امتحانات اور آزمائش

امتحانات کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے جس کا پہلا مرحلہ ختم ہوا ہے اور یہ سلسلہ کہیں جون جولائی میں جاکر رکے گا۔


فاطمہ نقوی May 05, 2015
[email protected]

امتحانات کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے جس کا پہلا مرحلہ ختم ہوا ہے اور یہ سلسلہ کہیں جون جولائی میں جاکر رکے گا۔ امتحانات اور آزمائش زندگی کا حصہ ہیں ۔اس میں سرخرو ہوکر نکلنا ہی کامیابی کی دلیل ہے مگر اس کامیابی کو اگر محنت کے بل بوتے پر صاف وشفاف طریقے سے حاصل کیا جائے تو خوشی دوچند ہوجاتی ہے مگر صاف و شفاف طریقے کو ذرا زیادہ پسند نہیں کیا جاتا ۔

زندگی کے امتحانات ہوں یا تعلیمی مرحلے کے ہر شخص شارٹ کٹ کی تلاش میں ہے۔ اسی لیے سندھ میں ہزار دعوؤں کے باوجود موجودہ میٹرک بورڈ کے امتحانات میں بھی ہمیں یہی نظر آیا کہ طلبا سے زیادہ ان کے والدین پریشان تھے کہ کس طریقے سے کمک پہنچائی جائے اور اس کمک کو پہنچانے کے ذرایع تلاش کرنے میں تمام تر صلاحیتوں کا مظاہرہ بھی کیا گیا۔ اس سے طلباوطالبات کو یہ منفی سبق ملا کہ مقصد کے حصول کے لیے جائز و ناجائز ذرایع تلاش کرنے میں کوئی حرج نہیں مگر ایسے طریقہ کار کے ذریعے منفی سوچوں کو فروغ ملتا ہے۔

کراچی کے مضافاتی علاقے لانڈھی کے ایک گرلز اسکول میں تو ایک معلمہ طالبات کی نقل کی ویڈیو بناتی ہوئی بھی نظر آئیں جس کے ذریعے بہت سے شکوک و شبہات نے بھی جنم لیا کیونکہ ایک معلمہ کا کام ہے کہ دوران ڈیوٹی ایسی سرگرمیوں پر نظر رکھے اور ان کی روک تھام کرے مگر اس طرح کی ویڈیو کے ذریعے ان کے کیا مقاصد تھے۔ آیا طالبات کو بلیک میل کرنا تھا یا پھر کوئی اور مذموم مقاصد تھے اللہ جانے مگر اس کے ذریعے بھی والدین میں بے چینی پیدا ہوئی۔

کراچی بورڈ ایک بڑا ادارہ ہے جوکہ دوران امتحانات اس بات کا پابند ہے کہ امتحانات کے دوران شفافیت نظر آئے مگر ہر جگہ جو صورتحال نظر آتی ہے وہ اس کے برعکس ہے، ہیں کواکب کچھ اور نظر آتے ہیں کچھ والا معاملہ ہے، سب کو معلوم ہے کہ کیا ہو رہا ہے کیسے ہو رہا ہے کون کر رہا ہے، منظور نظر کس طرح پرچے حل کرتے ہیں مگر اس کا سدباب کرنیوالا کوئی نہیں۔ سب ایک جیسے ہیں ایک انگلی اگر ایک کی طرف ہے تو چار انگلیاں اپنی طرف بھی ہیں۔

اس لیے صرف زبانی کلمات سے کام لے کر معاملے کو رفع دفع کردیا جاتا ہے۔ عملی کارروائی سے پرہیز ہی کیا جاتا ہے ورنہ بات نکلے تو دور تک ہی جائے گی اور یہی وجہ ہے کہ آج ہر میدان میں شارٹ کٹ کی تلاش جاری ہے۔ عمران خان نے اس نظام کی تبدیلی کا نعرہ بلند کرکے ایک ہجوم اپنے گرد اکٹھا کر لیا مگر اصل کارکردگی اس کے برعکس ہی رہی۔ چار حلقوں سے شروع ہونے والی کہانی دھرنوں کے موثر ایفکٹ کے ساتھ زبان عام و خاص میں مقبولیت حاصل کر رہی تھی اور اس کہانی نے باکس آفس پر کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے تھے مگر ہوا اس کے برعکس فلم ایک دم اترگئی جس سے مجموعی طور پر بڑا برا اثر پڑا۔

2013کے الیکشن میں دھاندلی کا جس تواتر سے تذکرہ کیا گیا اور کئی جگہوں پر بات سچ بھی ہوئی مگر جب جوڈیشل کمیشن بن گیا اور کمیشن نے کہانی کو سچی کہانی بنانے کی بات کی تو ترنت جواب آگیا کہ فلم تو ڈبوں/تھیلوں میں بند ہے۔ اب سوچنے کی بات ہے کہ کیا سارے الزامات صرف ہوا میں چلائے ہوئے تیر تھے کہ لگ گیا تو تکا ،استعفے سے شروع ہونے والی کہانی پارلیمنٹ میں واپسی تک دھماکا خیز رہی مگر آخر میں ڈھول کا پول ہی ثابت ہوئی۔ ٹی وی پر ایک مبصر کہہ رہے تھے کہ ثبوت تلاش کرنا حکومت کا کام ہے ان کی بات درست سہی مگر جس تواتر سے الزامات کی بوچھاڑ تھی اس سے تو لگتا تھا کہ ثبوت تو ہاتھ کی مٹھی میں بند ہیں۔

اس لیے حلقہ 246 کے ضمنی الیکشن کو موت و زندگی کا محور بنالیا گیا رینجرز بھی آگئے پاکستان کی تاریخ کا واحد الیکشن ہے جس کی شفافیت کو اپنوں اور غیروں دونوں یکساں تسلیم کیا مگر ہوا کیا وہی جو ہونا تھا مگر خبر نکلی کہ اس کے نتیجے کو تسلیم کرلیا گیا مگر کچھ لوگ جو کسی گنتی میں ہی نہیں وہ میں نہ مانوں کی مثال بن کر ایک ہی راگ الاپتے نظر آتے ہیں مگر کوئی پوچھے کہ جناب آپ کے منہ سے ایسی باتیں اچھی نہیں لگتیں۔بات صرف اتنی سی ہے کہ عوام باشعور ہوگئے ہیں کوئی اور تفریح تو رہ نہیں گئی اس لیے جلسے جلوسوں میں شریک تو ہوجاتے ہیں مگر کرتے وہی ہیں جو ان کا دل کہتا ہے اور کارکردگی بتا دیتی ہے کہ بات میں کتنا دم ہے۔

خیبرپختونخوا کی حکومت مل گئی تھی تو اس کی کارکردگی کو اتنا بہتر کردیا جاتا کہ دوسرے صوبے بھی رشک کرتے،سندھ کی صوبائی حکومت اپنے تمام تر وسائل کو صوبے کی تعمیر و ترقی میں صرف کرتی تو آج دو سال پورے ہونے پر دوسرے صوبوں پر برتری حاصل کرلیتی، پنجاب کے وزیر اعلیٰ پر تنقید کے تیر نچھاور کیے جاتے ہیں مگر کوئی یہ تو دیکھے کہ پنجاب کو کیا سے کیا کردیا ہے مگر سانحہ پشاور ہو یا حالیہ طوفانی بارشوں کا سلسلہ اور تباہی یہ سب ناقص کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہیں اور صاف لگتا ہے کہ شارٹ کٹ سے حاصل کی گئی کامیابی دیرپا نہیں ہوتی۔

دیرپا کارکردگی کے لیے تن من دھن سے محنت کی جاتی ہے کسی بھی مقصد کو ذہن میں رکھ کر جذبات کی شدت سے کام لے کر قوت ارادی کو بڑھاوا دے کر ہی ناممکن کو ممکن بنایا جاسکتا ہے کیونکہ کامیابی کی ابتدا مقصد کی طاقت سے مشروط ہوتی ہے، مقاصد کو ذہن میں رکھ کر اپنے اہداف کے لیے کی جانیوالی کوشش ہر میدان میں انسان کو کامیابی سے ہمکنار کرتی ہے ۔

چاہے وہ انفرادی حیثیت کو بلند کرنے کے لیے کی جانیوالی کوششیں ہوں یا پھر اجتماعی ترقی کے لیے کیے جانے والے کام عمدہ مقاصد ہی اس کو حاصل کرنے کے طریقہ کار کے بارے میں بتاتے ہیں کہ مقصد کے حصول کے لیے کون سی مشکلات پر قابو پانا ہوگا اور اہداف کے حصول میں کیا کیا آسانیاں مہیا ہوسکیں گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔