پانی زندگی ہے

انسانی زندگی میں پانی کی اہمیت مسلم ہے بالکل اسی طرح جس طرح زندہ رہنے کے لیے ہوا کی ضرورت ہے


Naseem Anjum May 03, 2015
[email protected]

انسانی زندگی میں پانی کی اہمیت مسلم ہے بالکل اسی طرح جس طرح زندہ رہنے کے لیے ہوا کی ضرورت ہے، ہوا نہ میسر ہو تو دم گھٹ جائے اور پینے کو پانی نہ ملے تو آدمی بے موت مارا جائے، اسی طرح زندگی کا پہیہ رواں دواں رکھنے کے لیے دوسری بنیادی ضرورتیں بھی ہیں، لیکن آج کے دور میں حضرت انسان ضروریات زندگی سے محروم ہے، گرمی کا موسم آگیا ہے، سخت چلچلاتی دھوپ ہے، سورج کی تمازت نے جانداروں کو اذیت میں مبتلا کردیا ہے۔

حلقوم خشک، لب تشنہ ہیں، تپتے ہوئے ابدان، دوران سفر سانس لینا دوبھر ہوگیا ہے، جب تھکا ماندہ مسافر گھر لوٹتا ہے تو نلکوں سے پانی غائب، واٹربورڈ کے عملے کو فون کیجیے، کوئی شنوائی نہیں ہوتی، ہاں تسلیاں ضرور دی جاتی ہیں، بعض اوقات تو ٹکا سا جواب مل جاتا ہے کہ پانی آگے سے ہی نہیں آرہا ہے، تو ہم کس طرح مہیا کرسکتے ہیں، لیجیے سن لی ان کی منطق، گویا پیاسے ہی مر جائیے لیکن ہماری جان چھوڑ دیجیے۔ ایسے ہی موقع پر کہا گیا تھا کہ دیدوں کا پانی مرگیا ہے، سالانہ بل بھی وصول کرتے ہیں اور پانی دینے سے صاف انکاری ہوجاتے ہیں۔

اب تو معاملہ الٹ ہوچکا ہے پانی بھی غائب ہوگیا ہے اور غیرت بھی ختم ہوگئی ہے، جب ہی تو کشکول ہاتھ میں آگیا ہے اور اپنے مسائل اور تنگدستی، فقر و فاقہ، صدقہ و خیرات کے لیے غیروں کے دروازوں پر دستک دی جاتی ہے۔ ویسے ان دنوں جنرل راحیل شریف کے آنے سے حالات کچھ بدلتے نظر آرہے ہیں، ہوسکتا ہے کاسہ گدائی کو بھی آگ لگا دی جائے، جوکہ یقیناً اچھا ہی عمل ہوگا، اب بھیک مانگنے کی عادت کو ترک کردینا ضروری ہے کہ جتنا قرض ہم ممالک غیر سے لیتے ہیں۔

اس سے کہیں زیادہ دولت تو ہمارے سابقہ اور موجودہ حکمرانوں کے پاس ہے، یہ صاحب ثروت حضرات اگر چاہیں تو قومی حمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے قرضے بھی اتار دیں اور مساکین و غربا کی مدد بھی اپنے ہی وطن کے باسیوں کی زکوٰۃ و خیرات سے بہت آسانی کے ساتھ کرسکتے ہیں۔ لیکن دکھ کی بات یہ ہے کہ زکوٰۃ، صدقہ و فطرے کے پیسے بھی جیب میں چلے جاتے ہیں اور حکمران اپنے اس عمل پر نازاں ہیں۔

شرجیل میمن پانی کے سلسلے میں کراچی کے شہریوں کو وافر مقدار میں پانی کی سپلائی کے لیے سنجیدگی کے ساتھ کوشش کریں تو گوہر مراد ہاتھ آسکتا ہے۔ پچھلے دنوں انھوں نے احکامات تو جاری کیے تھے لیکن شاید کسی کے کان پر جوں نہیں رینگی۔ بارہا اخبارات میں واٹر بورڈ کی ناقص کارکردگی کے حوالے سے خبریں چھپتی ہیں، کبھی مضر صحت پانی، تو کبھی پانی کی گمشدگی، کہ ڈھونڈے سے نہیں ملتا، خبروں کی شکل میں اشتہارات شایع ہوتے ہیں۔

لیکن افسوس، نہ آنکھوں میں پانی ہے اور نہ پینے کا اور اگر کبھی اتفاق سے پانی میسر آجائے تو گٹر کے پانی کا بگھار شامل ہوتا ہے، کیا کریں بگھار لگانے کے لیے لہسن بھی اصلی حالت میں میسر نہیں، اسے بھی تیزاب میں نہلا دھلا کر صاف و شفاف کردیا گیا ہے۔ رہ گئی پیاز تو وہ وافر مقدار میں نظر آرہی ہے اور وہ بھی سستے داموں، اس کی وجہ بھی سب کو معلوم ہے کہ اسے مسند سے نیچے گرانے میں مجبوری کے سوا کچھ بھی نہیں ورنہ تو پیاز کو اپنے ملک میں رہنے کا حق ہی نہیں تھا، عوام کو پانی ہی سے محروم نہیں کیا گیا بلکہ خالص و صاف غذا سے بھی عوام محروم ہے، جتنا پیسہ کھانے پینے پر خرچ نہیں ہوتا ہے اتنا علاج معالجے پر خرچ ہوجاتا ہے۔

ایک تخمینے کے حساب سے مضر صحت پانی کے استعمال اور اس سے پیدا ہونے والی بیماری پر سالانہ 12 ارب روپے خرچ کیے جارہے ہیں، ادارہ فراہمی و نکاسی آب کراچی کے پاس 440 ملین گیلن پانی صاف کرنے کی استعداد ہے جب کہ 100 ملین گیلن سے زائد پانی بغیر صاف کیے ہی ہے، باقی پانی لائنوں میں رساؤ نکاسی آب کی آمیزش کی وجہ سے آلودہ ہوچکا ہے اور یہی بدبودار اور گندا پانی شہری پینے پر مجبور ہیں، آلودہ پانی پینے کی وجہ سے پیٹ کی بہت سی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ ڈائیریا وہ بیماری ہے جو بچوں میں عام ہے۔

اس بیماری کے علاج پر 55 سے 80 ارب روپے سالانہ خرچ کیے جا رہے ہیں۔ ساتھ میں معصوم بچوں کی اموات نے گھروں میں قیامت بپا کردی ہے، ماؤں کی گودیں اجاڑ دی ہیں۔ کیا حکومت سندھ کو اس تلخ حقیقت کا احساس ہے؟ اچھی اور مثبت گفتگو کرنا آسان بات ہے، لیکن عمل کرنا بڑا ہی مشکل، ان لوگوں کے لیے ہے جن کی نیتیں صاف نہیں ہیں اور جو کچھ کرنا ہی نہیں چاہتے۔ تقریباً ایک ماہ قبل حیرت انگیز حقیقت کا انکشاف ہوا تھا کہ 30 زیر زمین واٹر سپلائی نیٹ ورکس کام کر رہے ہیں۔

واٹر بورڈ کے ایم ڈی قطب الدین شیخ نے اجلاس میں رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ انھیں 157 غیر قانونی ہائیڈرنٹس مسمار کرنے کی ہدایت کی گئی تھی، مزید علاقوں میں بھی تقریباً 196 ہائیڈرنٹس کام کر رہے تھے، جنھیں نہ کہ مسمار کیا گیا بلکہ غیر قانونی کام کرنیوالوں کے خلاف کارروائی بھی کی گئی، قطب الدین نے اس بات کی بھی وضاحت کی کہ انڈرگراؤنڈ ملنے والے واٹر سپلائی نیٹ ورک میں سے 9 کا فوری طور پر خاتمہ کردیا گیا۔

اس کاوش کے باوجود پانی کا مسئلہ جوں کا توں رہتا ہے، عوام پانی کو ترستی ہے، کرپٹ افسران ٹینکر مافیا کے ساتھ مل کر خوب نوٹ اکٹھا کرتے ہیں، جب شہری پانی کی بوند بوند کو ترسیں اور یہ لوگ اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں اور سنگل و ڈبل ٹینکرز کے دام زیادہ سے زیادہ بڑھا دیتے ہیں، مختلف علاقوں کا معیار زندگی دیکھ کر پانی کی قیمتیں وصول کرتے ہیں اور اس مد میں ہزاروں لاکھوں روپے کما لیتے ہیں کہ آموں کی طرح پانی کے ذریعے کمانے کا سیزن مئی، جون اور جولائی ہوتے ہیں، بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہوگا 2-4 ماہ کے علاوہ پورا سال گرمیوں کا موسم چلتا ہے۔

ان دنوں اس حقیقت کو بھی منکشف کیا گیا ہے کہ غیر قانونی ہائیڈرنٹس کو بند کردیا گیا ہے، لیکن پانی کا مسئلہ جوں کا توں رہتا ہے، اس کی وجہ خلوص نیت اور دیانتداری کا فقدان ہے، آئے دن مختلف علاقوں کے مکین سڑکوں پر آکر احتجاج کرتے اور پانی و بجلی کا نوحہ بیان کرتے ہیں۔ پچھلے دنوں جہانگیر روڈ کے مکین پانی و بجلی کی فراہمی بند ہونے کی وجہ سے روڈوں پر نکل آئے اور انھوں نے سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کرکے ٹریفک کو جام کرادیا، رکاوٹیں کھڑی کرنیوالے نامعلوم افراد تھے۔

غور کرنے کا مقام ہے کہ سخت چلچلاتی دھوپ میں مظاہرین تو اذیت جھیل ہی رہے تھے لیکن ساتھ میں بسوں، رکشہ اور دوسری گاڑیوں میں بیٹھے ہوئے مسافروں کا کیا حال ہوا ہوگا اور اگر اسی ٹریفک میں اسکول وین اور بسیں شامل ہوئیں تو معصوم بچے گرمی سے نڈھال اور ناکردہ گناہوں کی سزا بھگتنے کے لیے مجبور، ان حالات میں قیامت صغریٰ بپا ہوجاتی ہے، کاش کہ حکومت سندھ اپنے فرائض کو ایمانداری کے ساتھ نبھانے کی کوشش کرے اور ان لوگوں پر رحم کھائے جن کے ووٹوں کی بدولت اقتدار کے مزے لوٹے جا رہے ہیں۔ لیکن بے رحمی کا مظاہرہ ہر روز کیا جاتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں