بادشاہ اورسفیدطوطا
جب بادشاہ تھوڑاساآگے گیا، مڑکردیکھاتواس کی فوج کافی پیچھے رہ چکی تھی
KARACHI:
سیکڑوں برس پہلے کی بات ہے،کہ ایک بہت بڑی ریاست کاایک بادشاہ تھا۔وہ ہرطرف بہت رحم دل اورنیک دل مشہورتھا۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ اس کا نام نیک دل تھا۔دوسراجوبھی اسے نیک دل نہیں کہتاتھا،اسے فوراً جلاد کے حوالے کردیاجاتاتھا۔جلادکانام رحمدل تھا۔ مگر وہ سارادن بے گناہ لوگوں کی بادشاہ کے احکامات پر گردنیں کاٹتا رہتا تھا۔ ملک میں ہرجانب امن ہی امن تھا۔
بادشاہ کے صرف دوشوق تھے۔ایک ناجائز دولت جمع کرنے کااوردوسراشکارکھیلنے کا۔اپنے ملک کی بیشتردولت اپنے اورغیرملکی محفوظ خزانوں میں جمع کررکھی تھی۔لوگوں کواپنے بادشاہ سے اتنی محبت تھی کہ انھوں نے پیسے کے بغیرجانوروں کی سطح پرزندگی گزارنے کافن سیکھ لیاتھا۔بادشاہ اوراس کے خاندان کوحکومت کرتے پچاس سال ہوچکے تھے مگروہ خوشگوارلمحہ نہ آیاتھانہ ہی اس کے آنے کی کوئی امیدتھی۔
اسطرح کے اعلانات روزانہ کئی بار کیے جاتے تھے اورلوگ مجبوراًسنتے رہتے تھے۔ حاکم کی دولت سے محبت کایہ عالم تھاکہ وہ دن میں تین باراپنے محل سے منسلک تہہ خانہ میں جاتاتھا۔اپنی دولت کے انبارکو دیکھتا تھا اور ہیرے جواہرات کوباربارگنتاتھا۔یہ تمام عمل اس کے لیے انتہائی سکون اوراطمینان کاباعث بنتاتھا۔
دوسراشوق شکارکھیلنے کاتھا۔ہفتہ میں ایک دن اپنے سیکڑوں محافظوں کے ہمراہ جنگل چلاجاتاتھا۔کمزوراوربے بس جانوروں کو تیرسے چھلنی کرنے میں اسے دلی مسرت ہوتی تھی۔جنگل میں برسوں سے قحط اورپانی نہ ہونے کی بدولت پرندے اورجانور انتہائی لاغرہوچکے تھے۔ان میں اتنی استطاعت بھی نہیں تھی کہ اپنے آپکوبچانے کے لیے تیزی سے دوڑسکیں۔ویسے انسانوں کی حالت بھی کم وبیش ایسی ہی تھی۔
ایک دن شکارکے دوران بادشاہ نے ایک درخت کی ٹہنی کی طرف دیکھاتواسے سفیدرنگ کابڑاساطوطانظرآیا۔ طوطا اتنا خوبصورت تھاکہ بادشاہ نے اسے فوراًاپنی طبیعت کے عین مطابق تیرسے گرانے کی کوشش کی۔جیسے ہی طوطے نے بادشاہ کے تیرکمان کودیکھا،تووہ پُھرسے اڑکراس کے نزدیک چلا گیا۔ طوطے نے بادشاہ سے جان کی امان مانگنے کے لیے مقامی زبان میں گفتگوشروع کردی۔بادشاہ حیران ہوگیاکہ طوطے کوزبان وبیان پرمکمل عبورحاصل ہے۔وہ سفیدطوطے کی حاضردماغی سے بھی بہت متاثرہوا۔اسکوبڑے آرام سے اپنے محل میں لے آیا۔
طوطے کے لیے ایک خوبصورت پنجرہ بنوایا گیا۔چند ہفتے بعدطوطے نے اپنی باتوں اوررطب اللسانی سے بادشاہ کا بھرپور اعتمادحاصل کرلیا۔ فرمائش کی کہ اسے پنجرے سے نکال کرکھلاچھوڑدیاجائے اوروہ ہرجانب پروازکرنے کے لیے آزاد ہو۔یہ آزادی اس بات سے مشروط تھی کہ سفیدطوطاہرجگہ کی خبریں لاکربادشاہ کوحالات حاضرہ سے مطلع رکھے گا۔بادشاہ کو لوگوں کی زندگی بالخصوص ذاتی حالات جاننے کی بہت پرانی عادت تھی۔
اس عادت کے ساتھ ایک اور اَمرمنسلک تھا۔ وہ اپنی حکومت اورعدل وانصاف کی بابت صرف اچھے قصے سننے کا عادی تھا۔بری خبردینے والے کوفوری طورپررحم دل جلادکے حوالے کردیا جاتا تھا۔ سفید طوطا بہت جلداس نازک معاملے کو سمجھ گیا۔تھوڑے ہی عرصے میں بادشاہ کی سلطنت میں شامل تمام علاقوں کی زبان سیکھ لی۔اب وہ روزطویل پرواز کرتا۔ مختلف قصبوں،شہروں اورمحلوں میں جاتا۔خبریں اکھٹی کرتا۔ اور بادشاہ کورات کوسونے سے پہلے مکمل تخلیے میں بیان کرتا۔اس نے یہ سرکاری گُربھی سیکھ لیاکہ ہرشخص کی برائی اس وقت کرو جب وہ موجودنہ ہو۔
اس کے علاوہ وہ بادشاہ کورعایاکی خوشحالی اور مطمئن رہنے کے فرضی قصے سناتارہتاتھا۔حاکم اپنی جھوٹی تعریف سنکرانتہائی خوش ہوتا تھا۔ تھوڑے سے عرصے میں سفید طوطاشاہی دربارکاسب سے اہم درباری بن چکاتھا۔ اس کا اثر اتنازیادہ تھاکہ بڑے سے بڑا درباری بھی اس کی خوشامدکرنے پر مجبورتھا۔ہردرباری سفیدطوطے کوزیتون میں گندھی ہوئی چُوری پیش کرتا۔مگراب طوطاصرف چُوری پراکتفا نہیں کرتا تھا۔
اس نے اشرفیوں کی تھیلیاں اکٹھی کرنے کادھندہ شروع کردیا۔ صورتحال ایسی ہوگئی کہ بادشاہ اس درباری طوطے کی ہربات ماننے لگا۔ایک دن شاہی خزانچی نے محسوس کیاکہ خزانے میں ہرماہ جواشرفیاں وصول ہوتی تھیں،ان میں کافی کمی آچکی ہے۔ تحقیق کرنے پرمعلوم ہواکہ بے شماراشرفیاں درباری پرندے کے خفیہ خزانے میں موجودہیں۔شاہی اہلکار کوجب یہ بات معلوم ہوئی تواس نے سچی بات بادشاہ کوبتانے کی کوشش کی۔
بادشاہ اتنامصروف تھاکہ خزانچی کودربارتک کئی دن رسائی نہ مل سکی۔ادھردرباری طوطے کوبھی خبرمل گئی کہ شاہی اہلکار اس کی شکایت لگانے کے لیے بے چین ہے۔اس نے ایک عجیب حرکت کی۔وہ اڑکرایک چھوٹی سی درزسے تہہ خانے میں داخل ہوگیا۔اشرفیوں کے متعدد تھیلوں کواپنی چونچ سے کاٹ ڈالا۔پھران تھیلوں سے اشرفیاں نکال کرشاہی خزانچی کے گھرمیں ایک جگہ چھپادیں۔خزانچی تصوربھی نہیں کرسکتاتھاکہ وہ ایک خوفناک سازش کاشکارہوچکاہے۔
اس رات طوطے نے بادشاہ کوشکایت کی کہ اس کے معتمدخاص کے دل میں میل آچکاہے۔ لہذااب وقت ہے کہ حاکم بذات خوداپنے خزانے کامعائنہ کرے۔بادشاہ اسی وقت خزانے کے تہہ خانے والی جگہ پرگیا۔حیران ہوگیاکہ اشرفیوں کی تھیلیوں پرشاہی مہرٹوٹی ہوئی ہے۔اپنے ساتھ اس بے ایمانی پرغصے سے دیوانہ سا ہوگیا۔اب وہ موقعہ تھاکہ طوطے نے بادشاہ کوشاہی خزانچی کے گھرکی جانب روانہ کیااوراسے اشرفیوں والی جگہ بھی بتادی۔ اس کی خبرٹھیک نکلی۔شاہی خزانچی کوحسب روایت کسی بھی مقدمہ یا صفائی کاموقعہ دیے بغیرجلادکے حوالے کردیاگیا۔وہ مرتے دم تک چیخیں مارتارہاکہ اس کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے مگرکوئی بھی اس کی بات سننے والا نہیں تھا۔اس کے سرکاری گھر کو مسمار کردیا گیا۔ خاندان کوبھی پابندسلاسل کردیاگیا۔
اس واقعہ کے بعدسفیدطوطااپنے اقتداراورطاقت کے عروج پرپہنچ گیا۔درباری اس سے تھرتھرکانپتے تھے۔ ہیڈوزیر اورسرکاری عمال سب سے پہلے اس سے احکامات حاصل کرتے تھے۔پھرجیسے وہ کہتاتھا،بالکل اسی طرح بادشاہ کے سامنے بیان کرتے تھے۔اب حکومت سفیدطوطے کے ہاتھ میں تھی۔اب اس پرندے نے اپنے پرپُرزے اورمضبوطی سے نکالنے شروع کردیے۔بادشاہ سے وفادارہرشخص کی شکایت لگا کراسے درباراوربادشاہ سے دورکردیتاتھا۔اس کی طاقت کایہ عالم تھاکہ ملکہ عالیہ کوبھی قیمتی تحائف اورہیرے جواہرات دیکر اپنی مٹھی میں کرچکاتھا۔شہزادے اورشہزادیاں بھی اب اس سفیدطوطے کے توسط سے اپنے والدکے پاس جاسکتی تھیں۔
طوطے نے کمال ہوشیاری سے اپناخزانہ شہرسے نکال کرباہر جنگل میں ایک محفوظ جگہ پرمنتقل کرناشروع کردیا۔وہ رات کو بادشاہ کو سلاکر خاموشی سے محل سے پروازکرجاتاتھا۔شہرسے تھوڑے فاصلے پراس نے قیمتی اورگھنے جنگل بھی خریدنے شروع کردیے۔ بلکہ کچھ ہی عرصے میں وہ بہت سے جنگلات کامالک بن گیا۔اب اپنی حیثیت میںوہ خودبادشاہ تھا۔ایک ایسانایاب پرندہ ،جسکی کم ظرفی اورشرسے انسان توکیاجنگل کے چرنداورپرندبھی گھبراتے تھے۔جنگل کاشیربھی اس کی مرضی کے بغیراپنی کچھارسے باہرنہیں نکلتاتھا۔پرندے اسے دیکھتے ہی درخت کی ٹہنیوں میں چھپ جاتے تھے۔اورتواور،ہاتھی جیسا طاقت ورجانوربھی اسکواڑتے دیکھ کراپنی سونڈسے سلامی پیش کرتاتھا۔
جب سفید طوطے کویہ احساس ہواکہ اس نے بادشاہ کو مالی طورپربہت زیادہ نقصان پہنچادیاہے اوراب اس کی اصلیت کھل سکتی ہے تواس نے ایک حیرت انگیزچال چلی۔بادشاہ کو بتایاکہ ہمسایہ ملک کے حاکم نے اس کی دولت کولوٹنے کامنصوبہ بنایاہواہے اوراس کے لیے ایک بہت بڑی فوج اکٹھی کررکھی ہے۔اس سے پہلے کہ وہ ہمارے ملک پرحملہ کرے،بادشاہ کو چاہیے کہ فوری طورپر اس کے ناپاک عزائم خاک میں ملادے اور اسے نیست ونابودکرڈالے۔بادشاہ نے سپہ سالار کو بلاکر فوج کی تیاری کاحکم دیا۔سپہ سالارنے بتایاکہ فوج بہت ناخوش ہے کیونکہ سپاہیوں کوکئی مہینے سے پوری تنخواہ نہیں ملی۔طوطے نے سپہ سالارکی خواہش کے مطابق شاہی خزانے سے دس ہزار اشرفیاں اس کے حوالے کردیں تاکہ وہ اپنی سپاہ کوخوش رکھ سکے۔
اب سپہ سالاربھی سمجھ چکاتھاکہ اقتدارکااصل مالک کون ہے۔ وہ فوراًطوطے کے ساتھ مل گیا۔خیردشمن ملک کی جانب کوچ کی گئی۔بادشاہ اتناآرام طلب ہوچکاتھاکہ گھوڑے کی سواری اس کے لیے ناممکن تھی۔اس کے لیے ایک شاہی آرام دہ بگھی کا بندوبست کیاگیا۔دس بارہ دن کی مسافت کے بعدجنگ کامیدان آیا۔مخالف حاکم کی فوج سامنے آن کھڑی ہوئی۔
جنگ شروع ہونے سے پہلے سفیدطوطے نے اپنے بادشاہ کو مشورہ دیاکہ اب وہ گھوڑے پرسوارہوکراپنی فوج کی کمان کرے تاکہ فوج کاحوصلہ بلندہو۔بادشاہ اسپ عربی پرسوار ہوکربہت شان سے میدان جنگ میں نکلا۔اس نے سونے اورفولادسے مزین خود پہناہواتھا۔اس کے دونوں ہاتھوں میں ہیرے جواہرات سے مزین جڑائوحفاظتی کنگن تھے۔اس کی تلوار کے دستے پراتنے خوبصورت پتھرلگے ہوئے تھے کہ ان کی چمک پرآنکھ نہیں ٹھہرتی تھی۔
جب بادشاہ تھوڑاساآگے گیا، مڑکردیکھاتواس کی فوج کافی پیچھے رہ چکی تھی۔صرف سپہ سالارچند دستوں کے ساتھ اس کے پیچھے کھڑا تھا۔سامنے دیکھاتودشمن فوج اوراس کامخالف بادشاہ پوری طاقت کے ساتھ اس کے سامنے تھا۔دشمن فوج کی جانب سے صرف ایک تیرآیااوربادشاہ کے حلق سے پار ہوگیا۔وہ گھوڑے سے گرگیا۔ زخمی حالت میں حکم دیاکہ فوج مددکوآئے مگرسپہ سالاریااس کاکوئی بھی سپاہی اسے اٹھانے نہ آیا۔
لیکن سب سے عجیب حرکت درباری طوطے نے کی۔وہ پھرسے اڑکرمخالف بادشاہ کے کندھے پربیٹھ گیا۔جانے سے پہلے اس نے بادشاہ کے کان میں کہاکہ میں تمہارے جیسے پانچ بیوقوف اورظالم حاکموں کے ساتھ کام کرچکاہوں! میں ہی تمہارے جرائم کی سزاہوں!مجھے توتمہارے پاس تمہارے بدترین دشمن نے بھجوایاتھا!میں تواصل میں اس کا نمک خوار ہوں۔یہ ایک بے مقصدسی فرضی کہانی ہے۔ اس کاحقیقت میں کوئی مطلب نہیں۔ میراخیال ہے کہ شائدمجھے اس کہانی کونہیں لکھناچاہیے تھا!یہ بالکل سچ نہیں ہے پریہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ مکمل سچ ہو؟