دعوے اور احتساب
جو کرپشن کے الزامات اسمبلی ممبران پر لگائے گئے اور پھر ان کو تسلیم کرلیا گیا
KARACHI:
ہم ہار گئے مگر ہم نے کراچی سے خوف کی فضا ختم کردی، عمران اسماعیل نے اور پی ٹی آئی نے کچھ اس طرح کے ہی بیانات دیے تھے الیکشن کے دوران یعنی 23 اپریل کو بھی پی ٹی آئی کے یہی دعوے تھے، جیسے جیسے ووٹوں کی گنتی ہوتی گئی ایم کیو ایم کی جیت سامنے آنے لگی، کریم آباد پر ایم کیوایم کے چاہنے والوں نے ریلیاں نکالیں۔
اور پھر اسی کراچی کی فضا سے جس کو خوف سے پاک کردیا گیا تھا، عمران اسماعیل اور ان کے کارکنان بے حد خوفزدہ آوازیں آئیں کہ ہمیں ایم کیو ایم کے چاہنے والوں نے ریلیاں نکالنے والوں نے محصورکردیا ہے ہماری جانوں کو خطرہ ہے ہمیں یہاں سے بحفاظت نکالا جائے، پھر ان کو بحفاظت نکالا گیا اور گھر تک پہنچایا گیا۔ کیسے کیسے دعوے اور کیسے کیسے بیانات، جو لوگ اپنا خوف نہ دورکرسکے ہوں وہ دوسروں کا خوف کیسے دور کرسکتے ہیں۔ پولیس کی موبائل اپنے گارڈز، اردگرد لوگ، سب کی حفاظت میں نکلتے ہیں یہ لوگ کراچی جیسے شہر کا خوف دور کرنے۔
اگر لیڈر اسی طرح بنتے تو شاید پاکستان کے ہر گھر سے لیڈر نکل آتا مگر افسوس ایسا نہیں۔ خالی خولی باتوں سے بڑے بڑے دعوؤں سے بے تحاشا سرمایہ کاری سے بننے والے یہ لیڈر جیسے بنتے ہیں ویسے ہی ختم ہوجاتے ہیں اور رہ جاتا ہے نام اللہ کا۔ سمجھدار لوگ کہتے ہیں کہ حکومت اور اس کی کیبنٹ کتنی ہی غیر سمجھ دار سہی مگر وہ عمران خان اور ان کے ساتھیوں کو ٹھیک ٹھاک بتا سکتی ہے کہ سیاست ہوتی کیا ہے اور کس طرح کی جاتی ہے۔ ایم کیو ایم کی جیت سے ان کے کارکنوں کے مورال بلند ہوا، الطاف حسین کی تقاریر میں بھی بیلنس نظر آیا، مگر عمران خان ابھی تک تیز و طرار زبان کے استعمال سے باز نہیں آرہے۔
جو کرپشن کے الزامات اسمبلی ممبران پر لگائے گئے اور پھر ان کو تسلیم کرلیا گیا، جیسے اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ پر الزام لگائے گئے ہم سب نے سنا دنیا نے دیکھا، اب اگر یہ لوگ اسمبلیوں میں واپس آگئے ہیں تو اسمبلی میں کیوں نہیں ان کو ہٹانے کے لیے تحریک چلائی جارہی ہے، جو جو الزامات لگائے گئے ان کو ثابت کیا جائے خالی خولی میڈیا پریس کانفرنس، بڑے بڑے بول، کس کس طریقے سے عوام کو بے وقوف بناکر اقتدار کی سیڑھی حاصل کرنے کی خواہش سہی سب تو پرانے سیاستدان کرتے رہے ہیں تو آپ میں نیا کیا؟ بس کسی طرح اقتدار کا مسند مل جائے۔پتہ نہیں وہ کون سا دور آئے گا جب سنجیدگی کے ساتھ سلیقے کے ساتھ معاملات کو سلجھایا جائے گا۔
ارسطو جیسی ہمہ گیر شخصیت نے بھی علم سیاسیات کو ایک خودمختار اور الگ علم کی حیثیت دی ۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ سیاستدان کے لیے تعلیم یافتہ ہونا بھی بنیادی ضرورت ہے اور یہاں سب کا سب الٹا ہے۔
سیاست میں عقل و دانش اور بات سننے اور کہنے کا سلیقہ بھی بہت ضروری ہے، ایک دوسرے پر کیچڑ اچھال اچھال کر کوئی بڑا سیاستدان نہیں بن جاتا، ہاں وہ دوسروں کا اچھا آلہ کار بن سکتا ہے۔
اور اگرکوئی کسی پر انگلی اٹھائے، الزام لگائے تو اس کو ثابت کریں ورنہ اپنے آپ کو قصور وار ٹھہرائے۔ عوام اب بالکل بھی پہلے جیسے نہیں ، جس کا جو دل چاہے وہ عوام کے لیے جو بھی لفظ استعمال کریں ایسا نہیں ہوسکتا، زمانہ بدل گیا ہے اور اس میں میڈیا نے بہت بڑا کام کیا ہے۔ 126 دن کے دھرنے میں جو جو بولا گیا اب عوام چاہتے ہیں کہ اس کو ایکشن میں کرکے دکھایا جائے جو کرپٹ ہے اس کو پکڑا جائے اورکرپشن کو ماڈرن شکل دینے کی بجائے اس کو کم سے کم پر لایا جائے۔ جو لوگ دن بہ دن ارب پتی سے کھرب پتی ہوتے جارہے ہیں اور کچھ غریبوں میں تقسیم کرکے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ یہ ان کی خون پسینے کی کمائی ہے جو وہ خرچ کر رہے ہیں تو بے وقوف بنانے کا دور اب ختم ہوتا جا رہا ہے۔
دولت کمانے کی دوڑ پوری دنیا میں تیز تر ہوتی جا رہی ہے۔ کالے دھن کو سفید کرنے کے لیے بھی مختلف راستے ڈھونڈے جا رہے ہیں اور شاید ہماری سیاست کو سیاستدانوں نے تجارت ہی سمجھ لیا ہے جو امیر ترین ہونا چاہتا ہے وہ اس میں انوسٹمنٹ کرتا ہے۔
جھوٹی باتوں والے کئی شکلوں کے لوگ صرف اور صرف اپنی اپنی دکانیں چمکانا جانتے ہیں۔دنیا بھر میں سیاست اختلافات کا کھیل ہے سیاست میں اختلافات بھی کیے جاتے ہیں اور مذمت بھی کی جاتی ہے۔ لیکن کسی پرگالی گلوچ کرنا بالکل زیب نہیں دیتا، منہ میں چیونگم چبا چبا کر افراد اور اداروں کو برے القابات سے نوازنا یہ بالکل بھی صحیح طریقہ نہیں کیونکہ آج آپ کر رہے ہیں کل یہ روایت بن گئی تو آپ کو بھی سننا پڑے گا، جلسے جلوس اپنی جگہ مگر اب تو سوشل میڈیا پر بھی جنگ شروع کردی گئی ہے۔
بندے سے لے کر اس کے والدین تک کو ایسے ایسے القابات سے نوازا جاتا ہے کہ اللہ کی امان۔ پتہ نہیں کیا تربیت ہے اور کیا تعلیم۔ لیڈر تو عوام کی کردار سازی کرتے ہیں اگر ہمارے لیڈر عوام کا کردار نہیں بنا سکتے تو انھیں برباد کرنے کا بھی کوئی حق نہیں رکھتے۔ ہر پارٹی کو اپنے سوشل میڈیا کے سیل کو چیک کرنا ہوگا، ایک پالیسی بنانی ہوگی، نوجوانوں کو صحیح سمت دیجیے ان کو گمراہ نہ کریں۔
خاص طور پر ''نئے پاکستان'' کے ترانے گانے والوں کو اپنے اوپر نظر کرم کرنی ہوگی اپنی طرز فکر میں تبدیلی لائیں اور دوسروں کی عزت کرنا سیکھیں بالکل ایسے جیسے قائد اعظم نے کی۔ اور عوام کی بھی اب ذمے داری ہے کہ جو وعدے ان سے کیے جا رہے ہیں اگر وہ پورے نہیں ہو رہے ہیں تو عوام ان لوگوں سے پوچھنے کا پورا حق رکھتے ہیں۔ پوچھیں ، جواب مانگیں اور ان کا احتساب کریں۔
عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ ہمارے Talks Shows میں بیٹھ کر یہ لوگ جس طرح زبان ایک دوسرے کے لیے استعمال کرتے ہیں کس طرح غصے میں لال پیلے ہوکر Live Shows میں جوکہ دنیا کے کئی ممالک میں دیکھے جا رہے ہوتے ہیں۔
ایک دوسرے کے لیے کیسے کیسے الفاظ استعمال کر رہے ہوتے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ کوئی بھی فرشتہ نہیں، کوئی بھی دودھ کا دھلا نہیں بس جس کو موقع مل گیا وہ شاہ اور جس کو ابھی تک موقع نہیں ملا وہ انتظار میں ہے، کرنا تو اس نے بھی وہی ہے جو پہلے والے نے کیا۔ ابھی تک 2015تک عوام صرف اور صرف بنیادی ضرورتوں کے لیے صبح سے شام کر رہی ہے اور مسندوں پر بیٹھے ہوئے کہاں سے کہاں پہنچ گئے مگر میرا یقین ہے کہ ہم اور آپ انسانوں کی پوچھ گچھ سے تو بچ سکتے ہیں مگر اللہ کی پوچھ گچھ سے نہیں۔ اللہ کے قانون تمام انسانوں کے لیے یکساں ہیں اور جو متقی ہے وہی اعلیٰ ہیں۔ ہم تمام لوگوں کو ہی معاشرے کے بگاڑ کو سنوارنا ہوگا، مشکل بہت ہے یہ کام مگرکرنا ہوگا کہ ہماری آنے والی نسلوں کی بقا اسی میں ہے۔
غلامی کی زنجیریں توڑنے والی قوم واپس غلامی کی طرف نہیں جاسکتی کہ جس نے آزادی کو محسوس کیا،اس کی ذمے داری کو محسوس کیا،کھلی فضاؤں میں سانس لیا وہ کیسے غلامی کو اپنا سکتا ہے،کیسے اپنی نسلوں کو دوسرے کے رحم وکرم پر چھوڑ سکتا ہے۔ بے شک بہت کٹھن وقت ہے یہ جب قاتل اور مقتول دونوں کو ہی پتہ نہ ہو کہ اس کے ساتھ ہوکیا رہا ہے۔ بس ایک گولی اور ایک خبر اور دو، تین دن تک اس کا تذکرہ بات ختم۔ کراچی جیسے شہر کو پرامن رکھنے کے لیے، اسٹریٹ کرائمز روکنے کے لیے، قتل و غارت گری روکنے کے لیے مختلف آپریشن کیے جا رہے ہیں، اس کے باوجود سبین محمود جیسی آواز کو خاموش کردیا گیا، عورت کو کمزور سمجھنے والے سب سے زیادہ عورت سے ہی ڈرتے ہیں، قاتل ابھی تک گمنام! اور اللہ جانے کہ سبین کے قاتل کبھی پکڑے جائیں گے یا نہیں، مگر اتنا تو ہم جانتے ہیں کہ ایک سبین محمود کو مارنے سے آوازیں دب نہیں جائیں گی، حقیقتیں بدل نہیں جائیں گی۔ حق کا ساتھ دینے والے قدم کبھی رکتے نہیں ہیں اور نہ ان کو کوئی روک سکتا ہے۔
وقت سے زیادہ کوئی بھی انصاف کرنے والا نہیں اور اللہ کے قانون کوئی بھی نہیں بدل سکتا۔ حق و انصاف ایک نہ ایک دن ہمارے معاشرے کا حصہ بنے گا کہ بار بار عوام کے زخموں کو ادھیڑنے والے ان کے زخموں کو کھرچنے والے کبھی نہ کبھی تو وقت کی لپیٹ میں آئیں گے۔