حکومت نے خط لکھنا ہی تھا تو 3سال کیوں لگائےنئی بحث

صدارتی استثنیٰ کا حکومتی مؤقف تسلیم کیا گیا، ٹرائل ہوگا نہ کیس کھلیں گے، اٹارنی جنرل


Ghulam Nabi Yousufzai October 11, 2012
صدارتی استثنیٰ کا حکومتی مؤقف تسلیم کیا گیا، ٹرائل ہوگا نہ کیس کھلیں گے، اٹارنی جنرل

سپریم کورٹ کی طرف سے این آر او عمل درآمد کیس کے سلسلے میں سوئس حکام کو مجوزہ خط کے مسودے کی منظوری کے بعد عوامی اور قانونی حلقوں میں ایک نئی بحث شروع ہوگئی ہے۔

اکثر قانون دانوں کا کہنا ہے کہ جب خط لکھنا ہی تھا تو3 سال تک قوم کو گمراہ اور عدلیہ سے محاذ آرائی کیوں کی گئی جبکہ کچھ لوگوں کی رائے ہے کہ شاید حکومت کو خط کے معاملے پر غلط مشورہ دیا گیا جس کی وجہ سے خط لکھنے سے انکار کیا جا تا رہا۔ ایکسپریس نے خط کے معاملے پر جب اٹارنی جنرل عرفان قادر سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ حکومت کا موقف تسلیم کر لیا گیا ہے اس لیے خط لکھنے میں کوئی حرج نہیں۔ انھوں نے کہا نہ کوئی کیس کھولے گا اور نہ کسی کا ٹرائل ہوگا۔ اٹارنی جنرل نے خط کے معاملے پر سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کے موقف کا بھی دفاع کیا۔

پنجاب اسمبلی میں ڈپٹی اپوزیشن لیڈر شوکت بسرا نے کہا کہ عدالت نے آخر کار صدر کے استثنیٰ کے حکومتی مؤقف کو تسلیم کر لیا ۔ سپریم کورٹ بار ایسو سی ایشن کے سابق جنرل سیکرٹری امین جاوید نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اس پر سیاست کر رہی تھی ۔ حشمت علی حبیب کا کہنا تھا کہ خط لکھنا اور صدر کا استثنیٰ دو الگ ایشو ہیں۔ایکسپریس کو ذرائع نے بتایا کہ فاروق ایچ نائک نے این آر او فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی درخواست دائر کرنے کی بھی مخالفت کی تھی اور جب فیصلے کو چیلنج کیا گیا تو وہ خط لکھ کر نظر ثانی کی درخواست واپس لینے پر زور دیتے رہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں