وہ سب دیکھ رہا ہے
ہم جو ایک دوسرے کی غلطیوں اور برے وقت پر بغلیں بجاتے،دوسروں کی تذلیل کرکے خود کو عزت مآب سمجھتے ہیں
ہم جو ایک دوسرے کی غلطیوں اور برے وقت پر بغلیں بجاتے،دوسروں کی تذلیل کرکے خود کو عزت مآب سمجھتے ہیں، دوسروں کے حقوق پر ڈاکہ ڈال کر خود کو حقوق انسانی کا علمبردار اور باطل کے فروغ پر خود کو حق پرست سمجھتے نہیں تھکتے۔ ہم سب ایسے معاشرے کے افراد ہیں جہاں ہر ''صاحب حیثیت'' کا اپنا الگ جہان ہے اس جہان میں اس کا خودساختہ نظام حیات، آئین و قانون رائج ہے وہ اپنی دنیا کا خود ہی مالک و مختار ہے، مگر وہ دوسروں کو یہ اختیار دینے کو تیار نہیں کہ وہ بھی اپنی دنیا میں ''مگن'' اور خودمختاری کی زندگی جی سکے۔
اپنی خودمختار بادشاہت کو قائم اور دوسروں کو اپنے زیرنگیں رکھنے کے لیے ہر کوئی اپنی طاقت، دہشت، وحشت و بربریت میں اضافے کی تگ و دو میں مصروف ہے۔ یہ طاقت و جبریت بلا دوسروں کو کچلنے اور حق مارنے کے حاصل ہونا محال ہے۔ لہٰذا سب بڑی مچھلیاں چھوٹی مچھلیوں کو نگل رہی ہیں۔ یہاں تک تو ٹھیک ہے کہ اپنے جینے کی تگ و دو ضروری ہے۔ مگر افسوسناک پہلو یہ ہے کہ پورے معاشرے میں یہ اصول رائج الوقت ہے کہ کچھ ''شخصیات'' اور کچھ ''ادارے'' آئین و قانون سے بالاتر ہیں۔
وہ تمام کمزور و بے حیثیت لوگوں کو کچل دیں، ان کے منہ سے نوالہ چھین لیں یا انھیں سرعام ذلیل و رسوا کردیں ان کی شان اور شخصی مان اسی میں ہے کہ وہ چاہیں تو اپنے باغ کا ایک پھل توڑنے پر کمسن بچی پر کتے چھوڑ دیں، جلتے کھیت میں غریب بچے کو جھونک کر جلادیں، یا کم عمر بیوی کو زبردستی زہر پلاکر ہلاک کردیں اور رہا معاملہ کاروکاری کا تو گویا یہ ان کا اخلاقی، معاشرتی اور شاید آئینی حق ہے اس پر کون اعتراض کرسکتا ہے کبھی ایسے قاتلوں کو میں نے تو کیفرکردار تک پہنچتے نہ دیکھا نہ سنا نہ علمائے حق نے اس پر آواز اٹھائی کیونکہ یہ سب ''بڑے لوگ ہیں جینے کا ہنر جانتے ہیں۔''
یہ سب برحق اور آئین و قوانین کے مطابق ہے (شاید) اس لیے ان کے خلاف کوئی قانون، کوئی مذہبی جماعت حرکت میں نہیں آتی، لیکن کوئی سماجی و معاشرتی ادارہ ان کے خلاف آواز اٹھائے تو وہ نہ صرف خلاف آئین، شخصی و ادارتی توہین کا مرتکب ہوگا بلکہ انجام اندھا قتل ہی قرار پائے گا۔ جس کو چاہو قتل کرو، جسے چاہو سسکتا رہنے دو، جس کو جی چاہے ذلت و رسوائی سے ہمکنار کردو اور جسے چاہو کافر اور واجب القتل قرار دے دو اور اگر جی چاہے تو کسی کو مومن کہہ کر جنت کے اعلیٰ درجات کا سرٹیفکیٹ عطا فرما دو۔
قیامت پر ایمان لانا، ایمان کی دلیل ہے کیونکہ قیامت کا آنا برحق ہے۔ جس گھر سے بھوک، ظلم، تشدد، ناانصافی اورمعاشرتی جبر کے باعث بیک وقت کئی کئی جنازے نکل گئے اس گھر پر تو قیامت آ ہی چکی، ذمے دار کون؟ تاریخ تو بتاتی ہے کہ ''میری حدود سلطنت میں اگر ایک کتا بھی بھوک سے مر گیا تو اس کی جوابدہی مجھ سے کی جائے گی۔'' اگر حکمران کو احساس ذمے داری ہو تو۔ مگر آج قیامت کے کس مفہیم پر ایمان قائم ہے یہ ہم جیسوں کی سمجھ میں کیا آئے گا؟
وہ جس نے اپنے بندوں کو طاقت و اقتدار اور اختیار عطا فرمایا اور اس کو اپنی امانت قرار دیا کہ ''ہم نے دی ہے اس کے بارے میں تم سے جواب ضرور طلب کریں گے'' وہ جو شہ رگ سے بھی قریب ہے جو دلوں کے بھید کا رازداں ہے یہ سب تماشا دیکھ رہا ہے کہ وہ سمیع و بصیر ہے۔ بندہ طاقت و اختیار حکمرانی و اقتدار تو حاصل کرلیتا ہے، مگر اس کے استعمال کے بارے میں جوابدہی سے بے فکر ہوجاتا ہے۔ تو کیا واقعی ان کا کبھی احتساب نہ ہوگا؟ وہ تو کرے گا اور اس نے آگاہ بھی کردیا ہے کہ ''ہم نافرمانوں کی رسی دراز کرتے ہیں جب زمین ان کے پیروں تلے سے کھینچتے ہیں تو پھر سنبھلنے کا کوئی موقع نہیں دیتے۔'' وہ تو ہر شے پر قادر ہے۔
اے نادان انسانو! تم کتنے ہی بڑے، کتنے ہی اہم اورکتنے بھی طاقتور، صاحب اختیار و اقتدار کیوں نہ ہو، ہو تو اس کے بندے وہ رب تمہارے غرور و تکبرکو پسند نہیں فرماتا اور وہ کہہ چکا ہے کہ متکبر جنت میں نہیں جائے گا۔ مگر تمہیں کیا خوف تم نے تو اپنی جنت اسی عارضی قیام گاہ میں بنا لی ہے تمہیں کیا فکر؟ مگر یوم حساب ہر اک کے لیے مقرر ہے اولین و آخریں، اعلیٰ و ادنیٰ سب کے ساتھ انصاف کیا جائے گا۔ اب اگر اس کا انصاف (عدل) کسی کو بھڑکتی آگ کی نذر کرے تو یہ ظلم (نعوذباللہ) نہیں عدل ہے کہ ظلم تو بندہ خود پر اس کی نافرمانی کرکے کرتا ہے۔
اور اگر وہ کسی کو جنت الفردوس کے باغوں میں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں پہنچائے تو یہ بھی اس کا عدل ہے بندہ اپنی عارضی قیام گاہ (دنیا) میں من مانی کرتا ہے، اپنی دولت، طاقت، اختیار و اقتدار غرض ہر نعمت خداوندی کا ناجائز استعمال کرتا ہے ان ہی انعامات کے بل بوتے پر قتل و غارت گری، کمزور سے اس کا حق چھینتا ہے، بیواؤں اور یتیموں کا مال ہڑپ کر جاتا ہے، جتنی دولت ملتی ہے اس کو مزید کئی گنا بڑھانے کی فکر میں بندگان خدا پر ظلم و جور کی انتہا کرتا ہے۔ اگر گرفت میں آجائے تو زرخرید گواہوں اور انصاف کے بیوپاریوں کے ذریعے قانون کی سزا سے بچ جاتا ہے اور اس پر بھی شکر ادا نہیں کرتا نہ توبہ کہ خدا نے اس کو توبہ کا ایک موقع فراہم کیا کہ اس کی خودساختہ عزت رہ گئی مگر وہ دنیاوی جاہ و حشم کی چاہ میں اندھا ہوجاتا ہے۔ بالآخر قزاق اجل کا آکر اس کا سب مال و متاع لوٹ لیتا ہے۔
یوم حساب جب اس سے باز پرس کی جائے گی تو وہ حسب عادت دنیاوی حربے استعمال کرنے کی کوشش کرے گا بھی تو وہاں اس کو زرخرید گواہوں کی سہولت تو نہ ہوگی۔ البتہ اس کے اعضا خود اس کے خلاف گواہی دیں گے۔ وہ کچھ اپنی صفائی میں کہنا چاہے گا تو اس کی زبان گواہی دے گی، بارگاہ الٰہی میں اس نے بارہا اسی زبان سے جھوٹ بولا، لوگوں کو برا بھلا کہا تیری مخلوق کو ہزاروں کے مجمعے میں ذلیل و بے آبرو کیا، آنکھیں گواہی دیں گی خداوند ان ہی آنکھوں سے اس نے لوگوں کو حقارت سے دیکھا، دنیا کے کھیل تماشے، بدفعالی کے نظارے کیے۔
ہاتھ کہیں گے کہ اس نے ان ہی سے لوٹ مار کی دونوں ہاتھوں سے یتیموں کا مال، مجبوروں کی محنت کی کمائی لوٹی، پاؤں کہیں گے ان ہی پیروں سے چل کر یہ رشوت دینے لینے کے علاوہ مہ خانے، جوا خانے، بالاخانے گیا اور ان ہی قدموں تلے تیری مخلوق کو کچلتا رہا۔
ننھے ننھے بچے دربار الٰہی میں فریاد کریں گے خدایا ہم تن برہنہ، ننگے پاؤں ٹھٹھرتی سردی، سخت دھوپ، جلتی زمین پر بھوکے پیٹ رلتے رہے اس کے پاس تمام وسائل ہوتے ہوئے ہماری طرف نظر اٹھاکر دیکھنا بھی گوارہ نہ کیا، اپنی ایئرکنڈیشن گاڑی میں ہم پر دھول اڑاتے گزر گیا، ہم ہاتھ پھیلاتے رہے اس نے ذرا توجہ نہ دی بلکہ حقارت سے دیکھ کر آگے بڑھ گیا۔ بیوائیں فریاد کناں ہوں گی کہ ہمارے بچے بھوک سے بلکتے رہے مگر یہ لوگ ہمارے سر سے سایہ اور منہ سے نوالہ تک چھین کر لے گئے۔
مجبور، بے سہارا، مقہور، مقدور و لاغر جو دنیا کے ان طاقتوروں کے ظلم کے باعث ہر نعمت خداوندی سے محروم رہے، ان کے ہر ظلم پر اللہ رب العزت سے فریاد کرتے رہے، یاد الٰہی میں مصروف رہے، جنھوں نے دنیاوی خداؤں کے بجائے خدائے حقیقی کے سامنے دست طلب بڑھایا، جو کچھ مل گیا اس پر شکر خدا ادا کیا، وہ اس دن مسرور شاداں ہوں گے، جنت کے باغوں میں اپنے من پسند عیش و آرام میں۔