سرِ محنت کشاں پر تاج ہوگا
بین الاقوامی ادارہ صحت کے رہنما اصولوں کی پابندی اور اس کی پیش کردہ سفارشات کی توثیق بھی کی گئی ہے
خوشحال مزدور خوشحال معاشرے کی اینٹ ہوتا ہے۔ خوشحال معاشرے سے ہی خوشحال مملکت وجود میں آتی ہے ملکی معیشت کی زبوں حالی بھی سب سے زیادہ اور براہ راست مزدوروں اور ان کے اہل خانہ کی زندگیوں کو متاثر کرتی ہے۔
پاکستان اسلام کے نام پر قائم کی جانے والی نظریاتی و فلاحی مملکت ہے اس کے قیام کے لیے مسلمانان برصغیر نے اس بنا پر لاکھوں زندگیوں کا نذرانہ پیش کیا کہ وہ اس ملک میں آزادانہ طور پر مذہبی، سماجی، سیاسی اور معاشی سرگرمیاں سر انجام دے سکیں گے جہاں ان کی عزت نفس ہوگی، سیاسی، سماجی اور معاشی آزادی اور تحفظ ہوگا جس کی ضمانت آئین پاکستان نے بھی فراہم کی ہے ۔
مگر بد قسمتی سے یہ خواب اب تک تشنہ تعبیر ہے۔ ملک کو شروع ہی سے جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور بیورو کریسی نے اپنے شکنجے میں جکڑ لیا ہے عوامی اور ملکی مفاد کو ذاتی وگروہی مفادات کے تابع کردیاگیا ہے۔ آزادی کے بعد ورثے میں ملنے والے مزدور قوانین ہی کچھ رد وبدل کے ساتھ نافذ العمل ہیں جن کا عملی اطلاق بہت کم ہے کچھ نئے قوانین بھی وضع کیے گئے ہیں۔
بین الاقوامی ادارہ صحت کے رہنما اصولوں کی پابندی اور اس کی پیش کردہ سفارشات کی توثیق بھی کی گئی ہے لیکن دوسری جانب عالمی مالیاتی اداروں مثلاً ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور ایشیائی ترقیاتی بینک کے احکامات کے تابع پالیسیاں تشکیل دی گئیں ہیں جن کی وجہ سے ڈاؤن سائزنگ، رائٹ سائزنگ اور اکنامک ڈرائیوکے نام پر معیشت اور محنت کش دونوں بری طرح متاثر ہوئے ہیں، اشیا کی قیمتیں بڑھائی گئیں۔ ٹیکسز عائد کیے گئے منافع بخش اور حساس قومی اداروں کو فروخت کیا گیا اور مزید پر نظریں لگی ہیں ایک جانب ان اداروں کو منافع بخش بنانے کے دعوے کیے جاتے ہیں تو دوسری جانب انھیں اونے پونے بیچ کر مزدوروں کو بے روزگار کردیا جاتا ہے۔
ایک طرف اداروں سے محنت کشوں کو بے روزگار کیا جاتا ہے تو دوسری جانب ملکی و غیر ملکی اورنوکری سے فارغ کردہ منظور نظر افراد کو کنسلٹینٹ، ماہرین اور ادارے کے لیے ناگزیر قرار دے کر خطیر مشاہرے اور مراعات کے عوض تعینات کردیا جاتا ہے جن کی تنخواہیں ایک عام محنت کش کو ملنے والی تنخواہ کے دو سوگنا سے بھی زیادہ ہوتی ہیں۔
سترھویں صدی میں برطانیہ، فرانس اور امریکا میں جس طرح محنت کشوں کا استحصال کیا جارہا تھا ان کے انسانی حقوق سلب کرکے ظلم و بربریت کا نشانہ بنایا جارہاتھا اس کے نتیجے میں محنت کشوں میں اپنے حقوق کے حصول کی جدوجہد کی تحریک بیدار ہوئی ۔ان کے مزدور رہنماؤں کو 3 مئی کو تختہ دار پر لٹکایاگیا اور بالآخر حکومتیں اور بین الاقوامی ادارے مزدوروں کے مسائل اور ان کے ساتھ کی جانے والی زیادتیوں اور نا انصافیوں کی طرف متوجہ ہوئے۔
ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن جیسا بین الاقوامی ادارہ محنت وجود میں آیا جس نے مزدور حقوق کے تحفظ کے لیے دنیا بھر میں محنت کشوں کی تحریکوں کو منظم و مربوط اور متحرک کرکے ان کے حقوق کے تحفظ کا شعور بیدار کرکے ان کے حالات کار بہتر کرنے کی کوششیں کیں، حکومتوں کو اس بات پر آمادہ اور مجبور کیا کہ وہ محنت کشوں سے متعلق وضع کردہ قوانین، سفارشات، اصول اور معیارات پر عمل در آمد کرائیں پاکستان میں ان قوانین کے موثر طور پر اطلاق نہ ہونے کے باوجود بھی محنت کشوں کے حالات کار میں کافی بہتری دیکھنے میں آئی تھی۔
صنعتی تعلقات بہتر ہوئے، یونین سرگرمیاں اور محنت کشوں کے بار گینگ پاور میں اضافہ ہوا۔ ان کی شرائط ملازمت و سہولیات بہتر ہوئیں۔ پیشہ ورانہ صحت و صفائی، سماجی تحفظ، اولڈ ایج پنشن کم از کم تنخواہ، اوقات کار اور بچوں سے مشقت لینے پر پابندی جیسے اقدامات کی وجہ سے محنت کشوں میں گھٹن کا ماحول کافی حد تک کم ہوا۔ لیکن بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور حکومتوں کے ڈکٹیشن، پالیسیوں، عزائم اور سازشوں اور سیاسی جماعتوں سے وابستہ مزدور یونین لیڈروں اور پیشہ ورکرپٹ اور پاکٹ یونین راہنماؤں نے محنت کشوں کے مفادات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ۔
جس کے نتیجے میں یونین سرگرمیوں پر پابندی، نجکاری، رائٹ سائزنگ، ڈاؤن سائزنگ، اکنامک ڈرائیو، ٹھیکیداری سسٹم، تھرڈ پارٹی ایمپلائمنٹ سسٹم جیسی استحصال صورتوں کی بنیاد بھی فراہم ہوئیں، سرمایہ داروں، جاگیرداروں، لیبر ڈپارٹمنٹ، لیبر کورٹس، پاکٹ یونین، سیاسی جماعتوں سے وابستہ اور پیشہ ور مزدور راہنماؤں کے باہمی اشتراک، نا اہلیت اور ریشہ دوانیوں سے محنت کشوں کو ناقابل تلافی نقصانات پہنچے اس اشتراکی عمل کی ایک مثال کراچی میں ایک گارمنٹ فیکٹری میں تین سو کے قریب محنت کشوں کے زندہ جل جانے کی ہے۔ یہ فیکٹر آئی ایس او اور ایل آئی او سمیت تمام مکمل قوانین کی خلاف ورزی کیوںکر کررہی تھی۔
متعلقہ ادارے اس پر آنکھیں کیوں بند کیے بیٹھے تھے اور اس سانحے کے بعد بھی بیدار کیوں نہیں ہوئے، فیکٹری مالکان کے علاوہ ذمے دار اداروں کے کسی ایک شخص کے خلاف بھی کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟ وزیراعظم نے سیکڑوں محنت کشوں کے زندہ جل جانے پر ان کے لواحقین کو انصاف دلانے کی بجائے حادثے کی ایف آئی آر سے قتل کی دفعہ نکالنے کا حکم کیوں دیا؟ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے حکمران اور سیاسی راہنما جاگیردار، سرمایہ دار یا پیروں کے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔
سیاسی جماعتوں سے منسلک اور پیشہ ورکرپٹ مزدور رہنماؤں کا تعلق یا رابطہ بھی ان ہی لوگوں سے ہوتا ہے بلکہ یہ ان کے دست و بازو بنے ہوتے ہیں ایسی صورتحال میں مزدوروں کو انصاف کہاں مل سکتا ہے چاہے ہاریوں کے ناک کان کاٹ دیے جائیں ان کے بچوں کو جان سے ماردیاجائے، خواتین کی عزتوں کو پامال کردیاجائے، ان پر کتے چھوڑ دیے جائیں، انھیں نجی جیلوں میں ڈال دیاجائے، بھتوں میں انھیں اور ان کی آنے والی نسلوں کو غلام رکھا جائے، صنعت کار، سیاست دان، ڈاکٹر، وکلا اور ان کی اولادیں اور بیگمات کمسن گھریلو ملازموں پر تشدد کرکے انھیں موت کے گھاٹ اتاردیں سماجی انصاف کی توقع تو ایک فلاحی ریاست میں ہی کی جاسکتی ہے اس صورت حال میں حبیب جالب کی پرانی نظم یاد آجاتی ہے۔
گھروں کو چھوڑ کر جب ہم چلے تھے
ہمارے دل میں کیا کیا ولولے تھے
یہ سوچا تھا ہمارا راج ہوگا
سرِ محنت کشاں پر تاج ہوگا
مسلط ہے سروں پہ رات اب تک
وہ ہی ہے صورت حالات اب تک
خوشامد جو کرے فنکار ہے وہ
جو سچ بولے غدار ہے وہ
ثنا بندوں کی ہم سنتے ہیں اکثر
خدا سے بھی زیادہ ریڈیو پر
اس سال بھی یوم مئی پر تقریبات برپا ہوں گی، مذاکرے، مباحثے، سیمینار، کانفرنسیں ہوں گی، سیاست دان، حکمران، آجر، اجیر اور حکومتی نمائندے مزدور راہنما محنت کشوں کے حقوق اور فلاح و بہبود کے لیے دھواں دار تقاریر کریں گے، ان کی حالت زار پر ٹسوے بہائے جائیں گے، وعدے وعید کیے جائیں گے، کھانا پینا ہوگا بچ جانے والے کھانوں کو کچرے کے ڈھیر سے تلاش کرکے وہ محنت کش اپنے پیٹ کی آگ ٹھنڈا کررہے ہوں گے جن کے نام پر یہ دن منایا جاتا ہے۔
ایک اسلامی رفاہی ریاست کا نمونہ تو یہ ہے کہ جب غزوہ بدر ایک صحابہ اپنے پیٹ پر بندھا ایک پتھر دکھاتا ہے تو دنیا دیکھتی ہے کہ آنحضرتؐ کی پیٹ پر دو پتھر بندھے ہوتے ہیں جب خلیفہ سے اجرت کا پوچھا جاتا ہے تو جواب ملتا ہے کہ مدینہ میں ایک عام مزدور کی جو کم سے کم تنخواہ ہے وہ ہی خلیفہ کی ہوگی۔
خلیفہ بھیس بدل کر رعایا کی مشکلات ڈھونڈتا تھا جس نے اپنے اوپر چھنا ہوا آٹا، ریشمی کپڑا اور ترکی گھوڑے کی سواری ممنوع کی ہوئی تھی یہ حکم دیگر حکام کے لیے بھی تھا۔ حضرت علیؓ اونٹ سے اتر کر اپنے غلام کو سوار کراتے اور خود رسی پکڑ کر پیدل چلتے تھے، حضرت عمر بن عبدالعزیز جو جوانی میں ایک خوش لباس اور خوشبویات کا استعمال کرنے والے نوجوان تھے، خلیفہ بننے کے بعد آپ کے کپڑوں میں پیوند لگے ہوتے تھے۔
یہی وجہ تھی کہ اس دور میں زکوٰۃ دینے والے تو ملتے تھے کوئی لینے والا نہیں ملا کرتا تھا۔ آج ہمارے ملک کے حکمران جو مالک کل اور اختیارات کا منبع ہیں جن کے اوپر پوچھنے والا کوئی نہیں ہے جب تک ان میں خوف خدا اور انسانیت کا درد بیدار نہیں ہوجاتا، صورت حال کا بدلنا ناممکن نظر آتا ہے۔