اپریل کے آغاز میں ایک اردو ویب پورٹل کی تقریب میں پاکستان کے مقبول شاعر اور ادیب سحر انصاری مہمان خصوصی تھے۔ اپنی گفتگو میں انہوں نے اردو کی ترویج و ترقی کے حوالے سے ایک بہت ہی اہم بات کہی۔ ان کا کہنا تھا کہ اگرانیسویں صدی کے ہتھیار لے کر ہم اکیسویں صدی میں اقوام عالم سے مقابلہ کرنا چاہیں گے تو یہ ہرگز ممکن نہیں ہوگا۔ اکیسویں صدی میں دیگر اقوام سے علمی میدان میں مقابلے کے لئے پرانے ہتھیار نہیں چلیں گے۔ اردو کے ادیبوں، شاعروں اور دیگر اہل زبان کو چاہیے کہ وہ قلم کے ساتھ ساتھ جدید ٹیکنالوجی میں بھی مہارت حاصل کریں۔
تقریباً ایک ماہ بعد اُردو زبان کے حوالے سے ان کی یہ بات ذہن میں آنے کی کچھ وجوہات ہیں۔ اخبارات دیکھتا ہوں تو ان میں یہ پڑھنے کو ملتا ہے کہ
پاکستان کی قومی زبان، یہاں کی سرکاری زبان بننے کے لیے عدالتوں میں التجا کرنے پر مجبور ہے۔ دوسری وجہ ذہن میں اٹھنے والے چند سولات ہیں، کل پاکستان کے ایک کثیر الاشاعت اخبار میں اشتہارات دیکھے۔ ہرمیدان میں چھوٹی سی چھوٹی ملازمت کےامیدوار کے لیے جو شرائط رکھی گئی ہیں اُن میں سے بنیادی شرط یہ ہے کہ امیدوار انگریزی بولنے کا تجربہ رکھتا ہو۔
ایک ایسا ملک جس میں کوئی صوبہ، کوئی شہر، کسی شہر کا ایک مختصر سا حصہ ایسا نہیں جہاں سو فیصد آبادی انگریزی زبان بولتی اور سمجھتی ہو یا پھر وہاں کے مکینوں کے لیے اردو یا دیگر زبانیں سمجھنا مشکل نہ ہوں۔ اگر ایسا نہیں ہے اور بالکل ایسا نہیں ہے تو پھر ہر ادارے میں انگریزی زبان بولنے کی شرط کیوں رکھی جا رہی ہے؟ ہم سرکاری و نجی دفاتر میں بات تو اُردو میں ہوتی ہے لیکن ساری کاغذی کارروائی انگریزی میں کرتے ہیں۔ غور طلب بات یہ ہے کہ جو ادارے انگریزی میں کاغذی کارروائی کرتے ہیں اُن کے معاملات پاکستان ہی کے دیگر اداروں کے ساتھ طے ہوتے ہیں۔ اگر یہاں کوئی انگریز آتے ہوں یا ہمارا معاملہ کسی مغربی ملک کے ساتھ ہو تو پھر تو بات سمجھ آتی ہے کہ انگریزی کا استعمال کیا جائے۔
اوپر لکھی گئیں باتوں سے اگر کسی نے یہ اندازہ لگانے کی کوشش کی ہے کہ میں بدیسی زبانوں کی مخالفت کررہا ہوں تو یہ غلط ہے۔ بھلا اِس بات سے کون انکار کرسکتا ہے کہ ہمیں ہر اہم اور عالمی زبان سیکھنی چاہیے مگر ایسے ہی ایک موضوع پر لکھے گئے بلاگ ''ہماری تعلیمی ترجیحات'' میں، میں نے ذکر کیا تھا کہ پاکستان میں کثرت سے بولی اور سمجھی جانے والی ہماری قومی زبان اردو ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ ہم اس کو بھولتے جارہے ہیں۔ اگر حالات ایسے ہی رہے تو پھر چند سال بعد پاکستان میں اردو سکھانے کے لیے کوچنگ سینٹرز کی ضرورت محسوس ہونے لگے گی۔
اردو کی مقبولیت اورعام استعمال کے ضمن میں ایک معروف کالم نگار تاثیر مصطفیٰ اپنے خیالات کا اظہار کچھ یوں کرتے ہیں ''
آج بھی ملک کے تمام معاملات اُردو زبان ہی میں چل رہے ہیں۔ ملکی میڈیا کی غالب زبان اردو ہے، یہی وجہ ہے کہ ملک بھر میں انگریزی اخبارات و جرائد کی تعداد کو اتنی کم ہے کہ اُنہیں انگلیوں پر گنا جاسکتا ہے اور ان کی مجموعی اشاعت قابل شرم حد تک کم ہے۔ پورے ملک میں انگریزی زبان کا کوئی ایک ٹی وی چینل یا ریڈیو اسٹیشن موجود نہیں ماسوائے پی ٹی وی کے اور جو لوگ میڈیا سے وابستہ ہیں وہ جانتے ہیں کہ پی ٹی وی انگریزی کو ملک کے اندر کتنے لوگ دیکھتے ہیں۔
اس ملک کے تمام سرکاری دفاتر میں روز مرہ کی زبان اردو ہے۔ سائل اپنی مشکلات دفتر میں آ کر اُردو یا مقامی زبان میں بیان کرتا ہے اور عملہ بھی اُسی زبان میں جواب دیتا ہے۔ ہر میٹنگ کی 90 فیصد گفتگو اردو میں ہوتی ہے صرف اس کے نوٹس اور اعلامیے انگریزی میں جاری ہوتے ہیں۔ ان حالات کی موجودگی میں پھر یہ سوال تو بنتا ہے نا کہ آخر پاکستان میں دفتری زبان اردو کیوں نہیں؟
لکھنے لکھانے کے میدان میں ہم نے کاہلی اور سستی سے کام لیا اوراردو رسم الخط کو ڈیجیٹل دنیا میں متعارف کروانے کی ذمہ داری ادا نہیں کی۔ اس کے بجائے رومن اردو کو دوام بخشا۔ جس کے نتیجے میں آدھا تیتر آدھا بٹیر والی مثل کی مانند جو ہم اب لکھ رہے ہیں نہ وہ اردو ہے نہ ہی اس کو کوئی انگریزی ماننے کو تیار ہے۔ چلیں جب تک موبائلز اور کمپیوٹر پر اردو لکھنے کی سہولت موجود نہیں تھی اس وقت تک تو یہ عذر تھا مگر اب ایسا کیوں ہے کہ ہم اردو رسم الخط کو اہمیت نہیں دے رہے۔
اہل پاکستان اپنی قومی زبان کے ساتھ یہ سلوک کریں گے تو پھر
اردو سرکاری و دفتری زبان بننے کے لیے سپریم کورٹ کے احکامات کی ہی محتاج رہے گی نا۔ اگر ہم یہ سوچ کر بیٹھے رہیں کہ اُردو کو سرکاری و دفتری زبان بنانے سمیت اس کو اس کا جائز مقام دلانے کے لیے حکومتی ایوانوں میں کوئی کوشش ہوگی تو یہ ہماری خام خیالی ہے۔ حکومتی سطح پر اگر کوئی سنجیدہ ہوتا تو یہ انتہائی آسان طریقے سے ممکن تھا کہ اردو کو دفتری زبان بنانے کا ذکر 1973 کے آئین میں بھی ہے۔ مگر تاحال اس آئین پرعملدرآمد ہونے کے آثار کم ہی دکھائی دیتے ہیں۔
لیکن پاکستان کی زمین بڑی زرخیز ہے۔ ہمیں اس بات پر ہمیشہ فخر رہا ہے کہ ہم نے مسائل اور مایوسیوں میں کبھی اُمید کے دامن کو نہیں چھوڑا بلکہ اپنے چھوٹے چھوٹے چراغوں سے ہمیشہ اُمید کی روشنی پھیلانے کی کوشش کی ہے۔ یہاں بھی ایسے بہت سے ادارے اور افراد موجود ہیں جو اپنی مدد آپ کے جذبے سے لبریز، اردو کی ترقی اوراسے دورِ جدید کے تقاضوں اور ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کرنے کی کوششوں میں مگن ہیں۔
بلاگ کے آغاز میں پاکستانی ویب پورٹل کی جس تقریب کا ذکر کیا تھا اس کا مقصد بھی انٹرنیٹ پر اردو زبان میں لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرنا تھا۔ اسی طرح 8 مئی کو جامعہ کراچی کے ایچ ای جے آڈیٹوریم میں سوشل میڈیا کے بہترین ومثبت استعمال او ر انٹرنیٹ پر اردو کے فروغ کے لیے ایک
''اردو سوشل میڈیا سمٹ'' کا انعقاد ہونے والا ہے۔ شہر قائد کے ادبی و ثقافتی پروگرامات کے مرکز ''آرٹس کونسل '' میں بھی 23 تا 30 مئی سات روزہ ''آئی ایم کراچی یوتھ فیسٹیول'' نوجوانوں میں دیگر مثبت سرگرمیاں اجاگر کرنے کے ساتھ تحریر و تقریر کے ذریعے فروغِ اُردو کا بھی اہتمام کررہا ہے۔
اُردو دوستی کے عملی ثبوت پر مبنی ان سرگرمیوں کو دیکھ کر اردو سے محبت کرنے والوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ اب بھی اس زبان کے لیے عوام بالخصوص نوجوانوں کے اندر تڑپ موجود ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سرکار اردو کی ترویج اور فروغ کے لیے کیا اقدامات کرتی ہے اور سرکاری سطح پر اس کو کس حد تک جگہ دی جاتی ہے۔
https://twitter.com/masadaslam/status/594698357127421952
پاکستان کی معززعدالت عظمیٰ کے جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں اردو کو سرکاری زبان کا درجہ نہ دیئے جانے کی تحقیقات پر بنایا جانے والا بینچ اردو کو سرکاری و دفتری زبان بنانےمیں پوری توجہ سے کام کر رہا ہے۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے اردو زبان کی عزت و توقیر میں کس قدر اضافہ ہوسکے گا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا البتہ یہ فیصلہ ضرور یہ ظاہر کردے گا کہ پاکستان کے حکمران آئین و عدلیہ کے فیصلوں کی کس قدر پاسداری کرتے ہیں۔
[poll id="400"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی