح امریکی اتحادی بنا، اس نے جنوبی ایشیاء کی سیاست کو خاصی حد تک متاثر کیا۔ایک عمومی تاثر یہ ہے کہ پاکستان نے امریکا سے تعلقات درحقیقت ہندوستان سے اپنے دفاع کو مستحکم کرنے کے لیے قائم کیے ۔

یہی وجہ ہے کہ قیام پاکستان کے وقت ہی سے پاکستان کے اپنے پڑوسی ممالک خاص طورپر بھارت اور افغانستان کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہوگئے تھے۔جب کہ امریکا پاکستان کو اس خطے میں سوویت یونین کوگرم پانیوں تک پہنچنے سے روکنے کے لیے استعمال کررہاتھا۔ اس بارے میں حمزہ علوی لکھتے ہیں کہ1980ء کی دہائی میں امریکی صدر ریگن نے جنرل ضیاء الحق کواس بنیاد پر بھرتی(Recruite)کیاتھا کہ وہ CIAسے مل کرسوویت یونین کے خلاف جنگ میں حصہ لینے کے لیے افغانWarlordsاور جنگجوئوں کو اکٹھا کرتے ہوئے اسلام کے نام پر جہاد شروع کریں گے۔

پانچواں مضمون یعنی'' پاکستانی عورت بدلتے سماج میں'' پر ہم اس اظہاریہ کے ابتداء میں تبصرہ کرچکے ہیں۔ چھٹا اورآخری مضمون تحریک خلافت کے تضادات اور تاریخ کے الجھائو سے متعلق ہے۔ یہ مضمون 1919ء سے 1924ء کے دوران چلنے والی خلافت تحریک کا تفصیلی جائزہ ہے۔ دراصل یہ ایک ایسی رومانوی تحریک تھی،جس نے ہندوستان کی جنگ آزادی کے تصور کو مذہبی تشخص دے کر خاصے بڑے پیمانے پر نقصان پہنچایا۔قائد اعظم کو اندازہ تھا کہ یہ تحریک ناکامی سے دوچار ہوگی، اس لیے وہ وطن چھوڑ کر انگلستان چلے گئے۔

گاندھی جی نے اس تحریک کو اپنے مخصوص مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ حمزہ علوی لکھتے ہیں کہ برصغیر میں مسلمان علماء کو پہلی مرتبہ سیاست میں باقاعدہ کردار ادا کرنے کا موقع ملا۔اس سے قبل ہندوستان کی سیاسی تاریخ میں علماء کاکوئی واضح کردار نہیں ہواکرتا تھا۔غرض کہ ہم نے اختصار کے ساتھ اس کتاب کے کچھ حصوں کا تذکرہ کیا ہے۔لیکن یہ ایک ایسی کتاب ہے، جس کے ہر باب میںمتعلقہ موضوع پر تفصیلی بحث کی گئی ہے۔یہ کتاب تاریخ، سیاسیات اور عمرانیات کے طلبا وطالبات کے علاوہ ان تمام شہریوں کے لیے نہایت اہم ہے، جن کے ذہنوں میں تخلیق پاکستان کے حوالے سے ان گنت سوالات کلبلاتے رہتے ہیں۔حمزہ علوی کے مضامین پر مشتمل یہ کتاب پاکستان کی تاریخ کو درست سمت دینے کی ایک اہم کوشش ہے۔ جس کے لیے ڈاکٹر ریاض احمد شیخ مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے سب سے پہلے مضامین کا انتخاب کیا اور اس کے بعد خوبصورت انداز میں اس کا ترجمہ کیا۔ کتاب تاریخ پبلیکیشنز نے شایع کی ہے، جس کی قیمت 240روپے ہے، جو ہر شہری کی دسترس میں ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں