جدید تراش خراش کے بلٹ پروف لباس

کراچی میں حب میں بھی کچھ نجی کمپنیاں بلٹ پروف واسکٹ، چمڑے اور جینز کی دیدہ زیب جیکٹس تیار کر رہی ہیں


سید بابر علی April 26, 2015
امریکی فیشن اسٹور گاہکوں کی مرضی کے مطابق حفاظتی ملبوسات تیار کر رہا ہے ۔ فوٹو : فائل

KARACHI: کچھ عرصے قبل تک آتشیں ہتھیاروں سے تحفظ کے لیے بھاری اور بھدے لباس پہنے جاتے تھے۔ وزن زیادہ ہونے کی وجہ سے اسے پہننے والا فرد زیادہ حرکت نہیں کر پاتا تھا۔

لیکن اب ٹیکنالوجی کے میدان میں ہونے والی تیز رفتار ترقی نے بلٹ پروف لباس کو بھی جدید تراش خراش کے ملبوسات سے تبدیل کردیا ہے۔ اب آپ ٹی شرٹ، تھری پیس سوٹ یا کرتے شلوار کے نیچے بھی اس لباس کو پہن کر بہ آسانی چل پھر سکتے ہیں۔



بلٹ پروف لباس کو فیشن ایبل انداز دینے کا سہرا امریکی ریاست ورجینیا کے فیشن اسٹور Aspettoکو جاتا ہے۔ اس اسٹور کو حیدر عباس اپنے شراکت دار رابرٹ ڈیوس کے ساتھ مل کر چلاتے ہیں۔

چمک دار اطالوی ریشم، بچے کھچے اون کے گچھوں، کپڑے کی کترنوں اور پیمائشی فیتوں کی بدولت بہ ظاہر یہ دکان ایک یونیفارم سینے والے درزی کی دکان نظر آتی ہے، لیکن دکان کے پچھلے حصے میں موجود سازوسامان کو اس کے مالکان 'بیلسٹک' کا نام دیتے ہیں۔ جسے ہم عام فہم زبان میں بلٹ پروف سامان کہتے ہیں۔ حیدر کے مطابق بیلسٹک کو شہری کو زرہ بکتر کا نام بھی دے سکتے ہیں۔

وہ محتاط انداز میں اس بات کو تیکنیکی طور پر واضح کرتے ہوئے کہتے ہیں 'درحقیقت یہ بلٹ ریسسٹینٹ (گولی کے خلاف مزاحم ) ہے۔ بلٹ پروف نہیں، حقیقت میں اس دنیا میں کچھ بھی بلٹ پروف نہیں ہے، کیوں کہ ہتھیاروں میں ہر وقت کچھ نہ کچھ بہتری ہوتی رہتی ہے جس سے ان کی (گولی) کی جسم میں پیوست ہونے کی صلاحیت بڑھتی رہتی ہے۔



Aspetto کو بڑے پیمانے پر واسکٹ اور قمیصوں کے آرڈر ملتے رہتے ہیں، ان کی خاص بات گاہک کے مرضی کے مطابق ڈیزائن تیار کرنا ہے۔ ان کی مصنوعات میں تھری پیس سوٹ، ڈریس شرٹس، ہیلمیٹ، کمر پر لادنے والے بستے، مشرق وسطیٰ کے روایتی ملبوسات یہاں تک کہ ایسے نیکر بھی شامل ہیں جو ران میں گولی لگنے کی صورت میں خون کے بہاؤ کو روکنے میں مدد دیتے ہیں۔

حیدر اور ڈیوس کا کہنا ہے کہ وہ بلٹ پروف لباس کو خوب سے خوب تر بنانے کے لیے جنون کی حد تک کام کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ہم بلیسٹک پینلز کو کپڑوں کے ساتھ سینے کے بجائے پینلز کے استر کے لیے خفیہ خانے بناتے ہیں، جو کہ ایک سخت فوم کی طرح ہوتے ہیں۔ زپ سے مزین اس خول کو کپڑوں کی دھلائی کے وقت آسانی سے علیحدہ بھی کیا جاسکتا ہے۔ اس مخصوص ڈیزائن کے لیے نہایت ہی ہلکا بلٹ پروف میٹیریل درکار ہوتا ہے۔

جب ہم نے Aspettoکا آغاز کیا تو اُس وقت یہ میٹیریل دست یاب نہیں تھا۔ اس مقصد کے لیے ہم نے پوائنٹ بلینک نامی ایک کمپنی سے شراکت داری کی۔ اس کمپنی نے ہمیں ایسا ہلکا میٹیریل تیار کرکے دیا جسے اگر لباس کے ڈیزائن میںبنا کسی جوڑ کے زپ کیا جائے تو ہینڈ گن (ریوالور، پستول)، بم کے ٹکڑوں اور چھروں کو روکنے کا اہل تھا۔ معیاری بلٹ پروف پینلز سے وزن میں نصف ہونے کے باوجود یہ مادہ حفاظت کے معیار پر پورا اترتا ہے۔

یہ میٹیریل نائن ایم ایم، پوائنٹ 40کیلیبر اور پوائنٹ 45 کیلیبر کی نیم خودکار رائفل کی گولیوں کو روک سکتا ہے۔ حیدر کا کہنا ہے کہ نئی اور پہلے سے بہتر بلٹ پروف واسکٹ کا وزن چار پونڈ (تقریباً ایک کلو آٹھ سو گرام) اور موٹائی ایک چوتھائی انچ ہے اور یہ بہت سے پولیس والوں کی بلٹ پروف جیکٹ سے زیادہ مضبوط ہے۔



یہ معیار قومی ادارہ برائے انصاف، ڈرگ انفورسمینٹ ایڈمنسٹریشن (ڈی ای اے) اور وفاقی ادارہ برائے تحقیقات (ایف بی آئی) کی ٹیسٹنگ کے بعد متعین کیا گیا ہے۔ ڈیوس اور حیدر کے مطابق وہ درج بالا تین حرفی اداروں کے ساتھ مل کر بلٹ پروف اور فائرپروف انڈرشرٹس (بنیان) تیار کر رہے ہیں، کیوں کہ عام کپڑوں کے نیچے نظر نہ آنے والے بلٹ پروف کپڑوں میں کچھ ایجنسیوں نے اپنی دل چسپی ظاہر کی تھی۔

حیدر کا کہنا ہے کہ مشرق وسطیٰ کی دو حکومتیں بھی ہمارے گاہکوں میں شامل ہیں۔ افغانستان کی ایک سیکیوریٹی کمپنی کے ارکان اور سعودی عرب کے شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والی کچھ خواتین ہماری کلائنٹ ہیں۔ اس بارے میں اُن کا کہنا ہے کہ ہلکے بیلسٹک میٹریل کو متعارف کروانے کے بعد سعودی شاہی خاندان کے نمائندے نے ہم سے رابطہ کیا۔ شاہی خاندان کی یہ کچھ خواتین بلٹ پروف جلابیا (عرب قبائل کا روایتی گاؤن) خریدنے میں دل چسپی رکھتی تھیں۔

انہوں نے ہمیں باریک ریشم سے ایسے جلابیا بنانے کا آرڈر دیا جو بیلسٹک میٹیریل سے مزین ہونے کے ساتھ ساتھ خوب صورت بھی ہوں۔ ڈیوس کا کہنا ہے کہ اس کے نمونے منظور ہوچکے ہیں اور جلابیا کی تیاری کا عمل تکمیل کے مراحل میں ہے۔ اس کام کے لیے ہم نے جو حفاظتی میٹیریل استعمال کیا ہے وہ تقریباً ٹیپ کی طرح کا ہے۔ یہ ٹیپ بیلسٹک کا وزن سہارنے کے ساتھ ساتھ جلابیا کو ریشم کی طرح ہوا میں لہرانے کا اہل بھی بناتا ہے۔



افغانستان کے گاہکوں کے لیے ہم بلٹ پروف کرتے تیار کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے حیدر کا کہنا ہے کہ ' ہمارے گاہک افغانستان میں مقامی لوگوں کو تربیت دے رہے ہیں اور اسی لیے انہوں نے وہاں مردوں کے روایتی لباس کرتے، سوٹ اور بنیان کا بھی آرڈر دیا ہے۔ ہم یہ کُرتے بہترین کاٹن سے بنارہے ہیں۔ حیدر کے مطابق وہ اپنی بلٹ پروف مصنوعات کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے اپنے تمام گاہکوں کا پس منظر اچھی طرح چیک کرتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں،''ہم اپنے بیلسٹک ملبوسات پہننے والے ہر شخص کے ماضی اور حال کے بارے میں ہر بات جاننا چاہتے ہیں۔'' مقامی کلائنٹ کے بارے میں ہم ریاستی اداروں سے تحقیقات کرواتے ہیں جب کہ بین الاقوامی خریداروں کے لیے پہلے ہمارے پاس رجسٹر ہوکر اپنی معلومات جمع کروانا لازمی ہے۔ ان معلومات کو ہم اُس فرد کے آبائی ملک کی وزارت داخلہ سے چیک کرتے ہیں۔

بلٹ پروف لباس کی فروخت کے حوالے سے ڈیوس کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے ملنے والے آرڈر کی تعداد تو ایک ہی رہتی ہے لیکن انفرادی طور پر خریداری کی شرح میں امن و امان کی صورت حال کے لحاظ سے اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے۔ کسی بُری خبر کے نتیجے میں ہماری سیل میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ کنیکٹی کٹ کے سینڈی ہوک ایلیمینٹری اسکول میں ہونے والی فائرنگ کے بعد ہمیں بڑی تعداد میں بلٹ پروف بستوں کے آرڈر موصول ہوئے تھے۔

حیدر کا کہنا ہے کہ بلٹ پروف بیگ میدان جنگ کا اہم سامان ہے اور ایلیمینٹری کے طلبا کے لیے گلابی بلٹ پروف بیگ کی تیاری کا مرحلہ ہمارے لیے بہت مایوس کُن تھا۔ اسی طرح چارلی ہیبیڈو پر حملے کے بعد ہماری بلٹ پرو ف بنیانوں کی فروخت میں اضافہ ہوگیا تھا۔ یہ بنیان ہماری مقبول ترین پروڈکٹ ہے، جسے زیادہ تر قانون نافذ کرنے والے ادارے، کاروباری شخصیات اور اعلیٰ سرکاری افسران خریدتے ہیں۔



بلٹ پروف ملبوسات کے بعد حیدر اور ڈیوس کی توجہ ایسے بلٹ پروف آلات بنانا ہے جو وزن میں ہلکے ہونے کے ساتھ ساتھ پہننے میں مزید آرام دہ ہوں۔

ڈیوس اور حیدر کا کہنا ہے کہ ہم خواتین کے لیے بھی دیدہ زیب بلٹ پروف ملبوسات تیار کرنے پر کام کر رہے ہیں اور گذشتہ حکومت کے ساتھ ہونے والے معاہدے میں 15سو بنیان خواتین کے لیے بھی بنائے گئے تھے۔

اب ہم خواتین کے لیے بلٹ پروف پینلز سے مزین رنگین کوٹ کی تیاری پر کام کر رہے ہیں۔ حیدر کے مطابق ہمارے پاس اس وقت بڑی تعداد میں بلٹ پروف لگژری بیگ بنانے کے آرڈر موجود ہیں۔

 



حال ہی میں ہم نے ایک کاروباری خاتون کو ہزاروں ڈالر مالیت کا بیگ تیار کرکے دیا ہے۔ قیمت کے حوالے سے ڈیوس کا کہنا ہے کہ ایک بلٹ پروف سوٹ کی قیمت 5ہزار سے7ہزار ڈالر، ڈریس شرٹ تقریباً1ہزار تک ہے۔ جب کہ مارکیٹ میں ایک اچھے سوٹ کی قیمت 2سے3ہزار ڈالر ہے۔ اس طرح ہم صرف 5ہزار ڈالر میں آپ کی زندگی کو تحفظ فراہم کر رہے ہیں۔

پاکستان سمیت دنیا بھر میں بلٹ پروف جیکٹس، واسکٹ، بستے اور ملبوسات بنانے کے لیے مختلف درجات متعین کیے گئے ہیں جو درج ذیل ہیں:


٭لیول II-A
اس لیول کی واسکٹ سب سے پتلی کہلاتی ہے۔ عموماً یہ 4ملی میٹر (0.16انچ) موٹی ہوتی ہے۔ اسے نرم میٹریل سے بنایا جاتا ہے۔ اس لیول کی واسکٹ اور ملبوسات کپڑوں کے اندر اور زیادہ دیر تک پہننے کے لیے ڈیزائن کیے جاتے ہیں۔

٭لیولII
لیولIIبلٹ ری سِسٹنٹ واسکٹ کی موٹائی عموماً 5 ملی میٹر (0.20انچ) ہوتی ہے۔ اس واسکٹ کو زیادہ تر گشت پر مامور پولیس افسران پہنتے ہیں۔ اسے مخفی طور پر ڈھیلی قمیص اور کپڑوں کے نیچے بھی پہنا جا سکتا ہے۔ لیول II-Aاور لیول II کو خصوصاً چھرے والے ہتھیاروں سے تحفظ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

٭لیول 3اور لیول 4
اس سطح کی بلٹ پروف واسکٹ میں سینے اور پشت کو کور کرنے کے لیے 10سے 12انچ کی آرمر پلیٹیں استعمال کی جاتی ہیں، جن کی موٹائی 6سے25 ملی میٹر (نصف سے تین چوتھائی انچ) تک ہوتی ہے۔ ہر پلیٹ کا وزن 4سے 9پاؤنڈ تک ہوتا ہے۔ اس واسکٹ کو کپڑوں کے اندر نہیں پہنا جا سکتا۔ اس بلٹ پروف جیکٹ کا استعمال زیادہ تر فوجی اور نیم فوجی اہل کار کرتے ہیں۔ بچوں کے لیے تیار کیے جانے والے بلٹ بستوں اور بلٹ پروف لیپ ٹاپ کیس میں بھی اسی سطح کی پلیٹ استعمال کی جاتی ہے، جس کا وزن 3پاؤنڈ تک ہوتا ہے۔

طالب علموں کے لیے خصوصی بلٹ پروف مصنوعات


کچھ دہائی قبل تک دہشت گردوں کے بھی کچھ اصول ہوتے تھے۔ دہشت گرد بچوں کو براہ راست یا جان بوجھ کر نشانہ بنانے سے گریز کرتے تھے، لیکن اب دہشت گردوں کی وحشت و بربریت نے انسانیت کو بھی شرمانے پر مجبور کردیا ہے۔ دہشت گرد اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے اسکولوں اور کالجوں میں زیرتعلیم طلبا کو نشانہ بنا رہے ہیں، جس کی ایک خوف ناک مثال آرمی پبلک اسکول پشاور میں ہونے والا سانحہ ہے۔

بچے دہشت گردوں کے لیے آسان ہدف سمجھے جاتے ہیں۔ طلبا کا قتل عام پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں ہو یا کینیا کی گیریسا یونیورسٹی میں، اس نوعیت کے ہر واقعے کی دنیا بھر میں رنگ و نسل، ذات پات اور مذہب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مذمت کی جاتی ہے۔

دوسری طرف امریکی اسکولوں میں ہم جماعت یا کسی جنونی شخص کی جانب سے فائرنگ کے واقعات معمول کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔ اسی صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے بچوں کے لیے آتشیں ہتھیاروں سے تحفظ فراہم کرنے والے سامان کی تیاری اور فروخت میں روز افزوں اضافہ ہورہا ہے۔

متعدد امریکی کمپنیاں طالب علموں کے لیے بڑے پیمانے پر بلٹ پروف بستے، جیکٹس، لیپ ٹاپ کیس اور سیفٹی کٹس بنا رہی ہیں، جن کی قیمتیں 100ڈالر سے لے کر ہزاروں ڈالر تک ہیں۔ پاکستان کے معاشی حب کراچی میں بھی کچھ نجی کمپنیاں بلٹ پروف واسکٹ، چمڑے اور جینز کی دیدہ زیب جیکٹس تیار کر رہی ہیں۔ تاہم یہ کمپنیاں اپنی مصنوعات صرف قانون نافذ کرنے والے ملکی اور غیرملکی اداروں کو فروخت کرتی ہیں۔

آتشیں ہتھیاروں اور بلٹ پروف آلات کی تاریخ


جنگ وجدل اور نت نئے ہتھیاروں سے قتل وغارت گری انسانی تاریخ کا حصہ رہا ہے۔ ایک وقت تھا کہ مخالف کو قتل یا زخمی کرنے کے لیے حملہ آور کو نہایت قریب سے حملہ کرنا پڑتا تھا۔ اُس دور کے ہتھیاروں میں برچھیاں، نیزے، تلواریں اور اسی نوعیت کے دیگر تیز دھار ہتھیار استعمال کیے جاتے تھے۔

انیسویں صدی میں چینیوں نے بارود ایجاد کیا۔ دسویں صدی کے وسط میں دنیا کا پہلا آتشیں ہتھیار 'فائر لانس' کے نام سے بنایا گیا۔ بارہویں صدی کے آخر میں چینی شہنشاہ یوآن کے دورِحکومت میں دنیا کے پہلے آتشیں ہتھیار کو مزید بہتر بنا کر 'دستی توپ ' کی شکل دی گئی۔

اٹھارھویں صدی کے وسط تک دستی توپ کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوششیں کی گئی۔ 1860میں رچرڈ گیٹلنگ نے تیزی سے فائر کرنے والا ہتھیار ایجاد کیا۔ اس فوری فائر کرنے والی گن کو 1860میں امریکا میں ہونے والی سول وار میں اتحادی افواج نے کام یابی سے استعمال کیا، تاہم اُس وقت تک اس کی ہلاکت خیزی بہت کم تھی۔

انیسویں صدی کے آغاز میں جرمنی کی مشہور کاروباری شخصیت تھیوڈور برگ مین نےMP18.1 کے نام سے دنیا کی پہلی سب مشین گن ایجاد کی۔ 1918میں گولیوں کی شکل میں فائر کرنے والا یہ خود کار ہتھیار جرمن فوجیوں کے حوالے کیا گیا، جنہوں نے اسے پہلی جنگ عظیم میں پرائمری ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔



دنیا کی پہلی اسالٹ رائفل بھی دوسری جنگ عظیم کے دوران جرمنی کی جانب سے متعارف کرا ئی گئی۔ STG44 کے نام سے بننے والی اس اسالٹ رائفل نے آتشیں ہتھیار بنانے کی دوڑ کو جلا بخشی اور آج مہلک سے مہلک ہتھیار دنیا بھر کی مارکیٹوں میں موجود ہیں۔ زرہ بکتر کی شکل میں بلٹ پروف لباس تو زمانہ قدیم ہی سے موجود تھا، لیکن اگر تجارتی بنیادوں پر دیکھا جائے تو دنیا کی پہلی باقاعدہ بلٹ پروف جیکٹ ڈبلن کے ایک درزی نے 1840میں فروخت کی۔

1860کے اواخر میں جو سین حکومت (موجودہ جمہوریہ کوریا) میں Myeonje Baegab کے نام سے پہلی نرم بلٹ پروف واسکٹ ایجاد کی گئی۔ یہ بلٹ پروف واسکٹ روئی کی تیرہ سے تیس پرتوں سے بنائی گئی تھی۔1871میں امریکا کی جانب سے کوریا پر ہونے والی پہلی فوجی کارروائی میں اس واسکٹ کو بھرپور طریقے سے استعمال کیا گیا۔

یہ واسکٹ گولی کو روکنے میں تو کام یاب رہی لیکن روئی کی وجہ سے جلد آگ پکڑنے کی صلاحیت اور گرم ہونے کی وجہ سے اس کا استعمال ختم کر دیا گیا ۔ امریکی فوج کی جانب سے جنگ کے دوران تحویل میں لی گئی ایک Myeonje baegab بلٹ پروف واسکٹ 2007تک امریکا کے اسمتھ سونیین عجائب گھر میں محفوظ تھی۔

بعدازاں اس واسکٹ کو حکومتِ کوریا کو واپس کردیا گیا ۔ پہلی جنگ عظیم میں جرمنوں نے لوہے کی مضبوط دھاتوں سے بنا خول استعمال کیا۔1920 سے 1930کی دہائی میں امریکا کی جرائم پیشہ تنظیموں کی جانب سے روئی اور کپڑے کی پتلی تہوں سے بنی سستی اور کارآمد بلٹ پروف واسکٹ کا استعمال عروج پر رہا۔ یہ واسکٹ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پرانے ہتھیاروں کی گولیوں کو روکنے میں بہت کارآمد تھی۔

اس واسکٹ کا توڑ کرنے کے لیے ایف بی آئی اور دیگر ایجنسیوں نے میگنم357اور سپر38 جیسے طاقت ور کارتوس استعمال کرنا شروع کیے۔ دوسری جنگ عظیم اور اس کے بعد بلٹ پروف آلات کو خصوصاً جیکٹ کو بہتر سے بہتر بنانے کا عمل اب تک جاری ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں