شاعر کی ذات میں ایک صوفی

یہ گیت ایک مقامی گلوکار فدا حسین نے گایا تھا اس گیت کو کوئی پذیرائی حاصل نہ ہوسکی تھی


یونس ہمدم May 02, 2015
[email protected]

شاعر و نغمہ نگار فیاض ہاشمی کی شخصیت کا اگر احاطہ کیا جائے تو کالم کی بجائے ایک کتاب بھی کم پڑ جائے گی فیاض ہاشمی نے بحیثیت شاعر ایک بھرپور اور بڑی کامیاب زندگی گزاری ہے گراموفون کمپنی کے بعد جب فلم انڈسٹری سے وابستہ ہوئے تو جتنی شہرت اور جو عروج فیاض ہاشمی کو حاصل ہوا وہ برصغیر میں بہت کم شاعروں کو نصیب ہوا ہے ان کی ایک غزل کو اتنی مقبولیت ملی تھی کہ گراموفون کمپنی EMI کی تاریخ بدل گئی تھی، لیکن ۔۔۔۔۔تصویر تیری دل میرا بہلا نہ سکے گی۔

فیاض ہاشمی کے کریڈٹ کی پہلی غزل نہیں تھی، ہاں اسے ان کی پہلی مقبول ترین تخلیق کا نام دیا جاسکتا ہے جس نے پاک و ہند میں اپنی دھوم مچادی تھی مگر ان کی ابتدا بحیثیت ایک شاعر 1942 میں کلکتہ گراموفون کمپنی EMIسے ہوئی اور ان کی زندگی کا پہلا گیت جس کے بول تھے:

ہم نے کسی کی قدر نہ جانی

ہائے محبت ہائے جوانی

یہ گیت ایک مقامی گلوکار فدا حسین نے گایا تھا اس گیت کو کوئی پذیرائی حاصل نہ ہوسکی تھی مگر فیاض ہاشمی کمپنی کے باقاعدہ ملازم شاعر تھے اور پھر کمپنی کے لیے تسلسل کے ساتھ گیت، غزلیں، قوالیاں، نعتیں اور بھجن لکھتے رہتے تھے اور ان کے ریکارڈ بن بن کر مارکیٹ میں آتے رہتے اور بکتے رہتے تھے اس دوران کلکتہ میں بھی فلمیں بنتی تھیں جن میں بنگالی فلموں کی تعداد زیادہ ہوتی تھی کچھ اردو زبان میں بھی فلمیں بنائی جاتی تھیں ۔

گراموفون کمپنی میں ملازمت کے دوران ہی فیاض ہاشم صاحب نے پہلی اردو فلم ''جواب'' کے لیے گیت لکھے اور اس طرح انھیں کئی اور فلموں میں بھی لکھنے کے مواقعے ملتے رہے اسی دوران جن فلموں کے لیے نغمات لکھے ان میں صبح و شام، زمین و آسمان، کرشن لیلیٰ اور ''ایران کی ایک رات '' کے نام شامل ہیں ۔کلکتہ میں اردو فلموں کا کوئی مستقبل نہیں تھا اور نہ ہی ان فلموں کے لیے بہتر سرمایہ میسر آتا تھا اسی لیے یہ تمام اردو فلمیں بس خانہ پری کی طرح ہوتی تھیں، پھر ایک عرصے کے بعد یہ پاکستان چلے آئے ۔

جب 1950 میں فیاض ہاشمی لاہور کی گراموفون کمپنی سے وابستہ ہوئے تو پھر ان کا عمل دخل لاہور کی فلم انڈسٹری میں بھی ہوتا چلا گیا اور جب انھیں پتہ چلا کہ پاکستان میں گراموفون کمپنی فلم کے شاعروں کو رائلٹی ادا نہیں کرتی تو فیاض ہاشمی نے گرامو فون کمپنی سے فلمی شاعروں کو رائلٹی دینے کا مسئلہ اٹھایا کیونکہ انڈیا میں EMIگراموفون کمپنی جب شاعروں کو رائلٹی دیتی ہے تو پھر پاکستان میں رائلٹی پر پابندی کیوں ہے؟

اسی تنازع کی وجہ سے فیاض ہاشمی کمپنی سے دل برداشتہ ہوگئے اور پھر انھوں نے گراموفون کمپنی کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ دیا اس طرح ایک طویل عرصے کے بعد ان کا گراموفون کمپنی سے رشتہ ختم ہوگیا۔ پھر فیاض ہاشمی لاہور سے کراچی شفٹ ہوگئے اور وہاں پہلے فلم ''انتخاب'' کے لیے کچھ گیت لکھے اور پھر فلم ''انوکھی'' میں بھی ان کی خدمات حاصل کی گئیں۔

فلم ''انوکھی'' کا ایک گیت ۔۔۔۔۔گاڑی کو چلانا بابو۔۔۔۔بہت ہی پاپولر ہوا اور اس گیت کی شہرت نے فیاض ہاشمی کی شاعری کی دھاک بٹھا دی، اور پھر لاہور کے کئی فلمسازوں کی دعوت پر دوبارہ فیاض ہاشمی کراچی سے لاہور جاکر رہائش پذیر ہوگئے اور ایک وقت ایسا آیا کہ لاہورکی ہر دوسری فلم میں فیاض ہاشمی کے گیت ہوتے تھے اور ہر بڑا موسیقار یہ چاہتا تھا کہ فیاض ہاشمی اس کے لیے گیت لکھیں۔

ایک دن اداکار ناظم اپنے ایک فلمساز دوست کے ساتھ میرے پاس آیا اور اس نے بتایا کہ فیاض ہاشمی کا ایک اسکرپٹ (کہانی) فلمسازکو پسند آگیا ہے۔ فلم کا نام بھی فیاض ہاشمی نے تجویز کردیا ہے ''ایک تھا پرنس'' اب اسے تم نے فیاض ہاشمی کے ساتھ مل کر لکھنا ہے۔

یہ میرے لیے بڑی خوش قسمتی اور اعزاز کی بات تھی۔ فلم کا اسکرپٹ مکمل کرنے کے لیے لاہور ہوٹل میں ایک کمرہ بک کیا گیا۔ لاہور میں زیادہ تر فلموں کے اسکرپٹ ہوٹلوں میں کمرے بک کراکے ہی لکھے جاتے تھے۔ پہلے کہانی کے آئیڈیا میں کچھ مناسب تبدیلی کی گئی اور پھر فلم کے مکالمے لکھنے کا آغاز کیا گیا میں ایک ایسے نام ور شخص کے ساتھ بیٹھا ایک فلم کا اسکرپٹ لکھ رہا تھا جس کی شخصیت کا میں کبھی پرستار رہا تھا اور میں نے کبھی خواب میں بھی ایسا نہیں سوچا تھا کہ ایک دن وہ بھی آئے گا کہ میں اپنے پسندیدہ شاعر کا ہم عصر نغمہ نگار بھی بنوں گا اور پھر ایک دن میں ان کے ساتھ مل کر کسی فلم کے لیے بھی کام کروں گا۔

اسی دوران ایک دلچسپ بات اور شیئرکرتا چلوں کہ مجھے صرف وقفے وقفے سے چائے پینے کی عادت تھی اور فیاض ہاشمی اسکرپٹ پر کام کرتے ہوئے وقفے وقفے سے دودھ کا گلاس منہ سے لگاتے تھے۔ میں نے ایک دن ہمت کرکے ان سے یہ پوچھ ہی لیا کہ جناب یہ دودھ پینے کی عادت آپ کو کس طرح پڑی تو پہلے تو وہ چند لمحوں تک مسکراتے ہوئے مجھے دیکھتے رہے پھر بولے یونس میاں! پینے کی ہم ہر چیز چھوڑ چکے ہیں اب صرف دودھ سے ہماری دوستی ہوگئی ہے اور پھر بڑی خوبصورت بات کہی اس دودھ میں اللہ کا نور شامل ہوتا ہے۔

دودھ ایک غذا بھی ہے اور اس میں شفا بھی۔ مجھے فیاض ہاشمی کی اس بات نے بڑا متاثر کیا اور دل میں سوچنے لگا کہ ایسی بات ایک ایسا انسان ہی کہہ سکتا ہے جس کے اندر ایک درویش یا صوفی رہتا ہو۔ ایک ماہ کے دوران فلم ''ایک تھا پرنس'' کا اسکرپٹ مکالموں اور منظرنامے کے ساتھ مکمل ہوچکا تھا پھر اس فلم کا ایورنیو اسٹوڈیو میں ایک آفس لیا گیا۔ اب مہورت کرنے کے لیے یا تو شوٹنگ کرکے پہلا شاٹ لیا جاتا ہے یا پھر فلم کی مہورت کسی گانے کی ریکارڈنگ سے ہوتی ہے۔

پھر طے یہ کیا گیا کہ ابھی بڑی کاسٹ طے کرنے میں وقت لگے گا لہٰذا پہلے فلم کے لیے ایک گیت تیار کرلیا جائے اور مہورت اسی گانے سے کی جائے گی۔ فیاض ہاشمی نے میری بات رکھتے ہوئے ڈھاکہ سے تعلق رکھنے والے موسیقار کریم شہاب الدین کے لیے ہاں کہہ دی۔ کریم شہاب نے جب فیاض صاحب سے گیت کی بات کی تو انھوں نے کہا پہلا گیت یونس ہمدم لکھیں گے اس کے بعد میں لکھوں گا پھر گلوکار اخلاق احمد کی آواز میں میرے لکھے ہوئے گیت کے ساتھ فلم کی مہورت ادا کی گئی۔ میرے گیت کے بول تھے :

میں دیوانہ محبت کا محبت میری فطرت ہے

مہورت والے دن ایورنیو اسٹوڈیو کو روایت کے مطابق روشنیوں سے سجایا گیا تھا۔ جیساکہ ہر فلم کی مہورت کے موقعے پر کیا جاتا ہے۔ اداکار محمد علی اور زیبا نے بطور مہمان خصوصی شرکت کرکے فلم کی مہورت کی شان میں اور بھی اضافہ کردیا تھا۔ فلم کے ہدایت کار اقبال اختر تھے۔ فلم کی مہورت ہوئی اخبارات میں خوب تصویریں شایع ہوئیں اور پھر ایک دن اچانک پتہ چلا کہ ''ایک تھا پرنس'' کا فلمساز بیرون ملک چلا گیا ہے۔

اس کی کیا وجہ تسمیہ تھی۔ یہ کسی صورت میں بھی پتہ نہ چل سکی۔ پھر مذکورہ فلم بھی اپنی تکمیل کی طرف کوئی قدم نہ بڑھا سکی اور فلم کا گیت بھی ڈبے میں بند کردیا گیا۔

فیاض ہاشمی صاحب کو بھی اس بات کا بڑا دکھ تھا۔ کچھ دنوں کے بعد مجھے کراچی سے اپنے والد صاحب کی بیماری کی خبر ملی کہ انھیں اسپتال میں داخل کرا دیا گیا ہے۔ میں اپنی ساری فلمی مصروفیات چھوڑ کر کراچی آگیا مجھے راتوں کو جاگنے کی عادت تھی میں نے سب گھر والوں سے کہہ دیا کہ رات کو میں والد صاحب کے ساتھ اسپتال میں رہوں گا۔

والد صاحب تقریباً ایک ماہ اسپتال میں رہے اس دوران ساری ساری رات میں والد صاحب کے ساتھ رہ کر ان کی تیمار داری کرتا تھا اس طرح مجھے اپنے والد کی کافی قربت نصیب ہوگئی تھی والد صاحب کے دل میں بھی میری طرف کافی نرمی آگئی تھی یہ میری خوش نصیبی تھی کہ والد صاحب کی طرف سے میرے لیے جو خفگی تھی وہ بھی اب دور ہوگئی تھی والد صاحب صحت پاکر گھر شفٹ ہوگئے تھے۔ میں دوبارہ لاہور جانے کی تیاری کر رہا تھا کہ ایک دن ہوٹل میں گلوکار دوست جمال اکبر کی تقریب میں اچانک فیاض ہاشمی سے بھی ملاقات ہوگئی ۔

مجھے گلے سے لگایا بڑے خوش ہوئے۔ وہ اب کافی بدل گئے تھے اور کمزور بھی کافی ہوگئے تھے۔ ان کے چہرے کی داڑھی کافی سے زیادہ سفید ہوگئی تھی اور چہرہ بڑا نورانی لگ رہا تھا۔ انھوں نے میرے استفسار پر بتایا کہ انھوں نے اب دنیا کے جھمیلوں سے قطع تعلق کرلیا ہے اب وہ نیوکراچی میں کسی آستانے سے وابستہ ہوگئے ہیں جہاں درود و سلام کی محفلیں ہوتی ہیں اور ہم ہوتے ہیں۔ اب ہمارے شب و روز کسی نہ کسی خانقاہ پر گزرتے ہیں یہ میری صوفی اور درویش فیاض ہاشمی سے آخری ملاقات ہوئی تھی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں