میرے افکار نابینا ہیں بابا
مایوس کن صورتحال یہ بھی ہے کہ پاکستان میں ڈھائی کروڑ بچے اسکول ہی نہیں جاتے ۔۔۔
KARACHI:
پشتو شعرا میں بڑے بڑے نام گزرے ہیں۔ میں مسلمانوں کی حالت زار میں سب سے زیادہ پختونوں کے ساتھ ہونے والے ظلم اور ان کے خلاف ہونے والی سازشوں کو بڑی سنجیدگی سے اس لیے لیتا ہوں کیونکہ اسلام کے نام پر انھیں بڑی آسانی سے استعمال کر لیا جاتا ہے اور پختون معاشرے کی کچھ روایات بھی ایسی ہیں کہ وہ حقائق کو پرکھے بغیر عمل بھی شروع کر دیتے ہیں۔ عینی مروت ایک ایسی پختون خاتون کا نام ہے جس کے دل میں احساس اور اپنی قوم سے محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔
وہ ایک چھوٹی پختون بچی کی آہ و فریاد اس طرح بیان کرتی ہے کہ دل خون کے آنسو رو پڑتا ہے، پختون بچی اپنے والد سے کہتی ہے کہ ''میں کتنی بدنصیب ہوں بابا، اگرچہ (چہرے پر) دو بڑی بڑی آنکھیں رکھتی ہوں، لیکن میری بینائی کام نہیں کرتی، میرے افکار نابینا ہیں بابا، میرا شعور جہالت کے گھپ اندھیروں میں گم ہے، میں کس قدر بدنصیب ہوں بابا، کہ پروردگار عالم نے مجھے گفتار کی صلاحیت سے نوازا ہے۔
منہ میں زبان رکھتی ہوں، لیکن کلام کرنے کا حوصلہ نہیں، دل میں علم کی بے پناہ محبت ہے لیکن بدقسمت پختون ہوں کہ کوئی معلم / رہنما نہیں زندگی میں، اگر دریائے جہالت میں ڈولتا ہوا یہ ذہن پھر سے غرقاب ہو جائے اور علم کا دیا روشن نہ ہو پائے تو اے بابا... اپنی اس نابینا بیٹی کو شہر خموشاں لے جانا اور دور جہالت کی ایک روایت کی پیروی میں میرے لیے بھی ایک قبر کھود لینا بابا۔ جب آپ میرے بے شعور ذہن اور میری بے مقصد زندگی کی تاریکیوں کو علم کی تابانی سے منور نہیں کر سکتے تو، میرے عزیز بابا، میرے لیے ایک قبر تیار کر دینا اور لحد کی تاریکی میں زندہ دفن کر کے چھوڑ آنا۔''
کہنے کو تو یہ ایک پختون بچی کا نوحہ ہے لیکن اصل میں یہ عالم اسلام کی تمام بچیوں کی آہ و فریاد ہے۔ حالات کی ستم ظریفی ہے کہ اسلام و روایات کا نام لے کر فرسودہ رسوم کے تحت ہماری بچیوں پر جو ظلم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں ان پر کسی کی آنکھ اشکبار نہیں ہوتی۔ سوات میں لڑکوں کے چار سو بیالیس جب کہ لڑکیوں کے چار سو تیس اسکول ہیں، 48 فیصد لڑکیوں کا رجسٹر میں اندراج ہوتا ہے جب کہ صرف دو فیصد لڑکیاں ہی اعلیٰ تعلیم حاصل کر پاتی ہیں۔ سوات میں خواتین کی تعلیم خیبر پختونخوا کے دیگر حصوں کی بہ نسبت زیادہ ہے۔
کچھ عرصہ قبل لڑکیوں کے اسکول جانے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی لیکن سوات میں بتدریج امن آنے کے ساتھ ساتھ لڑکیوں کو پڑھانے کے رجحان میں قدرے اضافہ ہو رہا ہے، گو یہ رفتار انتہائی سست ہے لیکن ماضی کے مقابلے میں اسے اطمینان بخش نہ سہی لیکن حوصلہ افزا ضرور کہا جا سکتا ہے۔
مایوس کن صورتحال یہ بھی ہے کہ پاکستان میں ڈھائی کروڑ بچے اسکول ہی نہیں جاتے، یہ تعداد دنیا بھر میں دوسرے نمبر پر آتی ہے۔ ایجوکیشن فار آل گلوبل مانیٹرنگ رپورٹ کے مطابق اسکول نہ جانے والے بچوں کی کل تعداد کا دو تہائی بچیوں پر مشتمل ہے۔ پاکستان کے شمال مغرب علاقوں میں شدت پسندوں نے بالخصوص لڑکیوں کی تعلیم اور ان کے اسکولوں کو اپنے غیظ و غصب کا نشانہ بناتے ہوئے سیکڑوں اسکول ملیامیٹ کر دیے۔
ملاکنڈ ڈویژن میں شدت پسندوں نے ایک سو چونسٹھ اسکولوں کی عمارتوں کو مکمل طور تباہ کیا، ان میں سے ایک سو چار اسکول لڑکیوں کے لیے مخصوص تھے۔ صرف خیبر پختونخوا میں 25 لاکھ بچے ایسے ہیں جو مختلف وجوہات کی بنا پر اسکول نہیں جا پاتے۔ مینگورہ کی بارہ یونین کونسلوں میں سے تین کا سروے کیا گیا تو پتہ چلا کہ تین ہزار پانچ سو بچے ورکشاپوں اور ہوٹلوں میں کام کرتے ہیں یا کچرا اٹھاتے ہیں، تعلیم سے محروم ان بچوں میں لڑکیوں کے اعداد و شمار شامل نہیں ہیں۔
ویسے تو پاکستان اور افغانستان میں تعلیمی اداروں کا جائزہ لیں تو حالات دگرگوں ہی نظر آتے ہیں لیکن یہاں میں نے ایک ایسی پختون بچی کے نوحے سے بات شروع کی جسے حکومت کچھ نہیں دے پا رہی۔ کراچی جیسے شہر میں پختون آبادیوں میں لڑکیوں کے اسکول نہیں ہیں، کٹی پہاڑی جس کی وجہ شہرت کچھ بھی ہو یہاں ایک بھی سرکاری اسکول نہیں ہے، کراچی میں جس پختون آبادی کا ذکر کرتا چلا جاؤں، تو یہ سوال ان لوگوں سے پوچھتا ہوں کہ شدت پسندی کے خلاف باتیں تو بہت کی جاتی ہیں، مدارس کے خلاف بولا تو بہت جاتا ہے لیکن ان آبادیوں کو بلدیاتی سہولیات کیوں فراہم نہیں کی جاتی۔
یہ قدیم آبادیاں ہیں، پاکستان کی تشکیل سے پہلے سے یہاں انسان آباد ہیں لیکن زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ شاید کسی کو حیرانی نہ ہو کہ اب تو قبرستانوں میں بھی قومیت کے نام پر مردے دفن کیے جاتے ہیں، فلاں قومیت کا قبرستان ہے، فلاں برادری کا قبرستان ہے، فلاں کمیونٹی کا قبرستان ہے۔ اب تو مرنے والوں میں بھی لسانیت اور صوبائیت پیدا کی جا چکی ہے۔ مر کر بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے قصہ پارینہ بن گیا۔
پختون ایک غیور قوم ہے، وہ مادہ پرست نہیں ہے، وہ بنیاد پرست بھی نہیں ہے بلکہ وہ محبت کرنے والی، بہادر، ایماندار اور وفادار قوم ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ان کے حقوق انھیں نہیں ملتے جس بنا پر نوجوان نسل غلط راستے اختیار کر لیتی ہے، بچیاں گھر بیٹھی رہ جاتی ہیں، وہ لڑکوں کو تعلیم نہیں دے پاتے، لڑکیوں کو کیا دیں گے۔ مجبوری ہے، ورنہ جس قوم کی بچیوں نے دنیا بھر میں موقع ملنے پر نام روشن کیے وہ کیا نہیں کر سکتی۔
بلاشبہ ہمارا معاشرہ کچھ ایسا تنگ نظر بھی ہے کہ والدین بے ہودہ معاشرے کی وجہ سے اپنی بچیوں کی حفاظت کے نام پر کچھ ایسی سختیاں اختیار کر لیتے ہیں جنھیں لوگ قدامت پسندی قرار دیتے ہیں۔ لیکن پختون مائیں، بہنیں اور بیٹیاں تعلیم نہ ہونے کے باوجود ایسے غیور نوجوانوں کی تربیت کرتی ہیں کہ روس ٹکڑے ٹکڑے اور امریکا ذلت آمیز شکست سے دوچار ہو جاتا ہے۔
میں عینی مروت کے سامنے شرمندہ ہوں کہ ہم اپنی قوم کی بچیوں کو اس کا حق نہیں دلا سکے، آج وہ ہم سے گلہ کرتی ہیں کہ ان کا بھی کچھ حق ہے لیکن ہم نے اپنے خودساختہ رسم و رواج میں ان کو بھینٹ چڑھا دیا ہے۔ غیرت کے نام پر ہم اپنی قربانی نہیں دیتے بلکہ خود کو مقدس گائے سمجھتے ہیں۔ میری بچی تم نابینا نہیں ہو بلکہ یہ دنیا نابینا ہے، جو دیکھ کر بھی کچھ نہیں دیکھ پا رہی، اسے صرف وہی نظر آ رہا ہے جس رنگ کی عینک پہنے ہوئے ہیں۔ میری بچی میں تعلیم کے نام پر بے حیائی کا مخالف ہوں، حیا کے نام پر بے پردگی کا مخالف ہوں، کیونکہ یہاں انسان نہیں گدھ رہتے ہیں۔
یہ معاشرہ ہی ایسا ہے کہ ہمیں اپنی عزت کی حفاظت کے لیے سینے پر گولیاں بھی کھانی پڑتی ہیں اور اپنی عزت کی جانب گندے ہاتھوں کو روکنے کے لیے ایسے چھلنی بھی کرنا پڑتا ہے، میری پختون بچی صرف تم ہی مظلوم نہیں ہو، یہاں ہر قوم کی بچی مظلوم ہے، لیکن کیا کریں، ان کو قلم، بستے اسکول نہیں بلکہ ہتھیار اور ٹینک دیے جاتے ہیں۔ نہیں بیٹی، نہیں میں تمھیں شہر خموشاں میں غلط روایتوں کی آڑ لے کر دفن نہیں کر سکتا، میں فرسودہ رسوم کا سہارا لے کر اپنی پگڑی اونچی نہیں کر سکتا۔ یہ علم کی روشنی کسی فرد کی میراث نہیں ہے، ایک دن ایسا بھی آئے گا کہ جب تاریخ میں پختون بچیوں کے شانہ بہ شانہ مرد نہیں بلکہ دوسری قومیت کی بچیاں کھڑی ہو کر اپنا حق استعمال کریں گی۔