نہلے پہ دہلا
جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے۔ یار اغیار ہوگئے، قاتل مقتول ہوگئے،جو حق پہ تھے وہ باطل کی طرف ہوگئے۔
اب بہت کچھ تبدیل سا ہوگیا ہے۔ جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے۔ یار اغیار ہوگئے، قاتل مقتول ہوگئے،جو حق پہ تھے وہ باطل کی طرف ہوگئے۔ اسی تذبذب میں تھے فیض صاحب جب وہ یہ سطور رقم کر رہے تھے ''یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر'' بے نظیر قتل ہو کے ان ہی گلیوں سے آئی تھی جن گلیوں پر عوام نے اسے اپنی پلکوں پر سجا کر اقتدار کی کرسی پر بٹھایا تھا۔ اور پھر ایک دن اس کی پارٹی تاریخ ہوگئی بہ زور زرداری ! نہ کہ بہ زور شمشیر۔ اس سے پہلے جب بھی شمشیر گری یہ پارٹی اور جڑیں پکڑتی تھی۔
بے نظیر پہ کئی الزام لگتے تھے مگر وہ ہمیشہ سرخرو ہوکے آتی تھی، اس کے حلقہ احباب میں آگ سی لگ جاتی تھی۔ جنرل ضیا سے لے کر جنرل مشرف تک سب کو منہ کی کھانی پڑی اور اب کی بار زرداری اور ذوالفقار میں جو جنگ کے طبل بج چکے ہیں، کون ہیرو ہے کون ولن ہے کچھ سمجھ نہیں آرہا۔گنے کے داموں کے مارے دہقانوں اور آبادگاروں کو تو ذوالفقار ہیرو لگتا ہے اور شوگر مل کے مالکوں کو زرداری۔ سندھ کے افسران جو اچھے عہدوں پر فائز ہیں، وہ ماسٹرجو غیر حاضر ہیں اور تنخواہ گھر بیٹھے لے رہا ہے۔
وہ وڈیرہ جو اقتدار میں ہے ان کا ہیرو آصف ہے مگر مرزا ان کا ہیرو ہے جن افسران کو او ایس ڈی بناکر رکھا گیا ہے، وہ وڈیرے جو اقتدار سے دور ہیں کہ اب وہ جیالے چلے گئے جو راستوں پر نکل آیا کرتے تھے۔ لیکن کچھ اب بھی ہیں جو اس کو جمہوری اور غیر جمہوری قوتوں کا جھگڑا سمجھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ مرزا کے پیچھے کوئی ہے یا ان کی زبان بول رہا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ زرداری نے کوئی گل نہیں کھلائے مگر پھر بھی وہ سسٹم کا حصہ ہے اور اس سسٹم کو پٹڑی سے نہیں اترنا چاہیے۔
ہم میں سے بہت سے دوست وہی پرانی معجون بیچ رہے ہیں۔ اس سے پہلے سندھ حکومت ہمیشہ کنگال رہتی تھی، تو کہتے تھے کہ وفاق سے پورا حق نہیں مل رہا ہم عوام کی خدمت کرنے سے قاصر ہیں، ہمارے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ساتویں مالیاتی ایوارڈ میں سندھ کے سوا سو ارب بڑھ گئے۔ چالیس پچاس ارب سندھ ریونیو بورڈ بنانے سے ہر سال ایک اندازے کے مطابق ایک ہزار ارب ان سات سالوں سے اور ملے مگر عوام کی تقدیر نہیں بدلی ۔
کسی گندی نالی کی نہ صفائی ہوئی نہ بنی کہ شکارپور میں جاکر کوئی یہ حال خود اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے کہ راستے نالیاں بن گئی ہیں اور سندھ کے تقریباً سارے شہر سوائے کراچی کے شکارپور کی صورت بنے ہوئے ہیں اور کراچی جس کا مقابلہ لاہور اور اسلام آباد سے کیا جائے گا تو بہت ہی پسماندہ نظر آئے گا۔ کہاں گیا وہ کراچی ! وہ میٹروٹرین والا پراجیکٹ۔ ہاں مگر کل لاہور کی میٹرو ٹرین کے لیے 126 ارب وفاق نے منظور کرلیے۔ ٹھیک میٹرو بھی آپ کو چاہیے، میٹرو ٹرین بھی آپ کو چاہیے، باقی کراچی کو جو قائم علی شاہ نے دینا تھا وہ بھی نہ ملا۔ یہ شہر نہ وفاق کا منظور نظر رہا نہ سندھ حکومت کا بلکہ جن کا بلدیہ پر دباؤ تھا سوائے مصطفیٰ کمال کے وہ بھی حق ادا نہ کرسکے۔
ہاں مگر اس شہر میں ٹارگٹ کلنگ بڑی حد تک ختم ہوئی ہے، چوری ڈاکے و بھتہ بند ہوا ہے۔ ہوسکتا ہے یہ دیرپا نہ ہو مگر یہ قائم علی شاہ کی حکومت کے کارنامے ہیں نہ ہی گورنر سندھ نے کوئی دودھ کی نہر نکالی ہے۔جس طرح سے یہ شہر مافیائی انداز میں چل رہا تھا، جوتوں کی چاپ تو آنی تھی، وہ تو ہر گھڑی تیار ہیں لیکن موقعہ وہ نااہلی ہے جو سول حکومت نہ ان کو دیں۔ تو لیجیے بلی تھیلے سے باہر اور آج کل پھر مرزا ٹاک شوز پر چھائے ہوئے ہیں اس مرتبہ اس کا ہدف متحدہ یا الطاف حسین نہیں بلکہ آصف علی زرداری ہے۔ان دونوں کی بچپن کی یاری میں رحمن ملک آڑے آگئے، وہ بھی وزیر داخلہ تھے تو مرزا سندھ کے وزیر داخلہ تھے۔
اگر قائم علی شاہ جیسا وزیر اعلیٰ ہو تو مرزا بھی اپنے آپ کو وزیر اعلیٰ سمجھ بیٹھے، وہ تو خیر ان کے ہوش ٹھکانے تب آئے جب فریال تالپور نے بتادیا کہ قائم علی شاہ کا نہ ہونا دراصل میرا ہونا ہے چاہے میں وزیر ہوں یا نہ ہوں۔ مرزا نے دو دو ہاتھ رحمن ملک سے سیدھے کیے۔ رحمن ملک وہ ذریعہ ہے جس کے ذریعے پیپلز پارٹی اور متحدہ ٹریک ٹو پر ملاقاتیں کرتے تھے۔ خفیہ یارانے رکھتے تھے اور بظاہر نوراکشتی بھی کرتے تھے۔
یہ کام بے نظیر نہیں کیا کرتی تھیں، وہ اپنے دیہی حلقے اپنے ساتھ رکھنے کے لیے متحدہ سے جان بوجھ کر بھی ٹکراؤ میں رہتی تھیں مگر یہ کام زرداری نہیں کرتے تھے اور روز آئے دن الطاف حسین نے جتنا اس بار دو سندھ مانگے اس سے پہلے کبھی نہیں مانگے اور اس میں بھی نہ جانے کون سی حکمت عملی تھی۔ زرداری کی سرائیکی صوبہ بنانے کی، جس سے متحدہ کو یہ آواز بلند کرنے کا اور موقعہ ملااور اس طرح وہ اپنے حلقوں کے ایک نظریہ دینے میں کامیاب ہو گیا اور اس طرح تحریک انصاف سے اپنے کوزوں کو بچا کر رکھا۔
مرزا کو رحمان ملک کی کراچی میں مداخلت اچھی نہیں لگی۔ ایک طرف مرزا صاحب تھے جو زرداری کے بزنس پارٹنر تھے اور دوسری طرف ملک صاحب بھی سرمایہ کاری میں شراکت رکھتے تھے۔
اور اس طرح مرزا گاہے بہ گاہے اجنبی ہوگئے۔ یار نے یار ٹھکرا دیا۔ بچپن کی یاری، پٹارو کالج کے زمانے کی یاری، بہت سی مہمات ایک ساتھ کیں۔ بالآخر زرداری نے ایک دن مرزا سے بدین شوگر مل واپس لینے کی بات کی۔ وہ شوگر مل جسے مرزا اپنی سمجھتا تھا۔ بات یہاں سے بگڑ گئی ۔
یاریاں بدل گئیں اور اب جب بیٹے بلاول نے ابا سے دوریاں کرلی ہیں تو اباکے مسائل میں اضافہ ہوا ہے اور نیشنل ایکشن پروگرام کے تحت مالیاتی خرد برد بھی بری حکمرانی بھی دہشت گردی کے زمرے میں آتی ہے تو یقینا اب بہت سے NABکو بھی جائیں گے اور لوگ خاموش رہیں گے۔
سوال یہ نہیں ہے کہ مرزا کی ڈوری پیچھے سے کون ہلا رہا ہے، سوال یہ ہے کہ لوگ یہ تماشا خاموشی سے کیوں دیکھ رہے ہیں۔ یہ ہے وہ پیمانہ۔ کوشش تو سندھ کی سوئی ہوئی حکومت کی بڑی ہے کہ ان کا بھی کوئی یارانہ ہوجائے۔ ان سے جو اب نیشنل ایکشن پروگرام کے تحت آگے نکل گئے ہیں، تو دستخط بھی تو آپ نے کیے تھے، آئین میں آئین کے بنیادی ڈھانچے کو ملانے کی حد تک۔ ترمیم بھی تو آپ نے کی تھی۔ تو یہ بار بھی سپریم کورٹ کے کاندھے پر پڑا ۔ ایک مرتبہ پھر سے بنیادی ڈھانچہ وضع کرے۔ کیا خبر کہیں وہ بھی ظفر علی شاہ کیس جیسا نہ ہو۔
آپ کو کس نے روکا تھا کہ سندھ کو ایک اہل وزیر اعلیٰ دیتے اس پر تو آپ کے بلاول نے بھی انگلیاں اٹھائیں وہ روٹھ کے چلے گئے مگر آپ ٹس سے مس نہ ہوئے تو لازم تھا کہ کوئی نہ کوئی مرزا بن کے آنا تھا۔جمہوریت کی پٹری تب اترے گی جب عزیز ہم وطنو کی تقریر ہوگی۔ وہ تو ہوتی ہوئی دور تک دکھائی نہیں دیتی۔
یقیناً پاکستان کی سیاست میںاسٹیبلشمنٹ ایک حقیقت ہے۔ اچھی بات ہے یا بری بات ہے۔ اس سے ہٹ کر یہ ایک زمینی حقیقت ہے۔ ان کی مداخلت بھی کوئی اچھی بات نہیں۔ مگر پاکستان کو اداروں کی ضرورت ہے۔ جمہوریت کو جمہوریت کے رکھوالوں نے جو نقصان پہنچایا ہے اس میں سب سے سرفہرست پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت ہے کہ سندھ کی کابینہ ایک ادارہ ہے وہ سندھ کی اسمبلی کی کوکھ سے جنم لیتا ہے۔
پیپلز پارٹی کی قیادت نے سندھ کی کابینہ کے رکھوالوں یعنی وزیر اعلیٰ والی آسامی خالی چھوڑ کر اور مسلسل سات سال سے یہ کام کرکے جو سندھ کا نیلام عام لگایا ہے وہ افلاس سندھ میں پھیلا، وہ تعلیم، صحت تباہ ہوئی ہے، وہ وہ بیماریاں سندھ میں پھیلی ہیں کہ اب آپ کو ہر جگہ تھر جیسے مناظر ہی دیکھنے کو ملیں گے۔
ہم بھی ایک ایسے مجرم کی تلاش میں ہیں جو جمہوریت کو نقصان بنیادی طور پر پہنچاتا ہے اور باقی سب ثانوی ہے۔ وہ ہیں سندھ کے وڈیرے کی نفسیات اور اس نفسیات کا محور میرے خیال میں آج وہ محور کوئی اور نہیں بلکہ خود پیپلز پارٹی کی قیادت ہے۔ لوگوں کو بھی اب قائم علی شاہ کی طرح نیند آگئی ہے وہ کہتے ہیں مرزا اور زرداری کا جھگڑا ذاتی ہے۔ یہ کوئی بے نظیر بمقابلہ ضیاء یا مشرف والی بات نہیں اور جمہوریت کوکوئی خطرہ نہیں۔