بیچاری پیپلز پارٹی…
پنجاب کے کنٹونمنٹ بورڈز میں پیپلز پارٹی ایک نشست بھی حاصل نہیں کر سکی
کنٹونمنٹ بورڈز کے الیکشن نتائج میں بیچاری پیپلز پارٹی کی 7 نشستیں دیکھ کر ''مفاہمتی ڈاکرائن'' پر کیا بیت رہی ہو گی' اس کے بارے میں تو صرف اندازے ہی لگائے جا سکتے ہیں لیکن مجھے احمد فراز کی ایک آزاد نظم ''کہا نہیں تھا'' بے طرح یاد آ رہی ہے۔ نظم خاصی طویل ہے' قارئین کے ذوق مطالعہ کے لیے اس کا پہلا بند حاضر ہے
کہا تھا
اس شہر کو نہ جاؤ
اب اپنی آنکھوں سے دیکھ آئے
تو رو رہے ہو
کہ اب وہاں تم نہیں
نئے لوگ بس گئے ہیں
پنجاب کے کنٹونمنٹ بورڈز میں پیپلز پارٹی ایک نشست بھی حاصل نہیں کر سکی۔سچی بات ہے' پیپلز پارٹی کے امیدواروں کو جتنے ووٹ پڑے' ان کی تعداد لکھتے ہوئے مجھے تو شرم محسوس ہوتی ہے' کسی اور کے بارے میں مجھے پتہ نہیں ہے۔ وہ پیپلز پارٹی جو کبھی پنجاب کی سب سے بڑی پارٹی ہوا کرتی تھی' اب وہ تحریک انصاف کے بعد کہیں تیسرے یا چوتھے درجے پر گرتی نظر آ رہی ہے۔ کہنے کو پنجاب میں پارٹی کی تنظیمیں موجود ہیں ' یہاں ایک نہیں دو صدر صاحبان پیپلز پارٹی کو مضبوط و توانا بنانے میںدن رات مصروف ہیں لیکن پارٹی ہے کہ دن بدن کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ بیچارے عہدیدار بھی کیا کریں' پارٹی کی اعلیٰ قیادت کی کوئی لائن آف ایکشن یا کوئی نظریہ ہو گا تو کارکن متحرک ہوں گے۔ محض مفاہمت تو کوئی سیاسی نظریہ نہیں ہوتا' یہ تو سب کو خوش رکھ کر اپنا الو سیدھا رکھنے والا فارمولا ہے۔
پنجاب میں محاورا ہے کہ جس کا کوئی مخالف نہیں ہے تو سمجھ لو کہ وہ بیکار آدمی ہے۔ پیپلز پارٹی بھی کم از کم پنجاب کی حد تک بے کار ہو چکی ہے کیونکہ سب کویقین ہے کہ پنجاب میں یہ پارٹی کبھی برسراقتدار نہیں آ سکتی۔ جن دنوں اسلام آباد میں دھرنے جاری تھے' لاہور میں ایک جیالے سے ملاقات ہوئی' گڑھی خدا بخش میں محترمہ کی برسی کے حوالے سے تقریب تھی' میں نے پوچھا،' تم وہاں نہیں گئے' تو اس نے برجستہ جواب دیا کہ وہاں جا کر یہی سننا ہے کہ ''ہم نواز شریف کے ساتھ ہیں''۔ یہی بات میں لاہور میں اپنے حلقے کے ایم این اے یا ایم پی اے کے پاس جا کر کہہ دیتا ہوں کہ میں مسلم لیگ ن کے ساتھ ہوں' اس کے لیے اتنی دور جانے کی کیا ضرورت ہے۔
مجھے بڑے دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ پیپلز پارٹی کا پنجاب میں ووٹر نئی راہوں کا مسافر ہو گیا ہے' جس طرح چڑیا کا بچہ ایک دفعہ گھونسلے سے باہر گر جائے تو پھر وہ دوبارہ کبھی گھونسلے میں نہیں رہتا' ووٹر اور کارکن کی نفسیات یا عادت بھی ایسی ہی ہوتی ہے' کسی سیاسی جماعت کا کارکن ایک بار دوسری جماعت کی الیکشن مہم میں شامل ہو گیا تو پھر وہ اپنی سابق پارٹی میں بمشکل ہی واپس آتا ہے' اسی طرح جس ووٹر نے اپنی روایتی پارٹی سے ہٹ کر کسی نئی جماعت کو ووٹ دے دیا تو پھر وہ دوبارہ کبھی پرانی پارٹی کو ووٹ نہیں دے گا' اب بھی بعض حضرات خوش فہمی کا شکار ہو کریاد دلاتے ہیں کہ1997 میں پیپلز پارٹی کو پورے پاکستان سے سترہ یا اٹھارہ نشستیں ملیں تھیں'پنجاب سے قومی اسمبلی سے ایک بھی نشست نہیں تھی البتہ پنجاب اسمبلی میں تین یا چار نشستیں تھیں۔
پیپلز پارٹی پنجاب میں اپنا اپوزیشن لیڈر بنانے کی پوزیشن میں بھی نہیں تھی' اس وقت میاں منظور وٹو کی پارٹی مسلم لیگ جناح کے سعید احمد منہیس اپوزیشن لیڈر بنے تھے۔ جب پرویزمشرف نے 202 میں عام انتخابات کرائے تو اس وقت پیپلز پارٹی قومی اسمبلی میں ق لیگ کے بعد دوسری بڑی پارٹی کے طور پر ابھری۔ تاریخ کا عجب اتفاق ہے کہ 97 میں دو تہائی اکثریت لینے والی مسلم لیگ کے مقدر میں 18 سیٹیں آئیں۔ یوں جس جماعت نے پیپلز پارٹی کو 18 نشستوں تک محدود کیا' وہ خود اتنی ہی نشستوں پر آ گئی' 2008ء کے الیکشن میں پیپلز پارٹی قومی اسمبلی میں سنگل لارجسٹ پارٹی بنی اور اس نے مرکز میں حکومت بنائی' آصف زرداری مشرف کی جگہ صدر بن گئے' پنجاب اسمبلی میں پیپلز پارٹی کی 108 نشستیں تھیں۔
شروع میں وہ تین سال مسلم لیگ ن کے ساتھ مخلوط حکومت کا حصہ رہی' بعد میں حکومت سے علیحدگی ہو گئی تو راجہ ریاض اپوزیشن لیڈر بن گئے۔ پھر 2013 کے الیکشن میں پیپلز پارٹی سندھ میں برسراقتدار آئی جب کہ قومی اسمبلی میں وہ اپنا اپوزیشن لیڈر بنوانے میں کامیاب رہی لیکن پنجاب میں اس کا صفایا ہو گیا اور اب اس کے پاس غالباً 4 نشستیں ہیں۔خوش فہم حضرات یہ اعدادوشمار پیش کر کے آخر میںکہتے ہیں کہ جب بلاول بھٹو زرداری قیادت کریں گے اور 2018 کے الیکشن ہوںگے تو پیپلز پارٹی وسطیٰ پنجاب نہ سہی جنوبی پنجاب میں اپنی کھوئی ہوئی نشستیں دوبارہ حاصل کر لے گی' اللہ کرے ایسا ہو جائے لیکن مفاہمت جس رخ پر چل رہی ہے' حالات مایوسی کی خبر دیتے ہیں۔
پیپلز پارٹی کے ماضی کے زوال اور حالیہ زوال میں فرق ہے۔ ماضی میں پیپلز پارٹی کو اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے ہرایا جاتا تھا' پیپلز پارٹی کا جیالا اور ووٹر اس حقیقت کو سمجھتا تھا' محترمہ بے نظیر بھٹو نے لیڈر شپ کا حق ادا کیا' وہ بالادست قوتوں کو للکارتی رہیں ' جیالا ان سے انسپاریشن لیتا رہا اور مایوس نہیں ہوا لیکن آج کا زوال اسٹیبلشمنٹ کی وجہ سے نہیں بلکہ پنجاب میں ''طاقت'' کے ساتھ بانہوں میں بانہیں ڈال کر چلنا ہے یا اس کے سامنے سر نڈر کر دینے کے ردعمل سے ہوا۔ سندھ کا مجھے پتہ نہیں لیکن پنجاب میں مفاہمتی ڈاکرائن کا مطلب سرنڈرہی لیا جا رہا ہے۔
سیاست کا رنگ ڈھنگ تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے' مسلم لیگ ن پنجاب میں گہری جڑیں بنا چکی ہے۔حالیہ کنٹونمنٹ بورڈ الیکشن کے نتائج اس کا ثبوت ہیں۔ تحریک انصاف خود کو متبادل کے طور پر پیش کر رہی ہے' المیہ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اپنے آپ کو متبادل کے طور پر بھی پیش نہیں کر رہی' کنٹونمنٹ الیکشن میں آزاد امیدوار بڑی تعداد میں کامیاب ہوئے ہیں' وہ مسلم لیگ ن کے بعد دوسری بڑی پارٹی کے طور پر ابھرے ہیں' پی ٹی آئی تیسرے نمبر پر رہی ہے' پیپلز پارٹی کا تو کوئی نمبر ہی نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت کی اپوزیشن نہیں کر رہی' ایسی صورت میں وہ ووٹر جو ن لیگ کو ووٹ نہیں دینا چاہتا' اس کے پاس کیا متبادل ہو گا' ظاہر ہے کہ وہ یا تو کسی آزاد امیدوار کو ووٹ دے گا یا پھر مسلم لیگ ن کی اپوزیشن کرنے والی کسی طاقتور سیاسی جماعت کا انتخاب کرے گا۔
ایسا لگتا ہے کہ جناب آصف زرداری نے صرف سندھ پر اکتفا کر لیا ہے' سندھ میں بھی کراچی پیپلز پارٹی کے پاس نہیں ہے' آ جا کہ صرف لیاری کا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔ یوں وہ دیہی سندھ تک محدود ہو رہی ہے لیکن تابکہ۔ باکسنگ مقابلے میں کوئی باکسر اپنے مدمقابل کے سامنے رنگ کے ایک کونے میں کھڑے ہو کر اور اپنے دستانوں کو منہ پر رکھ کر کتنی دیر مخالف کے مکے برداشت کر سکتا ہے۔ اسے مقابلے کے لیے رنگ کے کونے سے باہر نکل کر جارحانہ مکے بازی کرنے سے ہی فتح یا قابل عزت ہار نصیب ہو سکتی ہے۔ اگر وہ کونے سے باہر نہیں نکلتا تو بلاآخر اس کا مقدر ناک آؤٹ ہونا ہو گا۔
لیاری میں جلسہ کر کے یہاں کے جیالے کو حوصلہ دیا گیاہے' پیپلز پارٹی کے پاس کراچی میں لیاری کے سوا کچھ نہیں ہے' یہاں کے جلسے میں ترقیاتی پیکیج کا اعلان ہوا ہے 'یہ بھی کہا گیا کہ یہاں سے الیکشن مہم شروع کر دی گئی ہے اور ہر شہر میں جلسے کریں گے لیکن یہ نوید بھی سنائی گئی کہ جب بلاول اور آصفہ بھٹو آئیں گے تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔یہ خواب کیا تعبیر سامنے لاتا ہے 'اس کے لیے آیندہ بلدیاتی الیکشن اور 2018کے عام انتخابات تک انتظار فرمائیں۔