مزدوروں کا عالمی دن

مزدور کسی سرحد، کسی فرقے یا کسی نسل سے انکاری ہے۔ اسے جینے کے لیے روزگار چاہیے۔


Zuber Rehman May 01, 2015
[email protected]

مزدور کسی سرحد، کسی فرقے یا کسی نسل سے انکاری ہے۔ اسے جینے کے لیے روزگار چاہیے۔ یہی وجہ تھی کہ اپنے روزگار کے حصول کے لیے یورپ سے امریکا جاتے تھے۔

ریاستوں کی یہ سرحدیں سرمایہ داروں نے صاحب جائیداد طبقات کے مفادات کے لیے تشکیل کر رکھی ہیں۔ غلامانہ نظام سے قبل ریاست کا وجود نہ تھا، یہ عرصہ چند ہزار سال کا ہے جب کہ لاکھوں برس سے انسان بنا سرحدوں اور ریاستوں کے جی رہا تھا۔ بے قاعدہ ریاستوں سے باقاعدہ ریاستیں سرمایہ دارانہ نظام میں قائم ہوئیں۔ چین اور جنوبی امریکا میں دسیوں ہزار سال تک جنت نظیر خطہ وجود رکھتا تھا۔ چین کے قدیم دانشور اور مصنف ''ژیانگ باؤ'' کہتے ہیں کہ چین (Blue Heaven) نیلی جنت ہوا کرتی تھی۔

یہ روایات چین کی قدیم تاریخ کے حوالے سے کہی جاتی ہے۔ مصنف کہتا ہے کہ ''مجھے نہیں معلوم کہ یہ جنت کیسے نازل ہوئی اور چلتی رہی مگر یہ معلوم ہے کہ لوگ درختوں سے پھل توڑتے اور پانی سے مچھلی کا شکار کرتے تھے۔ حسد، استحصال، قتل، چھیناجھپٹی، بغض اور دشمن کے الفاظ تک سے لوگ ناواقف تھے۔'' یہی صورتحال جنوبی امریکا کی تھی، پیرو کی تہذیب اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

یہاں ہفتے میں لوگ صرف 3 دن کام کرتے تھے اور کام یہ تھا کہ جنگلوں اور پانی میں شکار کرنا اور ہرے بھرے قدرتی باغوں سے پھل اور سبزیاں توڑنا تھا۔ کوئی نہ بھوکا تھا، نہ غم تھا، نہ دکھ تھا، ذلت اور نہ اذیت۔ جب اس خطے کو اسپین نے نو آبادی بنائی تو یہ جنت نظیر علاقہ جہنم میں بدل گیا۔ آج جنوبی امریکا کی 45 فیصد آبادی غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ یہی صورتحال چین میں ہوئی۔ ژیانگ باؤ لکھتا ہے کہ یہاں کی قدیم آبادی کا کہنا ہے کہ کچھ عقل مند لوگ نازل ہوئے، پھر انھوں نے آئین اور قانون تشکیل دیا۔

جس میں یہ فرمان عوام پر مسلط کیا کہ یہ کھاؤ، یہ نہ کھاؤ، یہاں جاؤ اور وہاں نہ جاؤ، اس سے ملو اور اس سے نہ ملو، یہاں بیٹھو اور وہاں نہ بیٹھو۔ اس فرمان کے لاگو ہونے کی وجہ سے چین کی نیلی جنت کا انہدام ہوگیا۔ لوگ کہتے ہیں کہ ریاست کے خاتمے سے نظام کیسے چلے گا، جب کہ ریاست کے وجود کی وجہ سے طبقات کی خلیج میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔یکم مئی 1886 میں شکاگو میں مزدوروں نے 8 گھنٹے کی ڈیوٹی منوانے کے لیے احتجاج کیا۔

اس احتجاج کی عملی حمایت امریکا تک محدود نہ رہی بلکہ ساری دنیا اس مطالبے کے حق میں عملی میدان میں اتر پڑی۔ اس جدوجہد میں سیکڑوں مارے جانے والے مزدوروں کے علاوہ جن مزدور رہنماؤں کو پھانسی دی گئی، خودکشی کی اور سات برس بعد رہائی ملی، ان میں صرف دو کا تعلق امریکا سے تھا باقی کا یورپی ممالک سے تھا۔ جن چار مزدور رہنماؤں کو 11 نومبر 1887 میں پھانسی دی گئی ان کے نام ایلبرٹ پارسن، آگسٹ اسپائیز، ایڈولف فشر اور جارج اینجل تھے ۔ لوئس لنگ نے قید خانے میں خودکشی کی، جب کہ 1893 میں سیموئل فلڈن، آسکرنیب اور میخائل شوب کو معافی دے کر رہا کردیا گیا۔

ان سارے رہنماؤں کا کسی مذہب یا فرقے سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ یہ کیپٹلسٹ تھے، کمیونسٹ تھے اور نہ سوشلسٹ، یہ سب اپنی روح کی گہرائیوں سے انارکسسٹ تھے۔ ان کا کسی جماعت سے تعلق تھا اور نہ کسی تنظیم کے عہدیدار تھے۔ یہ تحریک کسی ریاست ، مذہب، نسل، قوم اور فرقے کی نہ تھی۔ اس سے قبل امریکا سمیت لوگ 14 سے 18 گھنٹے ڈیوٹی کرتے تھے یعنی سورج طلوع ہونے سے غروب ہونے تک۔ اس تحریک نے عالمگیری حیثیت اختیار کی، اس لیے کہ دنیا بھر کے محنت کشوں سے 16 گھنٹے سے زیادہ کام لیا جاتا تھا۔ چونکہ سب متاثر تھے اس وجہ سے سب نے حمایت کی۔

آج ساری دنیا میں آئینی طور پر اس مطالبے کو تسلیم کرلیا گیا ہے کہ 24 گھنٹے میں صرف 8 گھنٹے تک کام لیا جائے گا۔ یہ الگ بات ہے کہ آج بھی افریقہ اور ایشیا کے بیشتر مزدوروں سے 10/12 گھنٹے تک کام لیا جاتا ہے لیکن یو این او نے 8 گھنٹے کی ڈیوٹی تسلیم کرلی ہے۔ آج بھی روزگار کے حصول کے لیے مزدور ملکوں کی سرحدوں کو توڑنے پر مجبور ہوتا ہے مگر سرمایہ داروں کے سرحدی محافظ ان کو بزور روکتے ہیں۔

حال ہی میں لیبیا سے اٹلی جاتے ہوئے 400 اور تین دن کے بعد 800 مزدور حصول روزگار کے لیے کشتی پہ جاتے ہوئے ڈوب مرے۔ کینیڈا جوکہ ترقی یافتہ اور ویلفیئر ریاست کہلاتی ہے یہاں غربت بڑھ رہی ہے، گزشتہ برس 2014 میں غربت کی شرح بلند ہوئی۔ بی ایم او نامی ایک فنانشل گروپ کی رپورٹ کیمطابق 2014 میں غربت کی شرح 20 فیصد رہی، یعنی 20 فیصد شہری کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کے پاس کھانے پینے کی بھی سہولتیں میسر نہیں ہیں۔

گزشتہ سال متوسط طبقے کے لوگ شدید مشکلات کا شکار رہے۔ رپورٹ کیمطابق متوسط طبقے کے خاندان کی شرح 40 فیصد رہی، جس میں شہری روزگار سے کمائی گئی رقم پوری کی پوری خرچ کر دیتے ہیں۔ ان کے پاس بچت کے لیے پیسے نہیں ہوتے۔ خلیجی ممالک میں محنت کشوں کی بڑی تعداد غیر ملکیوں پر مشتمل ہے۔ پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش، فلپائن، سری لنکا اور یمن وغیرہ سے لاکھوں مزدور خلیجی ملکوں خاص کر سعودی عریبیہ، قطر اور دبئی میں روزگار کے حصول کے لیے 12/12 گھنٹے کام کرنے پر مجبور ہیں۔

جبر و استحصال کی اس انتہا میں بھی پچھلے 6 ماہ میں دوسری بار دبئی میں محنت کشوں نے ہڑتال کی ہے۔ 10 مارچ کو ایک کنسٹرکشن کمپنی کی ''فارچون ویوز'' کنسٹرکشن سائٹ کے سیکڑوں مزدور ہڑتال پر چلے گئے۔ خوفناک جبر اور بلیک میلنگ کے باوجود بھی مالکان استحصال کی بڑھتی ہوئی شدت کے خلاف اس بغاوت کو نہیں دبا سکے۔ ہڑتال کی فوری وجہ اجرتوں میں حالیہ کمی اور کمپنی کی طرف سے دی جانیوالی کم تر معیار کی خوراک تھی۔

50 ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی زیادہ درجہ حرارت پر مشقت کرنیوالے ان محنت کشوں سے 200 ڈالر ماہانہ پر کام لیا جا رہا تھا۔ ہڑتال پر جانے والے مزدور اجرت میں 100 ڈالر اضافے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ایک کمرے میں 5/10 آدمی رہتے ہیں، 50 لوگوں کو صرف ایک باتھ روم میسر ہے۔ زیادہ تر محنت کش قرضے کے بوجھ تلے دب کر دبئی جاتے ہیں۔

یہ قرضہ بھی ویزا فیس اور ایجنٹوں کی جیب بھرنے کے لیے لینا پڑتا ہے۔ یاد رہے کہ یہ کمپنی دنیا کی بلند ترین عمارت ''برج خلیفہ'' کی تعمیر کرنیوالی کمپنیوں میں شامل ہے۔ سعودی عرب میں 35 فیصد غیر ملکی یمنی مزدور کام کرتے ہیں۔ سعودیہ کے سرکاری اعداد و شمار کے لحاظ سے 25 فیصد لوگ بے روزگار ہیں۔

پاکستان میں 2014 میں 6000 محنت کش خواتین قتل ہوئیں۔ 5857 افراد نے بھوک، قحط اور بے روزگاری سے تنگ آکر خودکشی کی۔ ساڑھے چار کروڑ بے روزگار ہیں۔

معقول علاج نہ ہونے سے روزانہ 2000 افراد مر جاتے ہیں۔ 80 فیصد لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ 85 فیصد مزدوروں کو 10 ہزار روپے سے زیادہ تنخواہیں نہیں ملتیں۔ 70 فیصد مزدوروں کو 10 سے 12 گھنٹے کام کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان کے بے زمین کسانوں یعنی کھیت مزدوروں کی دیہاڑی صرف 250 روپے ہے۔ ان ظلم و ستم کے خلاف لاکھوں مزدور اپنی تنخواہیں بڑھوانے اور نجکاری کے خلاف لڑ رہے ہیں۔

عالمی طور پر 8 گھنٹے ڈیوٹی کا مطالبہ منوانا کیونکر ممکن ہوا؟ کسی ریاست، میڈیا، اسمبلی، فوج یا آئین کے ذریعے ایسا نہیں ہوا بلکہ محنت کشوں کی عالمی یکجہتی اور عالمی انسان دوستی کی بنیاد پر ایسا ممکن ہوا۔ ریاست کے وجود میں آنے سے ہر روز اس دنیا میں 75 ہزار انسان بھوک سے مر رہے ہیں۔

ان مسائل کا مکمل حل ایک غیر طبقاتی سماج میں مضمر ہے، جہاں کوئی ارب پتی ہوگا اور نہ کوئی گداگر، ایک آسمان تلے ایک ہی خاندان ہوگا۔ یہی ''یکم مئی'' کے شہیدوں کا زندہ جاوید پیغام ہوسکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں