شعورکی روشنی کا تسلسل

زندگی تیزی سے رنگ بدلتی ہے۔ جو آج ہے وہ کل نہیں ملتا۔ جوکل تھا اس کا ذکر آج کہیں نہیں ہے۔


Shabnam Gul April 30, 2015
[email protected]

زندگی مختصر ہے۔ ہر لمحہ فنا کی طرف سفرکر رہا ہے، لیکن انسان فنا کو نہیں سوچتا وہ زندگی کے شوروغل میں ڈوبا رہتا ہے۔آوازوں کا اپنا آہنگ ہے، خاموشی کی ایک الگ تاثیر ہے۔ ان آوازوں اور خاموشی کے درمیان زندگی کی بے ثباتی کا دکھ تیرتا ہے فضاؤں میں۔ بقول عمر خیام کے:

ہم سب مٹی ہیں اے ساقی! تم ساز بجاؤ
ہم سب ہوا کی مانند ہیں تم شراب لے آؤ

زندگی تیزی سے رنگ بدلتی ہے۔ جو آج ہے وہ کل نہیں ملتا۔ جوکل تھا اس کا ذکر آج کہیں نہیں ہے۔ انسان فنا سے خوف کھاتا ہے۔ مگر فنا کے لمحے مستقل اس کا تعاقب کرتے ہیں۔ اسی لیے فنا کو جاوداں بنانے کے لیے اس نے زندگی کی مالا میں مقصد کے موتی پروئے تاکہ شعور کی روشنی کا تسلسل برقرار رہے۔

ہنستے بستے آنگن خالی ہوجاتے ہیں، آوازوں کا شور تھم جاتا ہے۔

لیکن ہم پھر بھی زندگی کی قدر نہیں کرتے۔ دوستوں، رشتوں کو ٹھیک سے وقت نہیں دے پاتے۔ سکون سے بات نہیں سن سکتے، جب تک وہ شور نہ مچائے۔

شور، بے حسی کی پیداوار ہوتا ہے۔ جتنی بے حسی بڑھتی ہے اتنا ہی ہنگامہ ہر طرف برپا ہوجاتا ہے۔ لمحے ایک مصنوعی زندگی کی چکا چوندکے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں۔

میں نے بارہا خالی گھروں سے باتیں کی ہیں۔خالی کمروں سے ہمکلام ہونے کا موقع ملا ہے۔ یہ ایک ایسا تجربہ ہے،جو وقت کی قدر سکھاتا ہے۔

وقت جوکسی کی دسترس میں نہیں آسکتا۔ لیکن دکھ اس بات کا ہے کہ ہوا کے جھونکے جیسی اس مختصر زندگی کو ہم کس طرح خواہشوں کے جہنم میں جھونک دیتے ہیں۔ حرص سے نفرت جنم لیتی ہے اور نفرت سے انتقام کا لاوا بھڑک اٹھتا ہے اور انتقام خون خرابے کی جڑ ہے۔ یہ تمام غیر انسانی رویے زندگی کے حسن کو غارت کردیتے ہیں۔

زندگی کا اختصار یہ کہتا ہے کہ ہم ایک دوسرے کے احساس کی نگہبانی کریں۔ ساتھ مل بیٹھیں اور دکھ بانٹیں۔ نظریاتی اختلافات کو تعلق میں دراڑ ڈالنے کی وجہ نہ بنائیں۔

مگر ہم اختلافات و تضادات کو راستے کی رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ مزاج کے خلاف بات نہیں سن سکتے۔ تنقید کو رد کردیتے ہیں۔ ذات کی محبت کے خبط میں مبتلا دوسروں کا دکھ نہیں سمجھ سکتے۔ ہم مسائل کو صحیح تناظر میں دیکھنے کی صلاحیت کھو بیٹھے ہیں۔ جس کی وجہ سے ہمارا معاشرہ دن بہ دن وحشت کا جنگل بنتا جا رہا ہے۔ روح کو ہلا دینے والی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ایک شخص بتاتا ہے کہ اسے اغوا کرکے بے ہوش کردیا گیا۔ جب ہوش آیا تو وہ ایک تہہ خانے میں تھا، جہاں بہت سے لوگ قید تھے۔

یہ وہ لوگ تھے جو اپنی موت کی باری کا انتظار کر رہے تھے۔ وہ گروہ انسانی اعضا کو بیچنے کا کاروبار کرتا ہے۔ پھر اس شخص نے ان جرائم پیشہ لوگوں کو بتایا کہ اس کا گزشتہ دنوں بائی پاس ہوا ہے اور وہ کئی بیماریوں میں مبتلا ہے۔ یہ سن کر ان لوگوں نے اسے رہا کردیا۔ یہ خبر پڑھ کر ایک ناقابل بیان دکھ کئی دن تک پیچھا کرتا رہا۔ اس تہہ خانے میں نہ جانے کتنی ماؤں کے خواب قید ہوں گے۔ کئی بہنوں کی امیدیں ان ظالم شکنجوں میں جکڑی ہوئی ہوں گی۔

اخبارات چونکا دینے والی خبروں سے بھرے ہوتے ہیں۔ ٹیلی وژن پر الگ بریکنگ نیوز کا سلسلہ چل پڑتا ہے۔ جو پورا دن خوف اور بے یقینی بانٹتا رہتا ہے۔
بے حسی بھی خوف اور بے یقینی کی پیداوار ہے۔

زندگی غیر انسانی واقعات سے بھری ہوئی ہے، جنھیں سنتے اعصاب شل ہوجاتے ہیں۔ آپ کچھ نہیں کرسکتے سوائے اس کے کہ مصلحتوں کے مورچے میں جا چھپیں یا جھوٹ سے سمجھوتہ کرلیں۔ زندگی کا سیونگ سرٹیفکیٹ مل جائے گا۔ ساتھ میں کئی مراعات بھی۔
اچھے کام اور سچائی موت کے پیامبر بن جاتے ہیں، لیکن اس کے باوجود بھی عمل کی سچائی کے چراغ مخالفت کے تھپیڑوں میں جلتے رہتے ہیں۔ جان کیٹس کہتا ہے:
''مجھے صرف ایک چیزکا یقین ہے اور وہ ہے احساس اور جذبے کی سچائی، یہ دونوں چیزیں حقیقی حسن پالیتی ہیں''

حقیقی حسن پانے کی دھن جنون ودیوانگی کا راستہ ہے۔ جو کانٹوں سے عبارت ہے۔ کچھ لوگ فنا میں بقا کا جواز ڈھونڈتے ہیں۔ وہ موت کے بعد امر ہوجانا چاہتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے کہ فرانس کے خوبصورت پہاڑوں کے درمیان جرمنی کا بدقسمت طیارہ کریش ہوا تھا۔ جس کے پائلٹ Andreas Lubitz کے لیے کہا جاتا ہے کہ اس نے جہاز جان بوجھ کے فرنچ الپس پر دے مارا۔ نفسیاتی علاج کرانے والے اینڈریازکی آنکھیں متاثر ہونے کا امکان تھا۔

جس کی وجہ سے ایک دن اسے اپنے شعبے کو خداحافظ کہنا تھا۔ اس کی محبوبہ کا کہنا تھا کہ وہ کوئی ایسا کام کرنا چاہتا تھا، جس کی وجہ سے اس کا نام رہتی دنیا تک یاد رکھا جاتا۔ یہ حادثہ، کئی متنازعہ رخ لیے ہوئے تھا۔ لہٰذا دنیا بھرکے اخبارات میں اس موضوع پر زیادہ سے زیادہ لکھا گیا۔ اور اینڈریاز نے وہ شہرت حاصل کی، جس کے وہ خواب بچپن سے دیکھا کرتا تھا۔

خودکشی کے پیچھے بھی ایسا ہی خیال چھپا ہوتا ہے۔ جن لوگوں کو زندگی فراموش کردیتی ہے۔ خواب تک ان سے منہ موڑ لیتے ہیں، تو وہ خودکشی کا راستہ چنتے ہیں۔ اپنے وجود کے ہونے کا احساس دلانے کے لیے۔ ہٹلر، پنوشی اور ضیا الحق کے نام بھی تاریخ کے صفحوں میں قید ہیں۔ وہ بھی لازوال شہرتوں کے خواہشمند تھے۔ کیونکہ جبر کے دن کبھی فراموش نہیں ہوتے۔

پرومی تھیس کا المیہ تھا کہ اس نے آگ، کنول کے ڈنٹھل میں چھپا کر انسان کو دی تاکہ وہ آگہی کی روشنی کو محسوس کرسکے وہ علم وفن سے بہرہ ور ہوسکے۔ انسان کو زندگی کی آسائش ملے مگر اس جرم کی پاداش میں پرومی تھیس کو پہاڑ پر باندھ دیا گیا۔

بہت سے لوگوں کو لازوال شہرت، اچانک موت عطا کرتی ہے۔ حالانکہ پہلے آپ نے ان کا نام نہیں سنا ہوتا۔ جیسے سبین محمود کا نام اس کی موت کے بعد ذہنوں پر چھا گیا۔ اسے شہرتوں کا خبط نہیں تھا، مگر اس کے پاس احساس اور جذبے کی سچائی تھی۔ وہ پسماندہ طبقوں کے حقوق کی بات کرتی۔ اس کے وجود میں انگریزی کے شاعر شیلے جیسی روح موجود تھی۔

مغربی سمت سے آتی ہوئی وحشی ہوا
جیسے جنگل سے گزرتی ہوئی تیری آواز
ساز بن جاتی ہے۔ وہ ساز بنالے مجھ کو
روح بن جا تُو میری آ اے غضب ناک ہوا
میرے افکارِ پریشاں کو جہاں میں پھیلا
اے ہوا دنیا کو جاکر یہ بشارت دے
موسم گرما اگر آن پہنچا ہے
موسم گل بھی بہت دور نہیں

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں